Ads

تدریس وراثت میں ملی، اس میں کشش محسوس ہوتی ہے

محبت، مطالعہ اور مزاح۔ ان الفاظ میں ڈاکٹر وحید الرحمن خان اپنا تعارف کراتے ہیں۔ ان کے مطالعہ اور مزاح نگاری پر تو نسبتاً تفصیل سے بات ہوئی، لیکن محبت کے بارے میں انہوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا ’’انسانیت سے محبت۔‘‘ اس سے آگے مدد ہمیں ممتاز ادیب اور سکالر ڈاکٹر اسلم انصاری کی ایک تحریر سے ملی، جس میں انہوں نے محبت اور مزاح کے باہمی تعلق پر ایک عمدہ نکتہ بیان کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’’محبت کسی اور ذات سے وابستگی کا نام ہے۔ مزاح بھی اپنی ذات سے عدم وابستگی (Self-Detachment) کی ایک صورت ہے۔ اس اعتبار سے محبت اور مزاح دونوں ہمیں اپنی ذات سے بالاتر ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ وحید الرحمن کے مزاح میں اتفاق سے یہ دونوں عنصر موجود ہیں بلکہ ان کے مزاح کی اساس محبت کے جذبے کی حقیقت پسندانہ تعبیر پر ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ ان کا جذبہ محبت غزل کی زبان میں بیان نہیں ہوتا بلکہ خود پر ہنسنے کی صلاحیت کے ساتھ زندگی کی ایک مضحک صورتحال کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس طرح محبت اور مزاح ان کے ہاں ایک ہو جاتے ہیں۔‘‘

وحید الرحمن خان پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کررہے تھے جب ان کی طنز و مزاح کی پہلی کتاب ’’گفتنی شگفتنی‘‘ شائع ہوئی۔ 1995ء کے آغاز میں آنے والی اس کتاب کو جہاں عمومی پذیرائی ملی وہاں کرنل محمد خاں اور مشفق خواجہ (خامہ بگوش) جیسے ثقہ لکھاریوں نے بھی ان کے طرز نگارش کو سراہتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

خامہ بگوش نے ’’چند نئے خامہ خراب‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا۔ اس سے متعلق اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’’اس دور میں خامہ بگوش کا کسی کتاب پر کالم لکھنا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ عام طور پر وہ جو کالم لکھتے تھے ان میں بڑا طنز ہوتا تھا۔ مزاح کے لطیف پیرائے میں لکھنے والے کی کمزوریاں بیان کی جاتی تھیں۔ لیکن انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی، جس پر لوگوں نے مجھے باقاعدہ مبارکباد دی۔‘‘ ان کی کتاب کے ساتھ اس کے عنوان ’’گفتنی شگفتنی‘‘ کو بھی لوگوں نے پسند کیا۔ بلکہ ایک معروف مزاحیہ شاعر کو تو یہ نام اتنا ’’پسند‘‘ آیا کہ انہوں نے اپنے ایک شعری مجموعے کا اس سے ملتا جلتا نام رکھ ڈالا، جبکہ ایک بزرگ انشائیہ نویس نے کتاب کے آدھے عنوان پر اپنی کتاب کا نام رکھا۔

وحید الرحمن خان نے ملتان کے ایک مذہبی، علمی اور ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا مولانا خان محمد فاضل دیوبند اور شیخ الحدیث تھے۔ والد حفیظ الرحمن خان اردو ادب کے نامور استاد اور ادیب ہیں۔ اپنے والد کے متعلق وحید الرحمن کہتے ہیں ’’والد گرامی حفیظ الرحمن خان ایک خوش ذوق انسان اور نظریاتی آدمی ہیں۔ نظریاتی بھی ایسے جنہوں نے کبھی اپنے نظریات کو مفادات سے وابستہ نہیں کیا، ورنہ میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ دائیں بازو کے لوگ ہوں یا بائیں بازو کے، وہ اپنے نظریات کی قیمت ضرور وصول کرتے ہیں، مگر ہمارے والد صاحب نے نظریے کی بے لوث خدمت کی۔ والد صاحب کے علمی و ادبی اثرات ہماری پوری فیملی میں منتقل ہوئے۔

ہم سب بہن بھائیوں کا شعری ذوق بہت اچھا ہے۔ اگرچہ ہم شاعر نہیں ہیں لیکن شعر ہمیں یاد ہوجاتے ہیں، شعر ہمیں پسند آتے ہیں۔ تو یہ والد صاحب کے اثرات ہیں جو منتقل ہوئے ہماری طرف۔‘‘ وحید الرحمن خان نے گورنمنٹ کمپری ہینسو سکول ملتان سے میٹرک کیا۔ اس زمانے میں دو چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں، ایک کرکٹ کا شوق اور دوسرا شعر و ادب کا ذوق۔ انہوں نے ملتان کی طرف سے انڈر 19 کرکٹ کھیلی، وکٹ کیپر بیٹسمین تھے۔ اس کے ساتھ ان کے فکاہیہ مضامین بھی چھپنا شروع ہوگئے، چنانچہ شعرو و ادب سے تعلق بڑھتا گیا۔

اپنی پہلی تحریر سے متعلق انہوں نے بتایا ’’پہلے پہل میں بچوں کے لیے لکھتا تھا۔ پھر میں نے ’’مرزا لعل بیگ‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر لکھی اور اسے روزنامہ نوائے وقت کے ادبی صفحے کے انچارج عارف معین بلے کے پاس لے کر گیا۔ انہوں نے وہ تحریر پڑھی اور کہا کہ میں یہ اس لیے نہیں چھاپ رہا کہ آپ حفیظ الرحمن خان کے بیٹے ہیں بلکہ اس لیے چھاپ رہا ہوں کہ یہ تحریر اچھی ہے۔ یہ جملہ مجھے اب بھی سنائی دیتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس عمر میں ذات کے اظہار کے ساتھ نمائش کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ تحریر کے ساتھ تصویر بھی چھپ جاتی تھی، ساتھ دو چار لوگ تعریف بھی کردیتے تھے۔

تو اس شوق میں لکھتا چلاگیا۔‘‘ طنز و مزاح سے انہیں فطری مناسبت تھی، چنانچہ اسی میدان میں ان کے تخلیقی جوہر کھلے۔ اس زمانے میں پورے ملک کی طرح ملتان میں بھی نظریاتی کشمکش تھی۔ ایک طرف ترقی پسند تھے، دوسری طرف یہ فاران اکادمی کے نام سے ایک تنظیم کا حصہ تھے، جو اسلام اور پاکستان جیسے موضوعات کی نمائندگی کرتی تھی۔ اس کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’فاران اکادمی میں ہماری ادبی تربیت ہوئی، جہاں نظریے کے ساتھ خالص ادب کی تخلیق پر بھی زور دیا جاتا تھا۔ اس تنظیم سے ذوالکفل بخاری، مختار پارس اور شعیب ودود جیسے تخلیقی نوجوان وابستہ تھے۔ جبکہ معروف مزاحیہ شاعر خالد مسعود، مستحسن خیال، ڈاکٹر مختار ظفر اور والد گرامی حفیظ الرحمن خان ہمارے سینئر تھے۔‘‘

وحید الرحمن خان اپنے مرحوم دوست ذوالکفل بخاری کا ذکر بڑی محبت اور احترام سے کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ذوالکفل بخاری، عطاء اللہ شاہ بخاری کے نواسے ہیں۔ وہ بہت اچھے اور خوش ذوق انسان تھے اور ان کا حافظہ بھی اعلیٰ درجے کا تھا۔ میرے ہم عمر تھے، لیکن میری اور میرے دوستوں کی تربیت غیر محسوس انداز میں انہوں نے کی۔‘‘ طنز و مزاح سے دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے اردو کے بہترین مزاح نگاروں کو لگ کر پڑھا، جس کے اثرات ان کی تحریروں میں بھی نظر آتے ہیں۔ ’’ گفتنی شگفتنی‘‘ کے علاوہ ’’حفظ ماتبسم‘‘ اور ’’خامہ خرابیاں‘‘ ان کی طنزو مزاح کی کتابیں ہیں۔ انہوں نے اپنے تحقیقی کام میں بھی فکاہیہ ادب کو ترجیح دی۔ ایم فل میں خامہ بگوش (مشفق خواجہ) کے کالموں پر مقالہ تحریر کیا۔ ’’خامہ بگوش۔۔ ایک مطالعہ‘‘، مطالعہ قابل‘‘، ’’اردو طنز و ظرافت، فن اور روایت‘‘، ’’ہم دم اقبال‘‘ اور ’’نقد سفر‘‘ ان کے تحقیقی کام پر مشتمل کتابیں ہیں۔

ہم نے پوچھا کہ کس مزاح نگار کے اثرات نمایاں ہیں آپ کی مزاح نگاری پر؟ ان کا کہنا تھا، ’’کرنل محمد خاں کے قریب سمجھتا ہوں اپنے آپ کو۔ کرنل محمد خاں کا شعری ذوق عمدہ ہے اور وہ اپنی تحریر میں شاعری کا بہت اچھا استعمال کرتے ہیں تو میری تحریر میں بھی یہ چیز ان سے مشترک ہے۔

لیکن میں نے شعوری طور پر پطرس بخاری، شفیق الرحمن اور مشتاق احمد یوسفی سے سیکھنے کی کوشش کی تاکہ اپنا ایک اسلوب تشکیل دے سکوں۔ کرنل محمد خاں سے میری مختصر خط کتابت بھی رہی، جیسے ہوتا ہے بندہ مداح کی حیثیت سے خط لکھتا ہے، یا اپنی تحریریں بھجواتا ہے تو ان کے حوصلہ افزائی والے جوابات آئے۔ ایک خط میں ان سے سوال پوچھا تھا کہ آپ کی تمام کتابوں ’’بجنگ آمد، بسلامت روی، بزم آرائیاں، بدیسی مزاح‘‘ کے نام ’’ب‘‘ سے کیوں شروع ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ محض اتفاق ہے۔‘‘

اپنے مطالعے کے بارے میں ڈاکٹر وحید الرحمن خان کا کہنا تھا، ’’میری کوشش ہوتی ہے کہ جو اعلیٰ درجے کے مزاح نگار ہیں ان کو بار بار پڑھا جائے۔ ان میں پطرس بخاری، مشتاق احمد یوسفی، محمد خالد اختر، کرنل محمد خاں، شفیق الرحمن اور ابن انشا شامل ہیں۔ دوسرے ادیبوں میں قرۃ العین حیدر، اقبال اور غالب کو بار بار پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ جدید شاعری میں احمد فراز اور ہندوستان کے شاعر عرفان صدیقی پسند ہیں۔ اس کے علاوہ مطالعے کا ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔‘‘

گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے اردو کے لیے اورینٹل کالج لاہور آگئے۔ فارسی میں بھی ایم اے کیا۔ عملی زندگی کا آغاز گورنمنٹ کالج ملتان اور گورنمنٹ کالج خانیوال میں تدریس سے کیا۔ چار سال پنجاب یونیورسٹی، شعبہ اقبالیات میں ریسرچ آفیسر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ دس برسوں سے یونیورسٹی آف ایجوکیشن، لوئر مال کیمپس میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں کہتے ہیں:

گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا

ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا

ڈاکٹر وحید الرحمن کہتے ہیں کہ آج کل کے طالب علموں کو کتاب سے زیادہ فیس بک کا شوق ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ طالب علموں میں شعر و ادب کا شوق اور مطالعے کا ذوق پیدا کیا جائے۔ طالب علموں پر زور دیتے ہیں کہ انہیں کسی ایک صنف ادب کا اسیر ہوکر نہیں رہ جانا چاہیے بلکہ ادب کی تمام اصناف کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے استاد ہونے پر فخر ہے۔

کہتے ہیں ’’ایک اچھا استاد بننے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ایک استاد کی موت مرنا چاہتا ہوں۔ تدریس میری فطرت، لہو میں شامل ہے۔ میرے دادا جان بھی استاد تھے، والد صاحب بھی استاد ہیں۔ اس لیے مجھے اس پیشے میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے۔‘‘ پوچھا کہ ایک استاد کی حیثیت سے آپ کا ہدف کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’’طلبہ کے ادبی ذوق کی تربیت کرنے کے ساتھ میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کے اندر خودی بیدار کی جائے۔‘‘ وہ اردو ادب کی موجودہ صورتحال کے بارے میں مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس دور میں بھی اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے، جبکہ ان کے نزدیک اردو ادب کا مستقبل زیادہ روشن ہے۔

ان کی اہلیہ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین بھی اردو ادب کی استاد اور ماہر اقبالیات ہیں۔ اقبال شناسی اور دوسرے موضوعات پر ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ بیٹی ایمن رحمن پاکستان کے کم عمر ترین انگریزی ناول نگاروں میں شامل ہیں، جن کے تین ناول شائع ہوچکے ہیں۔ دو بیٹیوں ایمن رحمان، عمیمہ رحمان اور ایک بیٹے ولید رحمان کے مشفق والد ہیں۔ اپنی والدہ کے بارے میں کہتے ہیں، ’’میری والدہ علم دوست اور کتاب دوست خاتون ہیں۔

ان میں علم سے محبت اور علم کی قدردانی بہت ہے۔‘‘ اساتذہ کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے، ’’میرے پہلے استاد میرے والد گرامی حفیظ الرحمن خان تھے۔ پھر ڈاکٹر اسلم انصاری ہیں۔ وہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں میرے مقالے کے نگران بھی تھے۔ فرخ درانی انگریزی کے استاد تھے۔ پھر اس کے بعد ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سہیل احمد خان، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر فخر الحق نوری۔ مجھے فخر حاصل ہے کہ ان سب سے کسب فیض کیا۔ اس کے علاوہ پرائمری سے آج تک اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے میری کردار سازی کی۔‘‘

وہ انٹرویو دینے میں  متامل تھے۔ انٹرویو کے آغاز میں قرۃ العین حیدر کی کتاب ’’جہان دیگر‘‘ میں سے انہوں نے یہ اقتباس ہمارے گوش گزار کیا:

’’۔۔۔۔ رہی ہماری ’’شخصیت‘‘۔ تو بھئی یہ تو ایک بڑا جید قسم کا خوفناک لفظ ہے۔ شخصیت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور بیگم رعنا لیاقت علی خاں کی ہوتی ہے۔ ہم اور ہماری ’’شخصیت‘‘ ۔۔۔۔ یہ کیا مسخرہ پن ہے!‘‘

واپسی پر ہم سوچتے رہے کہ ’’شخصیت‘‘ کے لیے اس معیار کو پیش نظر رکھا جائے تو یونیورسٹیوں میں ’’فن اور شخصیت‘‘ پر جو دھڑا دھڑ مقالے لکھے جا رہے ہیں، ان کا کیا ہوگا۔ جو اساتذہ ان مقالوں کی نگرانی کرتے ہیں وہ کیا کریں گے۔ کبھی موقع ملا تو ان سے یہ سوال پوچھیں گے۔

جب کرنل محمد خاں سے ڈانٹ پڑی
ایم فل کے دوران گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ورکشاپ کیلئے اسلام آباد گیا۔ سوچا کہ کرنل محمد خاں اتنے بڑے رائٹر ہیں، ان سے ملاقات کرنی چاہیے۔ میں نے ان کے گھر فون کرکے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کے بیٹے نے فون پر بتایا کہ وہ بیمار ہیں، اس لیے ملاقات ممکن نہیں۔ ایک آدھ دن بعد پھر فون کیا۔ ایک بار خود سے ان کے گھر چلاگیا لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ پھر ان کے بیٹے کو لگا کہ اس کی طلب سچی ہے، اس کی ملاقات کرا دینی چاہیے۔ تو وہ مجھے کرنل صاحب کے کمرے میں لے گئے۔ کرنل محمد خاں کبھی جوان رعنا تھے، فوج میں رہے تھے لیکن اس وقت ایک مریض کی حیثیت سے بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود انہوں نے بہت اچھے الفاظ میں میری حوصلہ افزائی کی کہ آپ اچھا لکھتے ہیں، وغیرہ۔ پھر میں نے ایک حماقت کی۔ میں کیمرہ بھی ساتھ لے گیا تھا، خواہش تھی کہ کہ ان کے ساتھ ایک تصویر بنائی جائے۔ میں نے کہا کہ آپ کے ساتھ ایک تصویر بنانا چاہتا ہوں، انہوں نے بہت غصے سے جواب دیا کہ اس عالم میں تصویر نہیں کھینچا کرتے۔ تو مجھے آج بھی بڑی ندامت ہوتی ہے کہ میں نے ایسی فرمائش کیوں کی۔ جب عالم ارواح میں ان سے ملاقات ہوگی میں معذرت کروں گا ان سے۔

کچھ محمد خالد اختر کے بارے میں
میرے دوست ذوالکفل بخاری بڑے وسیع المطالعہ انسان تھے، کئی کتابیں اور ادیب انہوں نے متعارف کرائے۔ خالد اختر صاحب سے انہوں نے متعارف کرایا تھا، جب ان کی کتاب ’’چچا عبدالباقی‘‘ مجھے دی۔ ان کو پڑھا تو دلچسپی محسوس ہوئی، ایک نیا ذائقہ محسوس ہوا۔ محمد خالد اختر ایک نئی طرز کے مزاح نگار ہیں، جو ابھی اس طرح معروف نہیں ہیں۔ ایک شعر ہے:

ابھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ
نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں

وہ صاحب اسلوب ادیب تھے، ان کی تحریر میں مغرب کی مہک محسوس ہوتی تھی کیوں کہ وہ انگریزی ادب سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان کے اسلوب، لفظیات اور جملے کی ساخت کی وجہ سے اردو کے دامن میں بھی وسعت پیدا ہوئی، جس کی طرف لوگ کم توجہ دیتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام ان کے دو تین ناول اور ’’چچا عبدالباقی‘‘ ہے۔ ’’چچا عبدالباقی‘‘ اردو مزاح کی چند بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ بعض اوقات تنقید ہوتی ہے تو کچھ لوگ مخصوص ناموں کی ایک بار فہرست سازی کرلیتے ہیں، پھر ان میں کوئی نیا نام شامل ہو نہیں سکتا۔ ہر جگہ وہی پرانے نام نظر آتے ہیں اور انہی کی باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جو بھی فہرست بنائی جائے اس میں محمد خالد اختر کا نام پہلے پانچ سات مزاح نگاروں میں ضرور آئے گا اور آنا بھی چاہیے۔ وہ اردو کے صف اول کے مزاح نگار ہیں۔ جن دنوں ان کا انتقال ہوا، میں نے پی ایچ ڈی کا آغاز کیا تھا۔ پھر انہی کا موضوع میں نے اپنے مقالے کیلئے لے لیا۔ اس طرح مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ محمد خالد اختر کے فن اور شخصیت پر مستقبل میں ایک کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔انہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں قابل قدر کام کیا ہے۔

قابل اجمیری، خاندانی شاعر
ڈاکٹر وحید الرحمن خان نے ایم اے کا مقالہ جواں مرگ شاعر قابل اجمیری پہ لکھا۔ قابل اجمیری کی زندگی اور شاعری پر ان کا عمدہ تحقیقی کام ’’مطالعہ قابل‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس منفرد شاعر سے اپنے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں ’’قابل اجمیری ایک طرح سے ہمارے خاندانی شاعر ہیں۔ خاندانی شاعر اس طرح سے کہ والد صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا تھا۔ جب وہ کراچی سے بہت سی یادوں کے ساتھ واپس آئے تو اپنے ساتھ قابل اجمیری کی کلیات کی کتاب بھی لے آئے۔ تو ہم سب اسے پڑھتے رہتے تھے۔ جب ایم اے میں مقالہ تحریر کرنے کا وقت آیا تو میں نے ان پر مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی ایک لحاظ سے ان سے جو پرانی نسبت تھی وہ پوری ہوگئی۔ اگرچہ میں ایک مزاح نگار تھا، لیکن شاعری سے بھی مجھے دلچسپی تھی، اس لیے ایم اے کا مقالہ قابل اجمیری پہ لکھا۔‘‘

قابل اجمیری کی فنی عظمت کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’’قابل اجمیری صاحب تیس، اکتیس سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم عمر میں انہوں نے اتنے شاندار اشعار اور غزلیں کہی ہیں۔ ان کے انتقال کو تقریباً 55 برس گزر چکے، لیکن آج بھی لوگ ان کو پڑھتے ہیں۔ اور ان کے اشعار پر سر دھنتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے انتقال کی نصف صدی بعد بھی زیر بحث ہے، تو یہ اس چیز کی دلیل ہے کہ وہ شخص ادبی لحاظ سے ایک اہم شاعر تھا۔ قابل اجمیری کو بہرحال ہر عہد میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اب بھی کئی دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس شعر کا خالق کون ہے، لیکن ان کے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔

تحریروں میں استعمال ہوتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی خوبی ہے ان کی۔‘‘ ان کو زندگی مہلت دیتی تو ان کا مزید عمدہ کام سامنے آتا؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر وحید الرحمن نے بتایا: ’’کسی نقاد نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ قابل اجمیری پر دوشیزہ غزل نے اپنے سارے اسرار منکشف کر دیئے تھے۔ اسرار تو ان پر ظاہر ہوگئے تھے، اگر زندگی وفا کرتی وہ یقیناً اردو شاعری کے ایک بڑے نام کی حیثیت سے متعارف ہوتے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری کی جو کلیات موجود ہے، اس میں زندہ رہنے والی اور پڑھے جانے والی شاعری ہے۔‘‘

The post تدریس وراثت میں ملی، اس میں کشش محسوس ہوتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qmr5Eq
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment