Ads

بلاول، بیانیہ اور بھٹو

ذوالفقارعلی بھٹو کو نوجوان نسل شاید اتنا ہی جانتی ہے جتنا ہمیں بلاول زرداری کی زبانی سننے کو ملتا ہے۔ بھٹو کیسے سیاستدان تھے؟ کیسے لیڈر تھے؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس طریقے سے آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی تحویل میں لیا اور اپنی جاگیردارانہ سوچ کو پارٹی میں سرایت کیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آصف زرداری نے بلاول کو بینظیر کا جانشین اور پیپلز پارٹی کا وارث ثابت کرنے کےلیے ان کا نام بھی بھٹو رکھ دیا۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد جب بلاول نے عملی سیاست میں قدم رکھا تو سیاسی حلقوں میں ان کا خیرمقدم نوجوان قیادت کے طور پر ہوا اور ملکی سیاست میں ان کا روشن مستقبل بھی نظر آنے لگا۔ اس بات میں کچھ شک بھی نہیں کہ بلاول کا شمار ہمارے روایتی سیاست کے وڈیروں اور جاگیرداروں میں نہیں تھا، مگر بالآخر وہ آصف زرداری کے فرزند بھی تو ہیں اور ایک نہ ایک دن ان کا زرداری ہونا ان کے بھٹو ہونے پر بھاری پڑنا ہی تھا۔

2018 کے الیکشن سے قبل جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں شروع ہونے والی تفتیش پر ازخود نوٹس لیا تو یہ معاملہ اومنی گروپ، سندھ بینک، سمٹ بینک اور سندھ کی مختلف شوگر ملز سے منسلک ہوتا چلا گیا۔ گویا یہ ابتدا تھی، جب ریاستی اداروں کے لیے بلاول کا بیانیہ بھٹو سے زرداری کی طرف لے جانے کا بیج بو دیا گیا۔ الیکشن سے قبل تک بلاول زرداری کرپشن کے سخت مخالف اور احتساب کے بھرپور حامی نظر آتے رہے، کیونکہ وہ احتساب صرف نواز شریف کے خاندان کا ہورہا تھا۔ ’ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین کا دل سینیٹ الیکشن میں ٹوٹ گیا‘، ’میاں صاحب سے بڑا چابی والا کھلونا اور کون ہے‘، ’میاں صاحب آپ فسادی ہوسکتے ہیں، سازشی ہوسکتے ہیں، مگر انقلابی نہیں ہوسکتے‘۔ یہ سب وہ تقاریر ہیں جو بلاول اس وقت کیا کرتے تھے جب میاں صاحب اپنی کرپشن پکڑے جانے کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف ہر محاذ پر الزامات لگایا کرتے تھے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، بلاول زرداری کا بیانیہ بھی بدلتا گیا اور آصف زرداری نے بڑی چالاکی سے بلاول کو ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگلنے پر مائل کردیا۔

پارٹی اجلاس ہوں، میڈیا ٹاک ہو یا عوامی اجتماع ہو، بلاول کا لہجہ، الفاظ اور بیانیہ بتدریج ریاست مخالف ہوتا جارہا ہے۔ اگر ایک عام پاکستانی بھی گزشتہ دس سال حکمران رہنے والے دو بڑے خاندانوں کا موازنہ کرے تو دونوں میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ دونوں خاندان جتنا ایک دوسرے کی کرپشن کے خلاف ہیں، اتنا ہی ایک دوسرے کے احتساب کے خلاف بھی ہیں۔ اگر ہم ماضی قریب میں شریف خاندان کے احتساب کی طرف دیکھیں تو ان کا بیانیہ بھی ریاستی اداروں کی مخالفت سے ہوتا ہوا ریاست مخالف بن گیا اور یہی تسلسل اب بلاول نے اپنا لیا ہے۔ جب تک بات نوٹسز اور تحقیقات کی حد تک تھی تو بلاول زرداری اور آصف زرداری کی مخالفت صرف حکومت، نیب، ایف آئی اے اور عدلیہ سے تھی۔ مگر جب شکنجہ سخت ہونے لگا، نیب میں طلبی کی باری آئی، تو ان کا بیانیہ بھی ریاست مخالف ہو گیا۔ بلاول زرداری کے حالیہ بیانات واضح پیغام ہیں کہ جو بیانیہ پاکستان دشمن ہمارے بارے میں رکھتے ہیں، وہی بیانیہ بلاول زرداری رکھتے ہیں۔

بلاول زرداری بلاشبہ پڑھے لکھے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان سے ایسے غیرسنجیدہ بیانیے کی توقع نہیں تھی، مگر زرداری کی دولت نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔ آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے بلاول کو اپنے والدمحترم سے پوچھنا ضرور چاہیے کہ ہمارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟ جس معاشرے سے وہ پڑھ کر آئے ہیں، وہاں کی اقدار اور تہذیب صحیح کو صحیح اور غلط کوغلط کہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ زرداری کی جائیدادوں کو گننا شروع کریں تو سانس پھول جاتی ہے۔ بلاول کو آخر سوال تو کرنا چاہیے کہ ان کی ماں پر، ان کے خاندان پر سوالات اٹھتے ہیں۔ نوازشریف کے محترمہ بینیظربھٹو کے بارے میں خیالات کیا بلاول کو یاد نہیں آتے ہوں گے؟ شہباز شریف کے آصف زرداری کے لیے دیے گئے بیانات، مریم نواز کے ’زرداری عمران بھائی بھائی‘ کے القابات۔ یہ سب کچھ بھول کر بلاول جیل میں میاں صاحب کو ملنے چلے گئے۔ شہباز شریف، آصف زرداری کا استقبال کرنے خود چل کر بھی آگئے اورمریم نواز نے بلاول کی مدبرانہ سوچ کا اعتراف بھی کرلیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کا بیانیہ تبدیل تب ہی کیوں ہوا جب ان سے ان کی دولت کا حساب مانگا گیا؟

جہانگیر ترین اور علیم خان اگر کرپشن کرتے رہے تو گزشتہ دس سال تک حکومت میں رہنے والوں نے ان کو کرپشن کرنے کا لائسنس کیوں دیے رکھا؟ اگر شوکت خانم کا پیسہ چوری ہوتا رہا تو پنجاب حکومت کہاں تھی؟ گویا اگر ان سے حساب نہ مانگا جائے تو اس ملک کے ادارے بھی ٹھیک، ان کی سمت بھی ٹھیک اور ان کا بیانیہ بھی درست۔

وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کتنی ہی غیرسنجیدہ، ناتجربہ کار اور ناکام کیوں نہ ہو، وہ عوام کو شعور دلانے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے۔ جس عوام کو کبھی بھی اپنے حق اور اپنے مستقبل کی فکر نہ تھی، وہ عوام آج حکومت کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے سے فکرمند نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ آج ہمیں اس بات سے بھی واسطہ ہے کہ کسی فنکار کو کس بنیاد پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ حالات چاہے کیسی بھی کروٹ لیں، قوم کو ایک بات کا تہیہ کرلینا چاہیے کہ قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کرنے میں ریاست کے ہر ستون کے ساتھ قوم کو ہی کھڑا ہونا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post بلاول، بیانیہ اور بھٹو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2uKHaTz
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment