Ads

صنعتی اور زرعی شعبے کی یکساں ترقی

حکومت کی جانب سے صنعتوں کے لیے اضافی استعمال پر بجلی سستی کرنے کے توانائی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے، چھوٹی صنعتوں کواضافی بجلی کے استعمال پر پچاس فیصد جب کہ بڑی صنعتوں کو پچیس فیصد رعایت ملے گی،صنعتی استعمال پر بجلی کا کوئی پیک آورنہیں ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کی سفارشات کے بعد صنعتوں کے لیے اس پیکیج کی منظوری دی ہے۔ بلاشبہ یہ فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا،کیونکہ ملک کا صنعتی اور معاشی پہیہ تقریباً رکا ہوا تھا، ہمسایہ ممالک کی نسبت پچیس فی صد مہنگی بجلی کے باعث ملک سے صنعتوں کی منتقلی یا ان کی بندش کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور مہنگی بجلی کے باعث ہماری ملکی برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 20 ڈالر پر پہنچ گئی تھیں، برآمدات کا گراف نیچے آنے کا صاف مطلب ہے کہ ملک میں بیروزگاری بڑھتی ہے اور یہ بات معیشت کی کمزوری سے عبارت ہے۔

ملکی معیشت اگر مضبوط بنیادوں پرکھڑی ہو جائے تو روپے کی قدر مستحکم ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ پچھلے سال انڈسٹری نے جتنی بجلی استعمال کی اس سے زیادہ استعمال کریں گے تو رعایت ملے گی۔

بہرحال ہم امید کے دیے کو سامنے رکھیں تو اس صنعتی پیکیج سے تبدیلی کی ہوا چل پڑے گی، جب کہ اس سے قبل نہ تو ہم ورلڈ مارکیٹ کوکمپیٹ کر رہے تھے اور نہ ڈومیسٹک اسمال اینڈ میڈیم انڈسٹری کی طرف توجہ دی جا رہی تھی، اس پیکیج کے اعلان کے بعد یہ امید ہوچلی ہے کہ اس سے ہمارے ڈومیسٹک آئٹم پر بہت فرق پڑے گا اور چیزیں سستی ہوجائیں گی۔ البتہ ہم حکومت سے توقع کرتے ہیں، یہ پیکیج صرف اعلان کی حد تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کے عملی نفاذ کی مخلصانہ کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔

دوسری جانب لاہور میں کسانوں کی احتجاجی ریلی پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ہے، یہ افسوناک امر ہے کہ کسانوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، حالانکہ حکومت کو اس امر پر توجہ دینی چاہیے کہ آخر ہمارے کسان کیوں سڑکوں پر احتجاج پر مجبورکردیے گئے ہیں۔ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ بائیس فیصد ہے۔

ملک میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جا رہے ہیں، کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہوجاتی ہے، دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔

حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں زرعی اشیا کو شدید مہنگا کردیا ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں، اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعی صورتحال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔

نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ محکمہ زراعت پر ہمارا کسان اعتبار نہیں کرتا اور کرے بھی کیوں؟ رواں سال کی مثال ہمارے سامنے ہے گندم کی وافر پیداوار ہوئی اور تخمینہ سے چھ لاکھ ٹن زیادہ گندم کی پیداوار ہوئی لیکن کسانوں کو اونے پونے فصل بیچنا پڑی۔ گندم کی کٹائی کے بعد کتنے دنوں تک ٹرالیوں میں گندم خریداری مراکز کے باہر کھڑی نظر آتی ہے اور کوئی کسان سے گندم نہیں خریدتا پھر کسان خود ہی اسے نجی شعبے کو سستے داموں بیچ دیتا ہے۔

ان تمام مسائل کے بعد کوئی کیسے کسانوں سے زیادہ پیداوار کی امید کر سکتا ہے؟ ڈیمز کی کمی اور بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں نے کسانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ رواں سال بھی صوبہ سندھ میں بارشیں ہوئیں، سیلاب آئے اور کپاس کی تقریباً پچاس فیصد سے زائد فصل تباہ ہو گئی۔ اس سیلاب کی وجہ سے کسانوں کو پانچ لاکھ ستر ارب روپے اور ملک کو مجموعی طور پر ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔

ایک سروے کے مطابق صوبہ سندھ میں کپاس کی مجموعی پیداوار پینتالیس لاکھ گانٹھیں ہے لیکن اس سال بیس سے پچیس لاکھ گانٹھیں ہی پیدا کی جاسکیں گی۔ یہ بیس سے پچیس لاکھ گانٹھیں سندھ کے چار سے پانچ لاکھ کاشتکار مل کر پیدا کرتے ہیں جن کی فصل تباہ ہوئی ہے۔ نقصان اور فصل پر اٹھنے والے اخراجات کو اگر یکجا کر لیں تو سندھ اور پنجاب کے بعض علاقوں کے ان کاشتکاروں کو 70 سے 75ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔

دوسری طرف کپڑے کی مصنوعات اور خام کپاس کی برآمد نہ ہونے سے بھی قومی خزانے کو نقصان کا سامنا ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک بھر میں سبزیوں کی پیداوار وافر ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور عوام اس صورت حال سے انتہائی پریشان ہیں۔آٹا اور چینی مافیا نے تو جو کھیل کھیلا اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن کیا اب یہ سمجھا جائے کہ سبزی مافیا بھی دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہا ہے اور حکومت صرف بیانات کی حد تک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔

عوام کو سستی خوراک مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے جدید ترین طریقے اپنائے جائیں ۔ کپاس کی پیداوار میں ہونے والی کمی سے ملک کو زرمبادلہ میں جس کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے منفی اثرات ملکی معیشت پر رونما ہوتے ہیں۔

ڈیزل اور زرعی مداخل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے زرعی پیداوار کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور منڈی تک زرعی اجناس پہنچنے تک اس پر اچھی خاصی لاگت آ جاتی ہے۔ جس سے زرعی اجناس بازار میں مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ زراعت کے بغیر نہ تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ مقررہ شرح نمو اور ترقی وخوشحالی کے پیرا میٹرز پر عملدر آمد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ حکومت فوری اقدامات اٹھائے، تب ہی زرعی شعبے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔

The post صنعتی اور زرعی شعبے کی یکساں ترقی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ewgdZB
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment