Ads

کورونا، ویکسین اور انسانی چیلنج

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس پرقابو پانے کے لیے 10 نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے پانچ سو ارب ڈالرکا ہنگامی فنڈ قائم کر دیا۔ گزشتہ روز کورونا کے تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے  خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ترقی پذیر ممالک کے قرض موخرکرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ قرضوں میں ریلیف کورونا کے خاتمہ تک جاری رکھا جائے، انھوں نے کہا کہ ویکسین ہرکسی کو میسر ہونی چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ کورونا نے انسانیت کو شدید چیلنجز سے دوچارکیا ہے، ماہرین نے ویکسین کی ایجاد کو ایک اہم پیشرفت قراردیا ہے لیکن اس بات کی زمینی حقیقت ابھی تک قائم ہے کہ کوئی ملک کورونا کے خاتمے کی تاریخ بتانے کی پوزیشن میں نہیں اور جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق قیاس آرائیوں اور پیشگوئیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں میں کورونا کی شدت بڑھ جائے گی، ماحولیاتی حوالہ سے کراچی میں پہلی بار نقطہ انجماد سے نیچے بارشوں کی پیش گوئی کی گئی۔ دوسری لہرکی شدت سے لوگ خاصے سہمے ہوئے ہیں، دریں اثنا سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو نے انکشاف کیا ہے کہ دوسری سرد لہر مزید بڑھے گی، جب کہ کسی نے آیندہ موسم گرما میں کورونا کے مزید پھیلاؤ کا سیناریو دے دیا۔

یوں ایک وبائی مرض کے ناقابل یقین تسلسل پر اس وقت بھی بحث ہو رہی ہے جب ویکسین کی آج یا کل استعمال کیے جانے کی خوشخبری زبانی طیور کے ہے، یہ ایک بڑی خبر ہے، دکھی انسانیت کو ویکسین کے حوالہ سے دنیا میں اطمینان اور یقین کو پھیلانا ناگزیر ہے، ویکسین کے استعمال اور اس کے مجرب نسخہ کے عالمی سطح پر یقین کی بات زیادہ اعتماد کے ساتھ ہونی چاہیے،کورونا کے ’’دی اینڈ‘‘ کو زیر بحث لانا چاہیے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ بتدریج ویکسین تمام لوگوں تک پہنچا دی جائے گی۔

خطے کی صورتحال بھی کورونا کے ہمرکاب ہے، بھارت کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں لیکن پاک فوج نے تہیہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کو جس فرنٹ پر جو بھی صبرآزما چیلنجز درپیش ہونگے اس کا مدلل اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا، چنانچہ پاک فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آرکے سربراہ میجرجنرل بابر افتخار نے ایک غیر ملکی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی ریاستی دہشتگردی کے ثبوتوں کو عالمی برادری نے بھی بہت سنجیدہ لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پانچ اگست 2019 کے اقدام کے بعد سے ہی عالمی سطح پرکمزور پوزیشن پر ہے اور اسے سخت تنقیدکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈوزیئر سامنے آنے کے بعد پاکستان کا دیرینہ موقف عالمی برادری پر ثابت ہوا ہے۔ پاکستان دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے ایشوز پر جو کچھ کہتا رہا، ڈوزیئر میں ثبوت سامنے لایا، انھوں نے کہا ڈوزیئر سامنے آنے کے بعد دنیا اب بھارتی اسپانسرڈ دہشتگردی پر کھل کر بات کر رہی ہے، تمام تر بھارتی کوششوں کے باوجود عالمی فورمز اور ذرایع ابلاغ پر بحث چل نکلی ہے، انھوں نے کہا بھارت افغان سرزمین کو استعمال کر کے سی پیک کو نشانہ بناتا ہے۔

بھارت کے پاس دہشتگرد ہیں، وہ سی پیک پر کام کرنے والی چینی افرادی قوت اور مقامی لیبر کو نشانہ بناتا ہے، مگر ان خطرات کے خلاف ہم نے مکمل تیاری کر رکھی ہے۔ سی پیک کی سیکیورٹی کے لیے خاص طور پر دو ڈویژن فورس تشکیل دی ہے، اس کے علاوہ آٹھ، نو ریگولر رجمنٹس بھی راہداری کی حفاظت پر مامور ہیں، ہمارے چینی پارٹنرز سی پیک منصوبے کی سیکیورٹی کے انتظامات سے مکمل مطمئن ہیں، سی پیک کو نقصان پہنچانے کی ہر بھارتی سازش کو ناکام بنائیں گے۔

ہم افغان قیادت سے اس مسئلے پر بات کرتے رہتے ہیں، ایک باقاعدہ میکنزم موجود ہے، لیکن واضح طور پر بتا دوں کہ ہم افغان حکومت کے استعدادی مسائل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہونے پر افغان حکومت کو زیادہ الزام نہیں دیتے۔

کورونا کی دوسری لہر اور این سی او سی کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کورونا وبا سے نمٹنے میں پہلے دن سے پاک فوج ہر حکومتی کوشش کا حصہ ہے، تاہم این سی او سی اے بازو کے طور پر آئی ایس پی آر اور میڈیا نے کورونا کے خلاف اقدامات میں زبردست حصہ ڈالا۔ میڈیا نے اربوں روپے کی آگاہی مہم مفت چلائی، خاص طور پر فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرزکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، این سی او سی میں فوجی اور سویلین مربوط نمایندگی ہے، یہ تجربہ بہت اچھا رہا۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن یقینی بنانے کے لیے فوجی دستے تعینات کیے گئے۔

وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی اور فیصلوں میں فوج کے معلومات یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سسٹمز کا فائدہ اٹھایا گیا، پہلی لہر میں جو خامیاں اور کوتاہیاں ہمارے صحت کے نظام میں سامنے آئیں، انھیں ہنگامی بنیادوں میں دور کرنے کے اقدامات کیے گئے، یہی وجہ ہے کہ دوسری لہر میں ہماری تیاری پہلی لہر کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے، ہم کورونا کی دوسری لہرکا بہتر طور پر مقابلہ کر رہے ہیں، اور یہ بھی ضرورکہوں گا کہ دوسری لہر میں ہم سب کو زیادہ احتیاط کرنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اور فیک نیوز کا پھیلاؤ ایک بڑا چیلنج اور ففتھ جنریشن وار کا اہم حصہ ہے، اس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ شفافیت اور مصدقہ خبروں کا پھیلاؤ ہے۔

ادھر چین نے کہا ہے کہ سی پیک پر ترقیاتی کام جاری ہیں، اقتصادی ترقی کو فروغ مل رہا ہے، کورونا وائرس کے باوجود انفرااسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، سی پیک کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ پانچ برسوں میں26 منصوبے مکمل کیے، تاہم بھارت کے مذموم عزائم سے خبردار رہنے کی ہر دم ضرورت ہے، کیونکہ سی پیک کے گیم چینجر منصوبہ کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت کوئی بھی ایڈونچر کر سکتا ہے۔

اس کی تفصیل جنرل بابر افتخار پہلے ہی دے چکے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ خطے اور علاقائی سیاست مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال سے جڑی ہوئی ہے، مشرق وسطیٰ میں کچھڑی پک رہی ہے، اسرائیل اپنے عزائم اور اسٹرٹیجیکل پیش قدمی کے لیے پر تول رہا ہے، ہمیں محتاط اور چوکنا رہنا ہو گا،  خارجہ امور میں اہل فکر و نظر کو ذمے دارانہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، پاکستان کی پوزیشن جیوپولیٹیکل منظرنامہ میںکایا پلٹ اہمیت کی حامل ہے، افغانستان میں کابل حکومت اور طالبان سے معاہدہ کے بعد مزید پیشرفت کے امکانات ہیں۔

ایران اور امریکا کے مابین غیر معمولی سیاسی اور تزویراتی بریک تھروکی باتیں ہیں، ایرانی ایٹمی سائنس دان کا قتل خطے کے لیے الارمنگ ہے، لبنان کے اسرائیلی محاصرہ کے خطرات ہیں، اسرائیل امریکا میں حلف برداری تقریب سے پہلے اپنے مشرق و سطی کی بساط پر کھیل کا نیا ٹرننگ پوائنٹ دیکھنے کی تاک میں ہے، ہمارے چاق و چوبند سیکیورٹی حکام کی بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر ہے مگر داخلی صورتحال پر توجہ دینا بھی اہمیت رکھتا ہے، گزشتہ روز آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے بی بی سی سے داخلی امن اور استحکام پر مثبت اور صائب گفتگو کی۔

بہرحال قانون کی حکمرانی کے لیے جہاں عوام عرصہ دراز سے ایک غیر معمولی پیشرفت کے منتظر ہیں وہاں عدالت عظمیٰ بھی ارباب اختیارکو حکومتی اور ریاستی سطح پر خبردارکرتی رہتی ہے، گزشتہ روز چیف جسٹس گلزار احمد نے پشاور سٹی کے سیوریج سسٹم کی تنصیب پر اہم ہدایت جاری کی اور ریمارکس دیے کہ اگر حکومت عوام کی صحت کے بارے میں فکر مند ہے تو اسے دو مہینے کے اندر سیوریج کا کام مکمل کر کے اسے آپریشنل بنانا چاہیے، کچھ ایسا ہی صائب فیصلہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے دیا جس میں کورونا کی وجہ سے ملک بھر میں سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر پابندی کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ شہری حضرت یونس کے وکیل نے سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ ملک میں بڑے اجتماعات سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے۔

این سی اوسی کو حکم دیا جائے کہ وہ آؤٹ ڈور جلسوں سے متعلق گائیڈ لائن کی پابندی کرائے۔ عدالت نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا کہ این سی اوسی کے فیصلوں پر عملدرآمد لازم ہے۔ این سی اوسی کی گائیڈ لائنزکی خلاف ورزی جاری ہے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہم نے تو حکم دے دیا ہے اگر ایگزیکٹو اس پر عمل نہیں کرا پارہی تو یہ اس پر ہے۔

عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیاکہ پارلیمنٹ اور ایگزیکٹوکورونا چیلنج سے نمٹنے کے لیے قوم کو اکٹھا کرنے میں کردار ادا کریں، درخواست گزار پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو اتھارٹیز پر اعتماد کرے، کورونا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے قوم کو متحد کرنا پارلیمنٹ اور حکومت کا کام ہے، موجودہ بحران میں عوام کی رہنمائی میں پارلیمنٹ کا کردار سب سے اہم ہے۔ عدلیہ کے مطابق عوامی نمایندوں کو غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہو گا، عوامی نمایندوں کا کردار عوام کو نقصان سے بچانا ہے۔

المختصر، ملک میں ایک ہمہ جہتی سیاسی اور سماجی فضا کو فروغ دینا ہے جس میں اتفاق رائے کا کلچر ہو اور شراکت دار قومی ایشوزکے حوالہ سے الفاظ کی گولہ باری ترک کریں، سب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کورونا انسانی صحت کے لیے واقعی ایک بم کی ’’ٹک ٹک‘‘ ہے، یعنی وقت خبردارکر رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا انتباہ عوام کے جمہوری طرز عمل اور سیاسی شعور کے لیے ایک تازیانہ ہے، حکمران بھی کورونا کے پھیلاؤ اورکیسز میں ہولناک اضافہ کے پیش نظر اپنے سارے تیر ترکش میں رکھ لیں، اپوزیشن بھی انسانی صحت اور سیاسی موومنٹ کے درمیان تاریخی فیصلہ کرے تاکہ دنیا کو ہنسنے کا موقع نہ ملے کہ کورونا سے نوع انسانی کو جب براہ راست خطرہ ہے تو اہل سیاست کی ترجیحات کچھ اورکیوں ہیں؟

The post کورونا، ویکسین اور انسانی چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33OmD2i
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment