Ads

ڈینگی…کرونا کی موجودگی میں مزید خطرناک ہو سکتا ہے

ان دنوں پاکستان میں کرونا کی دوسری لہر کے ساتھ ڈینگی بھی دوبارہ سر اٹھا رہا ہے، جو کہ صحت عامہ کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔

دونوں امرا ض خطرناک اس لیے بھی ہیں کہ ان کے خلاف عالمی سطح پر تاحال نہ تو کوئی ویکسین بن سکی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مستند علاج دریافت ہوا ہے۔ تاہم احتیاطی تدابیر اور عوامی شعور و آگاہی کے ذریعے ان پر پر قابو پانا ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سنگین مسئلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مکمل اور جامع تحریر قارئین کی نظر کی جارہی ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہوئے ڈینگی پر قابو پانے میں معاونت حاصل ہوگی۔

پاکستان میں ڈینگی کا پہلا کیس 1994 ء میں کراچی میں سامنے آیا لیکن بڑے پیمانے پر ڈینگی بخار 2010ء اور 2011ء میں نمودار ہوا۔ ایک محدود اندازے کے مطابق 2011ء میں 370 کے قریب لوگ موت کا شکار ہوئے اور 15000 لوگ اس وباء سے متاثر ہوئے۔ اس کے بعد ایک تسلسل سے پشاور سے گوادر تک کم یا زیادہ ڈینگی کیس نمودار ہورہے ہیں۔

ڈینگی افریقی زبان کا لفظ ہے۔ یہ افریقہ کی سواہیلی (Swahili) زبان سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے(Seizure) جھٹکے لگنا، اس بیماری کا آغاز بھی افریقہ سے ہوا اور یہاں سے یہ بیماری دیگر براعظموں تک پھیلی۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق اس وقت آدھی سے زیادہ دنیا ڈینگی بخار میں مبتلا ہونے کے رسک پر ہے۔ دنیا میں سالانہ تقریباً 2 کروڑ افراد اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

ہر سال 25,000 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ڈینگی کا پہلا وبائی حملہ 1780ئکی دہائی میں منظر عام پر آیا، جس میں براعظم ایشیا، افریقہ اور شمالی امریکہ بیک وقت شدید متاثر ہوئے۔ 1789ء میں Benjamin Rush پہلا انسان تھا، جس نے اس بیماری کو کمر توڑ بخار(Break Bone fever) کا نہ صرف نام دیا بلکہ پہلے کیس کو باقاعدہ تشخیص کیا۔اس کو کمرتوڑ بخار اس لیے کہتے ہیں کہ متاثرہ مریض کی کمر،پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے اور مریض چلنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔

انسانی تاریخ میں ڈینگی کے سب سے پہلے کیس کا تذکرہ چینی انسائکلوپیڈیامیں 365-420 میں ملتا ہے، جہاں اس کو ’’آبی زہر‘‘ (Water Poision) کا نام دیا گیا۔

ڈینگی بخار ایک مخصوص جراثیم (وائرس) کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کی چار اقسامDENV-1,DENV-2,DENV-3,DENV-4 ہیں۔ یہ جراثیم کرہ ارض پر پائے جانے والے تین ہزار سے زیادہ اقسام کے مچھروں میں سے صر ف دو مخصوص مچھرAedes Albopictus اورAedes Aegypti، ایک انسان سے دوسرے انسان اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ (Aedes Albopictus) کا مطلب سفید رنگے کے دھبے ہوتا ہے۔ یہ لاطینی زبان سے نکالے گئے الفاظ ہیں۔ Alboکا مطلب سفید اور pictus کا مطلب دھبہ ہے۔دوسرے مچھر کو  Aegypti Aedes اس لیے کہتے ہیں کہ یہ مچھر مصر(Egypt)  میں دریافت ہواتھا۔

یہ بات بڑے تعجب کے ساتھ پڑھی جائے کہ مچھر چاہے ملیریا کا ہو یا ڈینگی کاصرف مادہ مچھر ہی خون چوستی ہے۔ نرمچھر بے چارہ گھاس پھوس پر گزارا کر لیتا ہے۔ ڈینگی کے مادہ مچھر کو انڈے بنانے کے لیے ایک خاص پروٹین درکار ہوتی ہے جو کہ خون میں موجود ہوتی ہے۔مادہ مچھر یہ انسانوں اور جانوروں کے خون سے چوس کر حاصل کرتا ہے۔

جب مادہ مچھر ڈینگی سے متاثرہ شخص کا خون چوستی ہے تو ڈینگی کا جراثیم مادہ مچھر کے جسم میں داخل جاتا ہے اور اس طرح صحت مند مچھر ڈینگی سے متاثر ہوجاتا ہے۔ جب یہ ڈینگی سے متاثرہ مچھر ایک صحت مند انسان کوکاٹتی ہے تو یہ جراثیم (وائرس) انسان میں داخل ہوجاتا ہے اور انسان ڈینگی بخار کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ڈینگی کا انسان سے مچھر اور مچھر سے انسان کا سائیکل چل پڑتا ہے۔

ڈینگی کے مچھر عام مچھروں کے مقابلے میں جسامت میں ذرا بڑے ہوتے ہیں اور دو اوقات سورج نکلنے اور غروب آفتاب سے قبل زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔  ڈینگی کے ایک قسم کے وائرس کا حملہ صرف ایک بار ہی ہو سکتا ہے۔ دوسری مرتبہ ڈینگی بخار دوسری قسم کے وائرس سے ہو سکتا ہے اور یوں زندگی میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چار مرتبہ یہ عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ بیماری گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔

دیگر مچھروں کے برعکس ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے۔ گندے تالابوں اور جوہڑوں کے بجائے یہ مچھر گھریلو واٹر کولر، ٹینکوں کے قرب و جوار، صاف پانی سے بھرے برتنوں، پودوں کے گملوں، غسل خانوں اور بارش کے صاف پانی میںتقریباً سارا سال ہی پلتا رہتا ہے، تاہم برسات کے موسم میں یہ تیزی سے افزائش نسل کرتا ہے۔

یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص(From Person to Person) کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے۔متاثرہ مریض کے ساتھ رہنا،کھانا پینا، تولیہ ،کنگھی ،برتن وغیرہ استعمال کرنا ہر طرح سے محفوظ ہے۔

یہ یاد رہے کہ متاثرہ مچھر کا صرف ایک بار ہی کاٹنا ڈینگی بخار کا باعث بن سکتا ہے۔ڈینگی کا مچھر زیادہ سے زیادہ 100 میٹر یا 300فٹ تک پرواز کرسکتا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اگر کسی گھر میں ڈینگی کا مریض ہے یا ڈینگی مچھر یا لاروا موجود ہوتو اس علاقے کے300 فٹ کے اردگرد مچھر مار سپرے کیا جائے۔ ڈینگی مچھر کی عمر 3 دن سے لے کر 3 ماہ ہوسکتی ہے لیکن اوسط عمر کا دورانیہ 7 سے 14 دن ہوتا ہے۔

اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ایک مچھر ڈینگی سے بیمار یا متاثر ہوتا ہے تو وہ زندگی بھر بیماری پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔پاکستان میں کیونکہ یہ بیماری اب مستقل موجود ہے اس لیے پورا سال لوگ اس کا شکار رہیں گے۔

البتہ جون تا نومبر تک ڈینگی مچھر کے لیے آئیڈیل ہوتا ہے، سردیوں میں مچھر زیادہ متحرک نہیں ہوتا۔ اس بات کوبھی توجہ کے ساتھ پڑھا جائے کہ ڈینگی کا مچھر ہر اس جگہ پر پرورش پاسکتا ہے جہاں انسانی سوچ تصور نہیں کر سکتی۔ ڈینگی مچھر گچھوں کی صورت میں انڈے دیتی ہے اور یہ ایک خاص گوند کی طرح کے مواد کے ذریعے خالی جگہوں مثلاً کباڑ ، خالی ڈبوں ،خول ،ڈرم، کٹے ہوئے تنے،گملے ، پرانے ٹائرز اور ایئر کولر وغیرہ میں چپک جاتے ہیں اور یہ انڈے 10سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

جونہی ان کو ساز گار ماحول یعنی پانی اور نمی ملتی ہے ان انڈوں کی افزائش شروع ہوجاتی ہے۔2011ء کے سیلاب نے بڑے پیمانے پر پاکستان میں تباہی مچائی اور پانی وسیع جگہوں پر گیا جس سے ان پرانے چپکے ہوئے انڈوں کو سازگار ماحول ملا اور اس بیماری نے پاکستان میں اپنے ہونے کا واضح ثبوت دے دیا۔ ڈینگی کا مچھر صرف ڈینگی بخار کا باعث نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ دیگر بیماریاں مثلاًییلوفیور(Yellow fever) اور چکن گنیا( Chikungunya,) وغیرہ کا بھی باعث ہے۔

وائرس کو لے جانے والے مچھر کے کاٹنے کے دو سے سات روز کے اندر ڈینگی کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ان علامات میں تیز بخار، سردی لگنا، جسم میں شدید درد اور کمزوری، منہ کا ذائقہ کڑوا ہوناشامل ہیں۔ ڈینگی بخار کی یہ علامات دو تا چار دن رہنے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔

مریض کو پسینہ زیادہ آتا ہے اور نارمل محسوس کرنے لگتا ہے مگر بہتری کی یہ حالت تقریباً ایک دن رہتی ہے جس کے بعد بخار دوبارہ تیزی سے چڑھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم پرسرخ باریک دانے نمودار ہوسکتے ہیں۔ ڈینگی بخار کی شدید شکل جو بہت خطرناک اور جان لیوا ہو سکتی ہے، اسے ڈینگی ہیمریجک فیور(Dengue Hemorragic Fever)  یا خونی بخارکہتے ہیں۔

اس کی نمایاں علامات میں آنکھوں کے پیچھے شدید درد، پیٹ درد اور جسم کے مختلف حصوںدانتوں، مسوڑھوں، ناک ، پیشاب پخانے،زنانہ راستے سے خون یا خون سے ملتی جلتی رطوبات کا رسنا شامل ہیں۔ خون میں Platelets ذرات کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو سکتی ہے۔ خون کے اس غیر ضروری بہاؤ کی وجہ سے خون کے دباؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس حالت کو  Dengue Shock Syndrome کہا جاتا ہے جو کہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ایسی حالت میں مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈینگی بخار کی تشخیص دو طریقوں سے ہوتی ہے۔مریض کی علامات سے اور لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے۔ ابتداء میں اس کا انحصار علامات پر ہوتا ہے جیسے بخار، جلد پر سرخ دھبے بننا، جسم میں درد اور آنکھوں کے پیچھے درد وغیرہ۔ خون کے ٹیسٹ میں  Plateletsکی تعداد میں کمی ہوجاتی ہے۔

دوسری قسم کے ٹیسٹ میں ڈینگی کے خلاف خون میں مخصوص اینٹی باڈیزIGM  اورIGG کی موجودگی کو دیکھاجاتا ہے اور ڈینگی بخار میں ان دونوں اینٹی باڈیز کا لیول بڑھ جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اگر ابتدائی علامات میں کروا لیا جائے تو Negative بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عام طور پر اس اینٹی باڈی کو جسم میں بننے اور شناخت کرنے میں چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں بھی ڈینگی کا کوئی مستند علاج دریافت نہیں ہوا۔اس بیماری کے علاج کے لیے مریض کو  supportive therapy دی جاتی ہے۔

اس سے کہا جاتا ہے کہ پانی اور دوسرے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے۔ بخار اور جسم درد کی صورت میں  Paracetamolدی جاتی ہے ۔ اگر مریض زیادہ کھاپی نہ رہا ہو تو Drip لگانی چاہیے۔ اگر Platelets بہت کم ہو جائیں جس سے خون جاری ہونے کا احتمال ہو تو اس صورت میں Platelets کی  Pack لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔ مریض کو مسلسل زیر نگرانی رکھ کر اس کے خون کے دباؤ، درجہ حرارت اور خون کے نظام کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پوری دنیا میں ڈینگی کے مرض پر قابو پانے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر کی جارہی ہیں جس میں اس کے خلاف مؤثر Vacine ویکسین کی تیاری بھی شامل ہے۔ یہ ویکسینDengvaxiaکے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔البتہ اس سے فائدہ صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جو انتہائی رسک والے علاقے میں رہ رہے ہوتے ہیںاور پہلے اس بیماری کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔

نوسال سے کم عمر کے بچوں کے لیے عالمی ادارہ صحت اس کو تجویز نہیں کرتا۔Biological Control حیاتیاتی کنٹرول سے مچھر پرقابوپانے کے لیے تالابوں اور جھیلوں میں مخصوص مچھلیوں کی اقسام جن میں Guppies،Kataba Gambusia affinisاور Koi carp fish شامل ہیں،استعمال کی جاتی ہیں۔ جوکہ ڈینگی مچھر کے لاروے کو کھا جاتی ہیں اس طرح مچھر کی افزائش کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ان مچھلیوںکی اقسام پاکستان میں بھی دستیاب ہیں۔

اس کے علاوپ چند مفید درخت اور پودے لگانے سے بھی یہ مچھر مرجاتے ہیں جن میںClove Plants,Euphorbia ,Catnip,(تلسی)Basil plant l,(لیمن گراس)Lemongrass  ،)اسطوخودوس( Lavender (لیونڈر)، Rosemary ،(موتیا)Marigoldاور( سفیدہ)Eucalyptus وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام مچھر کو نہ صرف بھگاتے ہیں بلکہ ان کو مارنے میں بھی اہم ہیں۔ ان پودوں کو گھروں، دفاتر اور عوامی جگہوں پر لگانا ضروری ہے۔

یہ پودے پاکستان میںہر جگہ باآسانی دستیاب ہیں۔ یہ سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیویٹ نرسریوں سے حاصل کیے ساسکتے ہیں۔ ڈینگی کے مچھر کو ایک مخصوص جراثیم سے بھی قابو کرنے کی کوشش جاری ہے ۔جراثیم Wolbachia Bacteria سے مچھر کو متاثر کیا جاتا ہے اس طرح اس بیمار مچھر میں ڈینگی کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے۔

ڈینگی کو قابو کرنے کے لیے جہاںکیمیائی کنٹرول( Chemical Control ) جس میں مچھر مار اسپرے کا استعمال ،میٹ ،کوئل یا جلیبی،تیل ،لوشن کا استعمال شامل ہے وہاں جدید خطوط پر مندرجہ بالاحیاتیاتی کنٹرول کو(Biological control)یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے جہاں سارا سال ڈینگی متحرک رہے گا ۔اور جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ اس موذی مرض کے لیے آج کے موجودہ دور میں کوئی مستند علاج دریافت نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ اس کے پھیلاؤ اور بچاؤکے لیے عوامی شعور وآگاہی کے ساتھ ایک منظم ومربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

اگرچہ رواں سال ملک میں مون سون کا دورانیہ بھی بڑھ گیا، جس کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہوئیں، شہری علاقوں میں پانی زیادہ جمع رہا ،سیوریج کا نظام متاثر ہوا، سیلابی صورتحال بھی رہی جوکہ ڈینگی کی وبائی صورت میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا اظہار بھی بہت ضروری ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ڈینگی کے خلاف کوئی موثر منصوبہ بندی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔

کرونا کی موجودگی میں ڈینگی کا بھی دوبارہ سر اٹھانا ہر سطح پر ایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اگرچہ ڈینگی وباء موسم سرما کی آمد کے ساتھ کم ہوجائے گی لیکن بچاؤکے ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں ۔حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کی صحت کے معاملات کو اپنی ترجیحات میں صف اول پر رکھے تاکہ اس موذی مرض پر قابو پانا ممکن ہو سکے۔

میںہر جگہ باآسانی دستیاب ہیں۔ یہ سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیویٹ نرسریوں سے حاصل کیے ساسکتے ہیں۔ ڈینگی کے مچھر کو ایک مخصوص جراثیم سے بھی قابو کرنے کی کوشش جاری ہے ۔جراثیم Wolbachia Bacteria سے مچھر کو متاثر کیا جاتا ہے اس طرح اس بیمار مچھر میں ڈینگی کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے۔

ڈینگی کو قابو کرنے کے لیے جہاںکیمیائی کنٹرول( Chemical Control ) جس میں مچھر مار اسپرے کا استعمال ،میٹ ،کوئل یا جلیبی،تیل ،لوشن کا استعمال شامل ہے وہاں جدید خطوط پر مندرجہ بالاحیاتیاتی کنٹرول کو(Biological control)یقینی بنایا جاسکتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے جہاں سارا سال ڈینگی متحرک رہے گا ۔اور جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ اس موذی مرض کے لیے آج کے موجودہ دور میں کوئی مستند علاج دریافت نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ اس کے پھیلاؤ اور بچاؤکے لیے عوامی شعور وآگاہی کے ساتھ ایک منظم ومربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ رواں سال ملک میں مون سون کا دورانیہ بھی بڑھ گیا، جس کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہوئیں، شہری علاقوں میں پانی زیادہ جمع رہا ،سیوریج کا نظام متاثر ہوا، سیلابی صورتحال بھی رہی جوکہ ڈینگی کی وبائی صورت میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا اظہار بھی بہت ضروری ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ڈینگی کے خلاف کوئی موثر منصوبہ بندی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔کرونا کی موجودگی میں ڈینگی کا بھی دوبارہ سر اٹھانا ہر  سطح پر ایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اگرچہ ڈینگی وباء موسم سرما کی آمد کے ساتھ کم ہوجائے گی لیکن بچاؤکے ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں ۔حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کی صحت کے معاملات کو اپنی ترجیحات میں صف اول پر رکھے تاکہ اس موذی مرض پر قابو پانا ممکن ہو سکے۔

The post ڈینگی…کرونا کی موجودگی میں مزید خطرناک ہو سکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mFUzVD
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment