Ads

عوام کے صبر کا پیمانہ

ویسے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت جہاں جہاں نافذ ہے وہاں کرپشن اور بدتمیزیاں عام ہیں لیکن اس حوالے سے پاکستان کچھ زیادہ ہی آگے جا رہا ہے ۔ 71 سالہ دور میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بہت سی ناخوشگوار باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت کے اکابرین کے ساتھ بد اخلاقی بدزبانی اور توہین آمیز رویوں کا جو سلسلہ جاری ہے وہ نہ اتفاقی ہے نہ اس میں چند افراد ملوث ہیں یہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد حکمرانوں کو بے توقیر اور بدنام کر کے عوام کی نظروں سے گرانا ہے۔

جمہوریت میں اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں لیکن جب اختلاف رائے حکومتوں کے خلاف منظم اور منصوبہ بند ہوتا ہے تو یہ اختلاف رائے جمہوریت کے حسن کے بجائے جمہوریت  کے چہرے پر کوڑھ کا داغ بن جاتا ہے اور عوام میں جمہوریت کے حوالے سے بدظنی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ملک کے وزیر اعظم کے خلاف مخالفین جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ سڑک چھاپ لوگ بھی نہیں کرتے۔ وزیر اعظم ملک اور جمہوریت کا مان ہوتا ہے لیکن ہماری  جمہوریت کے حکما وزیراعظم کے خلاف جو زبان جو رویے اختیار کر رہے ہیں وہ کوئی اتفاقی بات ہے نہ بے مقصد ہے، یہ ایک منظم اور مربوط پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصد مڈل کلاس کو بد نام کرنا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاس پارٹی برسر اقتدار آئی ہے جسے اشرافیہ کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اشرافیہ موجودہ حکومت کی اس قدر دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟

اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ اشرافیہ کی موجودہ حکومت سے بد ظنی یا دشمنی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ اشرافیہ کسی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی حکومت کو اپنے لیے توہین سمجھتی ہے کیونکہ اشرافیہ کی پرتعیش زندگی پر ایک ملنگ حکومت کا اقتدار قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اشرافیہ کے متبرک شاہوں اور شہنشاہوں کو اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات میں اس قدر خوار کر دیا ہے کہ عوام اشرافیہ کے نام سے الرجک ہو رہے ہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ ان شاہوں اور شہنشاہوں کو متعلقہ اداروں نے گرفتار کر کے عوام میں اور زیادہ بے آبرو کر دیا ہے۔

توہین اور توہین کی اس تکنیک نے حکومت خاص طور پر وزیر اعظم کو عوام میں اس قدر قابل اعتبار بنا دیا ہے کہ اپوزیشن کی لاکھ کوششوں کے باوجود عوام کے دلوں سے حکومت خاص طور پر وزیر اعظم کا اعتبار ختم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ملک میں سابقہ حکومتوں کے لیے ہوئے 24 ہزار ارب قرضوں کی وجہ مہنگائی کا آسمان پر پہنچنا فطری ہے۔ اشرافیہ مہنگائی کے نام پر عوام کو مشتعل اور حکومت سے متنفر کرنے کہ ہر طرح سے کوشش کر رہی ہے لیکن وہ عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، عوام بلاشبہ مہنگائی سے سخت پریشان ہیں لیکن وہ جان رہے ہیں کہ ایک دس ماہی حکومت کا یہ کام نہیں ہو سکتا بلکہ اس مہنگائی کی ذمے دار وہ دس سالہ حکومتیں ہیں جنھوں نے 24 ہزار ارب کے قرضے لے کر ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔

عوام میں اس شعور کی وجہ اشرافیہ سخت ہراساں ہے کہ وہ عوام جو حکمرانوں کی ایک کال پر بغیر سوچے سمجھے سڑکوں پر آ جاتے تھے، وہ عوام آج سر پر مہنگائی کے پہاڑ رکھ کر بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ اس مہنگائی کی ذمے دار موجودہ حکومت نہیں بلکہ ماضی کی اشرافیائی حکومتیں ہیں جنھوں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ کرپشن کے اربوں روپے اپنے بینکوں میں رکھنے کی گنجائش نہیں رہی تو انھوں نے یہ بھاری رقمیں فالودہ بیچنے والوں، غریب طبقات کے ان اکاؤنٹس میں سازشانہ طریقوں سے اس طرح منتقل کر دیے کہ بے چارے اکاؤنٹس ہولڈروں کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ اشرافیہ کی لوٹ مار سے عبارت ہے لیکن جو لوٹ مار پچھلے دس سالوں میں ہوئی ہے اس کا عشر عشیر بھی 71 سالوں میں نہیں ہوا۔

اونٹ کی پکڑ دنیا میں بہت مشہور ہے لیکن نیب کی پکڑ نے اونٹ کی پکڑ کو بھی مات دے دی ہے۔ احتسابی ادارے ہمارے ملک میں اس لیے بدنام تھے کہ وہ کچھ لے دے کر معاملات نیچے ہی نیچے نمٹا دیتے تھے یا اشرافیہ کے تعلقات خوف اور اختیارات سے اس قدر خوف زدہ رہتے تھے کہ کسی کو ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی بلکہ احتسابی اداروں کو اشرافیہ اپنی جیبوں میں رکھے رہتی تھی، ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ احتسابی ادارے اشرافیہ کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور بلاامتیاز مجرموں کے گلے میں رسی ڈال رہے ہیں۔

احتسابی اداروں کے اس رویے نے اشرافیہ کو اس قدر مایوس کیا ہے کہ وہ ان اداروں کو بدنام کرنے کی ایک منظم مہم چلا رہے ہیں لیکن اشرافیہ کے کرتوت نے عوام کو اس قدر بدظن کر دیا ہے کہ وہ کچھ سننے کے لیے تیار نہیں اور عوام کے اس رویے سے اشرافیہ سخت مایوس ہے اور مایوسی کے عالم میں حکومت کے خلاف طرح طرح کے الزامات کے علاوہ حکمرانوں کی ایسی توہین کر رہی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حکومت کے خلاف جگہ جگہ پروپیگنڈے کے جو الاؤ جلائے جا رہے ہیں یہ اشرافیہ کی مایوسی کے ثبوت ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس قدر توہین آمیز پروپیگنڈے کے باوجود عوام ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں اور اصل میں عوام کے اس رویے ہی کی وجہ اشرافیہ سخت مایوسی کا شکار ہے۔

ہم نے اپنی 50 سالہ قلمی زندگی میں کبھی کسی حکومت کے حق میں تعریف کے دو بول نہیں لکھے کہ اشرافیائی حکومتیں اس قابل ہی نہیں رہیں کہ ان کے حق میں لکھا جائے ملک میں پہلی بار ایک دبنگ مڈل حکومت آئی ہے جس کا سربراہ کہتا ہے کہ بھلے حکومت چلی جائے میں عوامی دولت کے لٹیروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن عوام کے برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے مہنگائی نے عوام کو ادھ موا کر دیا ہے اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مگرمچھوں سے لی جانے والی بھاری رقوم کو مہنگائی کم کرنے میں استعمال کرے اشرافیہ سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم کو عوام کی بھلائی میں استعمال کرے ورنہ عوام  کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور عوام حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

The post عوام کے صبر کا پیمانہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LBu1pf
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment