Ads

خوش حالی کے جزیرے؟

وقت ایک مسلسل سفر کا نام ہے یہ ہمیشہ جاری رہنے والا سفر ہے، جس کا اختتام اس وقت ہوگا جب یہ کائنات ختم ہوجائے گی، ہم سب کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس کائنات میں ہم نے اپنی زندگی کیسے گزاری۔ ہم صرف اپنے لیے جیے یا کچھ وقت اپنے سماج اور اس کے لوگوں کو بھی دیا۔ خود کو کامیاب بنانے میں اپنی توانائیاں خرچ کیں یا انسانوں کی کامیابیوں میں حائل رکاوٹیں دورکرنے کی بھی کوششیں کیں۔ اپنے بچوں اورگھر والوں کو اچھا اور صاف ستھرا ماحول دینے کے لیے دن رات ایک کردیے یا اس دنیا میں رہنے والوں کو بھی صاف اور خوبصورت ماحول دینے کی کوئی سعی کی ؟ شاید ہم نے یہ سب نہیں کیا۔

غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان نے انفرادی اوراجتماعی دونوں طرح سے ہمیشہ خود غرضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہر فرد دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے پریشان اورہر قوم دوسری قوم کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کوشاں ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے معلوم یہی ہوگا کہ انسانوں اور قوموں نے آگے بڑھنے کی اس جنونی دوڑ میں ان گنت جنگیں کیں جن میں کروڑوں افراد ہلاک اور ہلاک شدگان سے کہیں زیادہ افراد زخمی اور معذور ہوئے۔ عظیم الشان شہر تاراج ہوئے،کروڑوں عورتوں کی عصمت لٹی انسانوں کو ہی نہیں بلکہ قوموں تک کو غلام بنایا گیا، ان پر بدترین جبروتشدد روا رکھا گیا اور ایسا استحصال کیا گیا جس کی ہولناک داستانیں تاریخ کے صفحات پر جابجا بکھری نظر آتی ہیں۔

انسانوں نے اپنوں کے ساتھ جوکچھ کیا اس کا تذکرہ تو ہمیں تاریخ میں ملتا ہے لیکن انسان نے جو بھیانک ظلم فطرت کے ساتھ کیا اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ کاروبار کو بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس میں انسانوں نے درختوں اور جنگلات کا خوفناک قتل عام کیا جو تاحال جاری ہے۔اس قتل عام کا آغاز اس وقت ہوا جب دریاؤں میں بھاپ سے چلنے والی کشتیاں ایجاد ہوئیں۔ نقل وحمل اور تجارت میں غیر معمولی تیزی آئی۔ ایک اندازے کے مطابق 19 ویں صدی کے وسط تک دنیا میں استوائی جنگلات 16 کروڑکلو میٹر پر پھیلے تھے۔ صرف 100 برسوں کے اندر (1852ء سے 1947ء) انسانوں نے 8 کروڑکلومیٹر جنگل کاٹ ڈالے۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک بارانی جنگلات (رین فاریسٹ) کا صرف 10 فیصد حصہ باقی رہ جائے گا، اندازہ یہ بھی لگایا گیا ہے کہ 2030ء تک دنیا کے بیشتر جنگلات بھی ختم ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ کروڑوں انواع حیوانی کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ ماہرین کے مطابق اگلی چوتھائی صدی میں جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے 20 ہزار انواع (اسپیشیز) معدومیت کے خطرے سے دو چار ہوجائیں گی۔ حیاتیاتی تنوع کے ختم ہونے سے کرہ ارض پر جو المیے جنم لیں گے ان کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

المیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔کون سا ایسا دور تھا جب المیوں نے جنم نہ لیا ہو۔ بعض المیے ناگہانی ہوتے ہیں ان پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ زلزلوں اور طوفانوں کو کون روک سکا ہے۔ مخصوص حالات پیدا ہوجائیں تو ان کا رونما ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ انسان محض ایسی پیشگی منصوبہ بندی کرسکتا ہے کہ ان ناگزیر المیوں کا جانی اور مالی نقصان بالکل نہ ہو یا ہو بھی توکم سے کم ہو۔

الیموں کی ایک دوسری لیکن بھیانک قسم وہ ہے جو ہماری خود پیدا کردہ ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان خود اپنے لیے المیوں کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔ عالمی حدت میں ہونے والے اضافے کے باعث دنیا میں جو موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ان سے بھی بہت سے المیے جنم لے رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی کا ایک مظہرگرمی کی شدت میں اچانک اضافے کا ہو جانا بھی ہوتا ہے جسے گرمی کی شدید لہرکہا جاتا ہے۔

رواں جون میں نیچر کلائمٹ چینج جرنل میں شایع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی 30 فیصد آبادی اس وقت کم ازکم 20 دن یا اس سے زیادہ بدترین اور شدید گرمی کی کیفیت کا سامنا کررہی ہے اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہ ہوئی تو 2100ء تک دنیا میں ہر 4 میں سے 3 افراد شدید گرمی کے باعث کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔

موسم گرما میں سب گرمی سے پیدا ہوجانے والے مسائل کے لیے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار رہتے تھے لیکن عالمی حدت میں ہونے والے مسلسل اضافے کے باعث دنیا بھر میں خصوصاً جنوبی ایشیائی ملکوں جن میں پاکستان اور ہندوستان خصوصی طور پر شامل ہیں میں درجہ حرارت میں پچھلے چند برسوں سے تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2015ء میں پاکستان اور ہندوستان میں شدید گرمی کی لہر سے ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے جنوبی ایشیا میں شدید گرمی کے دورانیے میں اضافے کے ساتھ شدید گرمی کی لہر کے خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں جس کے سبب انسانی المیوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

المیہ یہ بھی ہے کہ ماحول کی تنزلی، حیاتیاتی تنوع کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے بدترین اثرات ہماری دیہی آبادی اور دیہی پاکستان پر مرتب ہورہے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ نکال لیں یہاں آباد شہریوں کی آبادی کو الگ کرلیں پھر اس کا موازنہ اس بات سے کریں کہ دیہی پاکستان کا کل رقبہ کتنا ہے اور وہاں کتنے پاکستانی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ خود یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اتنے بڑے رقبے اور آبادی میں قدرتی ماحول بگڑتا اور حیاتیاتی تنوع بکھرتا رہے، جنگلی حیات کا خاتمہ ہوتا رہے، موسمیاتی تبدیلی کے بھیانک اثرات تباہ کاریاں پھیلاتے رہیں اور ہم شہروں میں رہنے اور زندگی کی نسبتاً زیادہ سہولتیں اور آسائشیں رکھنے والے صرف اپنی فکر میں غلطاں ہوں اور صرف اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں۔

کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہر ملک کی معاشی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ کا مرکز نگاہ بھی یہی شہر ہے کیونکہ یہاں سیاسی جماعتوں کے متحرک ووٹر رہتے ہیں۔ صنعت وتجارت کی تنظیموں کے دفتر بھی یہیں ہیں، صارفین کی بڑی منڈیاں یہاں موجود ہیں، نوکر شاہی کے اعلیٰ افسران بھی یہاں براجمان رہتے ہیں اور بڑی بڑی غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر بھی شہروں میں کام کرتے ہیں، لیکن ذرا سوچیں، غور فرمائیں کہ ان تمام اداروں اور لوگوں نے اپنی دیہی پاکستان اور دیہاتوں میں رہنے والے پاکستانی ماؤں، بہنوں، بزرگوں کے لیے کیا کیا ہے۔

ان کے لیے کتنا وقت نکالا ؟ ان کو کتنا وقت دیا؟ ان پرکتنا پیسہ خرچ کیا؟ ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے مرتب ہونے والے اثرات سے بچانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ جوکچھ کیا جانا چاہیے تھا اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ہم جن شہروں میں آباد ہیں ان کے چاروں طرف دیہات ہیں جہاں قدرتی ماحول کو بچانے کے عمل کو ترجیح نہ دی گئی تو ہمارے اور آپ کے ’’خوشحالی‘‘ کے یہ جزیرے یعنی شہر کیسے محفوظ رہ پائیں گے۔ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کا جو طوفان دیہاتوں کے وسیع و عریض سمندر سے اٹھے گا وہ ہمارے شہری جزیرے کو بھی بہالے جائے گا رہ جائیں گے تو بس المیے۔

The post خوش حالی کے جزیرے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2h06YHU
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment