مسئلہ یہ نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اضافہ اس وقت کیا گیا جب اس ملک کے عہدیدار ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرچکے تھے کہ جون 2020 کے اوائل میں جنم لینے والے پٹرول بحران کے ذمے داران کو کٹہرے میں لاکر پٹرول مافیا کو بے نقاب کردیا جائے گا، جس سے نہ صرف پٹرولیم مصنوعات کا حالیہ بحران ختم ہوجائے گا بلکہ مستقبل میں کوئی نجی آئل کمپنی ذخیرہ اندوزی کی جرأت نہ کرسکے گی۔
عوام پُرامید تھے، لیکن یہ امید اس وقت چکنا چور ہوئی جب 26 جون 2020 کو اوگرا کی کسی ابتدائی سمری کے بغیر ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 26 روپے تک کا اضافہ کردیا گیا۔ یہی امید، پریشانی اور غصے میں تبدیل ہوئی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ایک بار پھر حکومت پر تنقید کا میدان بن گئیں۔ موجودہ حالات میں جہاں حکومتی کارکردگی پر ڈھیروں سوال اٹھتے ہیں، وہاں رسی کے دوسرے کونے پر موجود عوام بھی کئی حقائق کو تسلیم کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔
عالمی معاشی منڈیوں کی دوڑ میں خام تیل کی صنعت میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ کسی بھی دوسری صنعت کے مقابلے میں کچھ زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خام تیل کی قیمت میں کمی یا اضافہ کسی بھی دوسری صنعت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، عراق سمیت 13 ممالک پر مشتمل ’’آرگنائزیشن آف پٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز‘‘ (المعروف ’’اوپیک‘‘) خام تیل کی قیمتوں میں تبدیلی کا ایک بڑا محرک ہے۔
یہ ممالک عالمی طلب کے مطابق اپنی خام تیل کی پیداوار کو محدود کرتے ہیں۔ 1999 سے 2008 تک خام تیل کی قیمت 25 امریکی ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 160 امریکی ڈالرز فی بیرل تک جا پہنچی۔ امریکا، چین اور انڈیا جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی طلب اور اوپیک کی جانب سے پیداوار میں کمی اس بڑھتی قیمت کی وجوہ بنے۔ 2008 کے عالمی معاشی بحران کے بعد یہ قیمت 53 امریکی ڈالرز فی بیرل تک کم ہوتی گئی۔ نئے سرے سے جنم لینے والے معاشی استحکام کے بعد 2014 کے اوائل تک یہ قیمت بڑھتے بڑھتے 125 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی تھی۔ 2014 کے وسط میں خام تیل کی صنعت میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔
امریکا نے اپنے علاقے جنوبی ڈکوٹا، جبکہ کینیڈا نے البرٹا کے ذخائر سے خام تیل نکالنا شروع کردیا۔ البرٹا کے ذخائر دنیا میں خام تیل کے تیسرے بڑے ذخائر تسلیم کیے گئے۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں معاشی طور پر پروان چڑھنے والا چین معاشی میدان میں ایک بار پھر سست روی کا شکار ہوا۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے چین نے خام تیل کی طلب میں واضح کمی کردی۔ نائن الیون اور ڈاٹ کام ببل بسٹ کے بعد اپنی قدر کھو دینے والا امریکی ڈالر 2014 کے وسط میں اپنی مستحکم ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ کیونکہ خام تیل کی تجارت امریکی ڈالر میں کی جاتی ہے، اس لیے ڈالر کا یہ استحکام خام تیل کی قیمتوں پر براہ راست اثرانداز ہوا۔
اس صورتحال میں سعودی عرب سمیت اوپیک کے 13 ممالک کے پاس دو آپشنز تھے: یا تو وہ خام تیل کی پیداوار میں کمی کرکے خام تیل کی مارکیٹ میں اپنے شیئرز کم کرلیتے یا پھر سستے داموں خام تیل کی تجارت جاری رکھتے۔ سعودی عرب نے سستے داموں خام تیل کی تجارت کے آپشن کا انتخاب کیا۔
ان تمام محرکات نے ایک ایسی فضا کو جنم دیا کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 2014 کے اواخر میں 125 ڈالرز فی بیرل سے کم ہو کر 50 ڈالر فی بیرل کی کم سطح تک پہنچ گئی۔
ایک بار پھر 2020 کے اوائل میں خام تیل کی منڈیوں میں ایسا بحران پیدا ہوا کہ عالمی معیشت کے ماہرین انگشت بدنداں رہ گئے۔ طلب اور رسد کا اصول کسی بھی صنعت کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ طلب اگر رسد سے تجاوز کر جائے تو صنعتی پیداوار کی قیمت میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جسے دوسرے الفاظ میں ’’انفلیشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے متضاد رسد اگر طلب سے تجاوز کرے تو صنعتی پیداوار کی قیمت مارکیٹ میں گرجاتی ہے۔ اپریل 2020 میں بھی یہی دیکھنے کو ملا۔
کورونا وائرس کے حملوں نے پوری دنیا میں نقل و حرکت کو محدود کردیا۔ تمام دنیا میں فلائٹ آپریشن معطل ہوگیا۔ 70 فیصد دنیا میں پبلک ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوگیا۔ دنیا میں خام تیل کی طلب میں نمایاں کمی آئی لیکن خام تیل کی رسد اب بھی اسی رفتار سے جاری رہی۔ دوسرے الفاظ میں رسد، طلب سے اس قدر تجاوز کرگئی کہ آئل کمپنیوں کو اس زائد خام تیل کو اسٹور کرنے کےلیے ٹینکرز تک ادھار لینا پڑے۔ تاریخ میں پہلی بار خام تیل کی قیمت منفی 37 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی۔ یعنی عالمی منڈی ایک بیرل تیل کے ساتھ 37 ڈالر بھی دینے کو تیار تھی۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر جہاں دنیا کے ہر کونے میں ہوا، وہاں پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ مئی 2020 میں پٹرول کی قیمت میں 15 روپے کمی کی گئی جبکہ جون 2020 میں یہ مزید کم کرکے 74.52 روپے فی لیٹر کردی گئی۔ اسی دوران عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمت منفی 37 ڈالر سے پلٹ کر، مئی میں 29 ڈالر فی بیرل اور 20 جون 2020 تک 37 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔
یہاں یہ بات قابل فہم ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے امپورٹ اور ریفائنری خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی قیمتوں کے مطابق خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی کرتا ہے۔ ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 74 روپے سے بڑھا کر سو روپے فی لیٹر کردی گئی لیکن مہنگائی سے پسے عوام اس اضافے سے تلملا اٹھے۔
اب اس سارے منظرنامے میں عوام کا قصور ہے اور نہ ہی حکومت کا۔ البتہ حکومت کی غلطی صرف غلط وقت کا تعین ہے۔ اگر حکومت پاکستانی میڈیا کے سارے میسر پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو پہلے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں اضافے کا بتاتی، پھر اوگرا اس کی سمری ارسال کرتا، وزارت پٹرولیم اس کی توثیق کرتی، اس کے بعد قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا تو شاید حکومت تنقید کی اس آندھی سے ضرور بچ جاتی۔
لیکن ایک بات کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو ضرور جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں سب سے سستا پٹرول اب بھی پاکستان میں ہی دستیاب ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 1.054 امریکی ڈالر، بھارت میں 1.090، سری لنکا میں 0.8 جبکہ پاکستان میں ایک لیٹر پٹرول اب بھی 0.6 امریکی ڈالر میں فروخت ہورہا ہے۔ حکومت پر عوام کی تنقید بجا لیکن اگر حقائق کو پرکھ لیا جائے تو یہ تعمیری سوچ کے فروغ میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post عالمی صنعت پٹرولیم سے جڑے چند حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38kzRoy
0 comments:
Post a Comment