افغانستان کی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے افغان عوام کی طرف سے گرمجوشی اور دوستی کاپیغام لایا ہوں،ہم خودمختار افغانستان چاہتے ہیں جس میں کوئی دہشت گرد گروہ نہ ہو جو ہمارے ہمسائیوں کو نقصان پہنچائے۔پاکستان نے امن عمل میں سہولت کاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان صائب خیالات کے اظہار سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز افغانستان میں امن واستحکام کے متمنی ہیں اور مذاکرات کے احیا سے سب نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ کیا ہم اس بات کی اہمیت سے انکار کرسکتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کا مستقبل امن سے وابستہ ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی تمام جماعتوں کے درمیان مکالمہ ہو اور باہمی اعتماد و احترام کی فضا پیدا ہو۔
پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کی بھلائی چاہی ہے۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ہمارا تعلق بھائیوں جیسا رہاہے اور آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔ان مہاجرین کی موجودگی نے پاکستان کی معیشت اور معاشرت دونوں کو متاثر کیا اور اب بھی مشکلات ختم نہیں ہوئی،لیکن پاکستان نے اس کے باوجود لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے عوام پیار و محبت اور مذہب و کلچر کے تاریخی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان فاصلے امن دشمنوں کے پیدا کردہ ہیں جنھیں ختم ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں۔افغانستان نہ صرف جنوبی اوروسط ایشیا بلکہ مغربی ایشیا یعنی ایران کے لیے بھی ایک پل کا کام کرتا ہے۔
اس لیے افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے مختلف نسلی اور قبائلی گروپوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو۔ اب افغان طالبان نے اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کی اور برسراقتدار گروپوں نے بھی حالات کو سمجھ لیا ہے اور ان کے درمیان باہمی مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔اس میں پاکستان نے انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔
امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ دودہائیوں سے جاری جنگ پاکستان کے مدد کے بغیر ختم نہیں کراسکتے وہ افغانستان سے باعزت واپسی چاہتے ہیں۔ یہ جو امن کی فضا بن رہی ہے، اس کے نتیجے میں افغانستان کا اقتصادی مستقبل بھی روشن ہے، ہم بہت جلد دوسروں سے امداد لینے کی بجائے دوسروں کی امداد کرنے والے دوست ملک بن جائیں گے۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں کانفرنس سے خطاب میں مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے ،جن میں دہشت گردی ، انتہا پسندی ، عدم رواداری اور کوویڈ 19کی وبا شامل ہے، دونوں ممالک کے مابین سیکیورٹی، سیاسی اور معاشی شعبوں میں باہمی تعاون کی صلاحیت موجود ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کبھی سو فیصد دوستانہ نہیں رہے، اس کی بہت سے وجوہات ہوسکتی ہیںلیکن اس وقت سب سے اہم کام افغان امن عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔ تاکہ دہشت گردی کے واقعات پر قابو پایا جاسکے ۔ان پر قابو پانے میں افغانستان کو اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
پاکستان و افغانستان کے مفادات باہم جڑے ہوئے ہیں۔اس موقعے پروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان تنازع کا عسکری حل نہیں،مذاکرات کے ذریعہ تلاش کیا جانے والا سیاسی حل ہی واحد حل ہے، تشدد میں کمی امن کے لیے انتہائی ضروری ہے، انھوں نے واضح کیا کہ ہم افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں،ہم فرینڈز ہیں، ماسٹرز نہیں۔ عبداللہ عبداللہ کا دورہ باہمی تعلقات کے لیے اہم ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی افغانستان کاجلد دورہ کریں گے۔ کتنی خوش آئند بات ہے کہ برف پگھل رہی ہے ، افغانستان کی قیادت کو بھی یہ بات اب سمجھ میں آرہی ہے کہ پاکستان کے احسانات ہیں ان کے ملک پر ،نہ جانے کیسے وہ پاکستان دشمنوں کے پروپیگنڈا کا شکار ہوکر اب تک اپنا نقصان خود کرتے آئے ہیں۔
ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہی کہ گزشتہ برس پاکستان، چین، افغانستان سہ فریقی مذاکرات ہوئے تھے جن میں طے پایا تھا کہ سہ ملکی سطح پر ایک سڑک ایک راستہ منصوبے کے تحت روابط اور تعاون بڑھایا جائے گا، پاک، افغان تجارت میں اضافے کے لیے کابل پشاور موٹروے پر چین مدد گار ہو گا، تین ممالک کی راہداریوں پر امیگریشن مراکز، سرد خانے، طبی مراکز اور پینے کے پانی کی اسکیمیں بھی پایہ تکمیل کو پہنچائی جائیں گی۔ افغانستان میں دراصل امن قائم نہ ہونا ، اس کی ترقی وخوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے حالانکہ یہ ملک خطے کی ترقی کا گیٹ وے ثابت ہوسکتاہے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اور افغانستان کی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین کے درمیان ملاقات کا اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے عبداللہ عبداللہ سے ملاقات میں افغان امن عمل کے کامیاب نتائج کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں،سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے،پاکستان افغان راہداری تجارت کی سہولت کے لیے ہر طرح کی کوششیں جاری رکھے گا، معاشی و عوامی تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں گے، صدر اشرف غنی کی دعوت پر اپنے دورہ افغانستان کامنتظر ہوں۔
انتہائی مدلل انداز میں وزیراعظم عمران خان نے اپنا دوٹوک موقف واضح کیا ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی کو مزید پختہ کرنے کے حوالے سے۔لہٰذا اب یہ ضروری ہے کہ امریکا سمیت تمام ممالک افغانستان میں قومی حکومت کے قیام میں مدد کریں اور افغان حکومت کو بھی یہ حقیقت اب سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کے تعاون اور امداد کے بغیر افغانستان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لازم وملزوم ہیں۔عمران خان کہہ چکے ہیں کہ امریکا کا فوری طور پر افغانستان سے انخلا خطرناک ہوگا۔
افغانستان کے راستے روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت اور دوستانہ روابط جیسے اہداف پر بھی پاکستان کی نظریں مرکوز رہنی چاہئیں، پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا درارومدار دو یا تین ممالک سے گرمجوش دوستانہ تعلقات پرہے جب کہ دنیا زیادہ بڑی اور دیگر امکانات بالخصوص یورپی ممالک سے تعلقات کی نئی جہتوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔
یورپ میں ابھرتے نئے تجارتی مواقعے پاکستان کے حق میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان کے بارے میں پہلے سے لائحہ عمل تشکیل دے دیا جائے‘ مجموعی طور پر تغیرپذیر عالمی تناظر میں نئے اتحادیوں کی تلاش اور انھیں ہمنوا بنانے میں حرج نہیں بلکہ خارجہ تعلقات کی مضبوطی و پائیداری اسی میں ہے کہ دوسروں کا اتحادی بن کر پاکستان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
آنے والے دنوں میں وسطی ایشیا اور پاکستان کے درمیان ریلوے روابط اور ایک گیس پائپ لائن شامل ہے جو پاکستان کے راستے بھارت تک جائے گی۔اس طرح کے تمام روابط افغانستان اور پاکستان سے گزرتے ہیں اور صرف اسی صورت میں تعمیر ہوسکتے ہیں جب افغانستان کے ساتھ ساتھ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن ہو۔
علاقائی خوشحالی کی طرف پہلے قدم کے طور پر ا فغان عمل کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ افغانستان جنگ بندی سے پہلے کی حالت پر واپس نہ لوٹ سکے۔ ہم اس سچائی سے کسی طور انکار نہیں کرسکتے کہ افغان قیام امن کے عمل میں پاکستان کا کردار بنیادی اہمیت وافادیت کا حامل ہے، اگر افغانستان میں قیام امن ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ یقینی ہے اور افغانستان میں مستقبل کا سیاسی حکمران سیٹ اپ جو بھی ہو‘ اس میں پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازع ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ باہمی جھگڑا نمٹائے بناپاک افغان سرحد پر لگائی جانیوالی باڑ کا عمل مکمل نہیں ہو گا ۔اس سلسلے میں امریکا سے اس بات کی ضمانت لینا بھی ضروری ہے کہ وہ افغانستان سے فوجی اِنخلاء کے بعد بھی افغانستان کی تعمیروترقی اور خطے کے مسائل کے حل میں مدد دے گا۔
پاکستان کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں بھی مدداور مہاجرین کی واپسی کی ضمانت چاہیے،کیونکہ پاکستان کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ افغانستان کی قیادت کے مثبت خیالات سے یہ امید ہوچلی ہے کہ وہ امن قائم کرنے کے عمل میں سنجیدہ ہیں ، اگر فہم وفراست اور تدبر کے ساتھ چلیں تو افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے جو خطے کی ترقی وخوشحالی میں بنیادی اور کلیدی کردار کا حامل ہوگا۔پاکستان اورافغانستان کے درمیان ایک نیادور شروع ہونے والا جو خطے کے استحکام کا ضامن ہوگا۔
The post مسئلہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GoQAgw
0 comments:
Post a Comment