Ads

وزیر اعظم کی حلوہ خور ٹیم

کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میںایک ملک میں انتقال اقتدار کا عجیب طریقہ رائج تھا‘اس زمانے میں حفاظت کی خاطر شہروں کے گرد فصیل ہوا کرتے تھے ‘ جب بادشاہ فوت ہوجاتا ‘تو صبح شہر کے بڑے دروازے کے کھلتے ہی جو مسافر پہلے شہر میں داخل ہوتااس کو تاج پہنا کر بادشاہ بنا لیا جاتا۔

ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بادشاہ سلامت فوت ہوگئے ‘رواج کے مطابق صبح سویرے تمام وزراء اور امراء سلطنت جمع ہو کر ‘شہر کے بڑے دروازے کے کھلنے کا انتظار کررہے تھے ‘جب دروازہ کھلا تو صرف ایک فقیر باہر بیٹھا  تھا‘ لوگوں نے دوڑ کر اس کو کندھوں پر اٹھا لیا‘ڈھول بجنے لگے اور ’’بادشاہ سلامت زندہ باد‘‘کے نعروں میں فقیر کو شاہی محل پہنچا دیا گیا۔

وزیر با تدبیر نے انھیں بادشاہ بننے کی مبارک باد دی اور ان کو بادشاہی کے طور طریقے بتائے‘ ملازم شاہی خلعت لے کر آیا‘ اس نے ملازم کو اپنی فقیری کی گدڑی اورکشکول دے کر سنبھال کر رکھنے کی تاکید کی ‘شاہی خلعت زیب تن کیا ‘چونکہ رات کا بھوکا تھا اس لیے حکم صادر کیا کہ ناشتے لے آؤ مگر اس میں حلوہ ضرور ہو‘ اس طرح وقت گزرتا گیا۔فقیر چونکہ جنم جنم کا بھوکا تھا اور اسے حلوہ بہت پسند تھا ‘اس لیے قسم قسم کے حلوے کھانے کی فرمائش کرتا رہتا‘صبح حلوہ‘ دوپہر حلوہ‘ شام حلو ہ اور رات کوحلوہ۔

ایک دن وزیر نے ان سے کہا کہ بادشاہ سلامت دشمن سرحد پر فوج جمع کر رہا ہے‘ ہمارے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کے ارادے اچھے نہیں ہیں‘ بادشاہ سلامت نے نوکر کو آواز دی ’حلوہ لے آؤ۔وزیر نے ان سے پھر پوچھا کہ ان حالات میں کیا حکم ہے‘بادشاہ سلامت نے کہا کہ وزیر صاحب ان معاملات میں جو تمہارے دل میں آئے کرو‘مجھے صرف حلوہ کھانے دو‘ہفتے کے بعد وزیر نے کہا کہ دشمن کی فوج نے سرحد پار کرکے ہمارے شہروں پر قبضے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

بادشاہ سلامت نے سنی ان سنی کرکے نوکر کو آواز دی‘حلوہ۔ چند دنوں کے بعد خبر آئی کہ دشمن کی فوجیں شہر پر شہر فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ فقیر نے آواز دی‘حلوہ۔ایک دن وزیر نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ بادشاہ حضور دشمن نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور اب اس کی فوج محل کی طرف آرہی ہیں۔اس نے نوکر کو حکم دیا کہ جلدی سے حلوہ لے آؤ اور میری گدڑی اور کشکول بھی لے آؤ‘ حلوہ کھانے کے بعد گدڑی پہنی اور کشکول ہاتھ میں لے کر عقبی دروازے کی طرف بھاگا‘وزیر اور مصاحبین نے آواز دی حضور کہاں جارہے ہیں‘اس نے جواب دیا کہ حضور گیا بھاڑ میں‘ میں تو حلوہ کھانے کے لیے یہاںٹہرا تھا‘اب جب دشمن آرہا ہے تو میں یہاں کیا کروں گا‘اب تم جانو اور تمہارا ملک۔ پاکستان بھی ہمیشہ حلوہ کھاکر بھاگنے والے مشیروں اور وزیروں کے قبضے میں رہا ہے۔

اس کہانی کے بعدجنرل مشرف دور کی 7جنوری کی ایک اخباری خبرملاحظہ کیجیے۔’’پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہنے والے شوکت عزیزصاحب اتوار کو لندن کے لیے روانہ ہوگئے ‘ان کی جلدی واپسی کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘انھوں نے وزارتی کالونی میں اپنی رہائش گاہ چھوڑ دی ہے‘ تمام بل ادا کردیے اور اپنے اسٹاف کو الوداع کہا‘ان کی اہلیہ بیگم رخسانہ عزیز بھی ان کے ہمراہ تھیں‘وہ لندن میں اپنی بیٹی کی قیمتی رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔

وہ دو ہفتے کے بعد سوئیٹزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF)کے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرینگے‘شوکت عزیز کا خلیج کے علاقے میں قیام کا ارادہ ہے‘وہ اپنی ایک سرمایہ کار کمپنی قائم کرنا چاہتے ہیں‘اس کمپنی کا مرکزی دفترمتحدہ عرب امارات میں ہوگا‘وہ اگلے مہینے انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے بھی پاکستان میں موجود نہیں ہونگے‘کیونکہ ڈیواس (Devas) کانفرنس میں شرکت کے بعد وہ اگلے ماہ سعودی عرب جائیں گے۔ شوکت عزیز صاحب جاتے ہوئے پارٹی کے کسی رہنما سے بھی نہیں ملے‘حالانکہ انھوں نے ان کو وزیر اعظم منتخب کیا تھا‘ انھوں نے بیرون ملک جانے سے قبل صرف صدر مشرف سے ایک دن قبل الوداعی ملاقات کی۔‘‘ ماضی کی اس حلوہ خور فقیر کی کہانی اور شوکت عزیز کے متعلق اس اخباری خبر میں کیا بہت زیادہ مماثلت نہیں پائی جاتی۔؟

خیبر ٹی وی کے ایک مشہور مزاحیہ پروگرام میں اظہار قاضی روپ بدل بدل کر بہت اچھے خاکے پیش کرتا تھا‘ ایک خاکے میں وہ نشئی بنا ہوا ہے‘ایک آدمی سے سوال کرتا ہے تو اس کو دھتکارتا ہے‘یہ جواب میں کہتا ہے کہ دیکھو میں کسی دن پاکستان کا وزیر اعظم بن جاؤں گا‘وہ آدمی ہنسا اور کہا کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے پاس شناختی کارڈ بھی ہے، اگر معین قریشی بغیر کسی شناختی کارڈ کے پاکستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو آخر میں تو پاکستان کا جائز شہری ہوں میں کیوں نہیں بن سکتا؟۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

جنگ عظیم کے بعد جب سامراجی ممالک کو نوآبادیات پر فوجی قبضہ قائم رکھنا ناممکن لگا تو عالمی سرمایہ داری نے آ ج دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو مختلف مالیاتی اداروں کے بندھنوں میں جکڑ رکھنے کے لیے ادارے بنائے‘ یہ مالیاتی ادارے جنگ عظیم دوم کے خاتمے‘ جرمنی اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی شکست‘ سوویت یونین کی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے سرمایہ داری کے متبادل سوشلسٹ  نظام کے خطرے کو بھانپتے ہوئے دنیا کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کے لیے سامراجی ممالک نے بنائے تھے ان ادارو ں کو عام طور پرآئی ایف آئیز (International Financial Institutions-IFI) کہتے ہیں۔

ان میں اہم ترین جنگ عظیم کے خاتمے کے قریب 1944ء میں صدر روزویلٹ کی بلائی گئی ’’برٹین ووڈز کانفرنس‘‘ کے نتیجے میں بنائے گئے‘ان میں عالمی بینک‘IMFاور GATT (جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف) کے مالیاتی ادارے شامل ہیں‘ان عالمی اداروں کے علاوہ 60ء کی دہائی میں علاقائی ترقی کے نام پر مختلف مالیاتی ادارے بنائے گئے‘جن میںانٹر امریکن ڈیولپمنٹ بینک(IDP)افریقن ڈیولپمنٹ بینک (AFDP)ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADP) وغیرہ شامل ہیں‘ان آئی ایف آئیز نے امیر ملکوں کو مزید امیر اور غریب ممالک کو مزید غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر ترقی پذیر ملک لازمی طور پر ان میں سے کسی نہ کسی مالیاتی ادارے کا مقروض ہوتا ہے اور یہ ادارہ سود کی شکل میں اس کے بدن سے دولت کا آخری قطرہ بھی کھینچنے کے چکر میں ہوتا ہے‘سرمایہ داری نظام نے اپنی ارتقائی دور سے ہی عوام کو لوٹنے کے لیے ادارے بنائے ہیں۔

موجودہ حکومت نے اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا لیکن حکومتی اور پارٹی سطح پر کوئی بھی سپورٹ اس کو نہ دی‘ پارٹی کے اندر ان کی مخالفت ‘جہانگیر ترین کی مضبوط لابی کر رہی تھی اوراس کے علاوہ جنرل مشرف کے معاشی ٹیم کے دو مشیر عشرت حسین اور رزاق داؤد کو ان کے کندھوں پر سوار کر دیا‘ شاید اسد عمر میں پاکستانی عوام کے ہمدردی کے جراثیم موجود تھے ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ ملک کے معاشیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی FBRکا چارج شبر زیدی کے حوالے کردیا گیا‘ موصوف بڑی بڑی کمپنیوں کے ٹیکس مشیر رہے ہیں‘ ٹیکس بچانے کے طریقے بتانے والے کو ٹیکس بڑھانے پر لگا دیا‘‘ باقر رضوی کون ہے کہاں سے آیا ہے؟۔ ملک کے 22کروڑ عوام کی معاشی زندگی کی رسی ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی ‘ان لوگوں یا ماہرین کا کوئی تعلق عوام سے نہیں ہے ‘ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔رزاق داؤد صاحب نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ حاصل کیا اور عمران خان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی ‘یہ سب ماہرین کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔

صدر ایوب کے وزیر خزانہ شعیب خان سے لے کر آج تک ملکی معیشت ہمیشہ سامراجی اداروں کے ملازموں  کے ہاتھ میں رہی۔اسحاق ڈار شاید واحد با اختیار دیسی وزیر خزانہ تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں سے سب سے اچھے طریقے سے معاشی نظام کو چلایا‘موجودہ معاشی ٹیم کی قابلیت کے قصے تو بڑے مشہور تھے‘انھوں نے بڑے آسان طریقے سے پیسے پیدا کرنے کا فارمولا استعمال کیا‘ نہ پیداوار بڑھائی‘نہ برآمدات پر توجہ دی‘نہ کاروبار کو وسعت دینے کا فارمولا بنایا‘ نہ بزنس سرکل کو اعتماد میں لیا بلکہ کلہاڑی اٹھائی اور ہر طرف گھمائی جو بھی سامنے آیا اس کو کاٹ دیا‘معاشی مسائل کو حل کرنے کا بہترین اور آسان ترین طریقہ‘عوام کی چمڑی اتارو‘جو بھی دو پیسے کماتا ہے اس سے بھتہ لو‘ڈر تو یہ ہے کہ یہ معاشی پہلوان تو شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح چلے جائیں گے لیکن غریب عوام کے آیندہ نسلوں کو بھی مقروض کردیں گے‘ان کا تو ایک ہی نعرہ ہے کہ حلوہ لاؤ اور جب بحران آئے گا تو کہیں گے کہ ہماری گدڑی لے آؤ۔

The post وزیر اعظم کی حلوہ خور ٹیم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XHa1rV
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment