میڈرڈ سے سرزمین اندلس کی جانب روانگی کے وقت جذبات کی کیفیت بہت مختلف تھی۔ میڈرڈ سے قرطبہ چار سو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اسپین کے موٹر وے بہت اچھے ہیں اور ہمیں کہیں بھی سڑک زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے رکاوٹ پیش نہ آئی جو ہم جرمنی میں بہت زیادہ دیکھ چکے تھے۔ قرطبہ کے راستے میں زیتون کے خوبصورت باغات بہت حسین لگتے ہیں۔ شاہراہ پر کہیں کہیں عربی زبان میں لکھے ہوئے بورڈ بھی نظر آئے۔ اسپین کے بیشتر شہروں کے نام مسلم دور میں رکھے گئے جو اب بھی قدرے تبدیلی کے ساتھ مستعمل ہیں۔ قرطبہ کے سفر کے دوران کلام اقبال سننے کا لطف ناقابل بیان ہے۔ علامہؒ نے اس سرزمین کا دورہ کیا اور کیا خوب کہا:
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری بادِ سحر میں
یہ اپنے اپنے احساسات کی بات ہے اور ہر شخص مختلف انداز میں اثر لیتا ہے لیکن جب دریائے کبیر سے گذر کر قرطبہ کے مضافات میں تھوڑی دیر رکے جہاں سے مسجد قرطبہ کی عمارت نظر آرہی تھی تو ایک ہزار سال پہلے کا منظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا۔
وہ دور جو اسپین کا عہد زریں تھا۔ جب یورپ جہالت کے اندھیروں میں اور ترقی سے بہت دور تھا، اس وقت یہاں علم و حکمت، زرعی، صنعتی، معاشی ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ تھا اور مؤرخین تسلیم کرتے ہیں کہ اسپین جو عروج مسلم عہد میں حاصل کیا تھا، وہ دوبارہ اسے نصیب نہ ہو سکا۔ مسجد قرطبہ کے قریب پہنچے تو جذب و مستی کی کیفیت طاری تھی۔
علامہ اقبالؒ کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ بار بار ذہن میں آرہی تھی۔ سویڈن میں سفیر پاکستان جناب طارق ضمیر نے اس سفر سے قبل اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے تاکید کہ دریائے کبیر کے کنارے بیٹھ کر اس نظم کو پڑھنے کا سرور کچھ اور ہے اور بالکل ویسا ہی تھا۔
علامہ نے اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کے زوال پر نوحہ لکھنے کے بجائے اس عید زریں کی عظمت بیان کرتے ہوئے قرطبہ کو اپنا فخر قرار دیا۔ علامہ قنوطیت کے بجائے رجائیت اور مایوسی و ناامیدی کی بجائے امید اور آگے بڑھنے کا پیغام دیتے ہیں اور یہی پیغام انہوں نے دورہ اسپین کے حوالے سے اپنے کلام میں دیا ہے۔ ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں بہت عظیم عمارتیں موجود تھیں لیکن علامہ نے کسی اور کے بارے میں ایسا نہیں لکھا اور نہ ہی انہوں نے اسی خطے میں واقع الحمرا کے بارے میں کچھ لکھا جو عہد مسلم کی ایک عظیم الشان یادگار ہے۔ علامہ کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ پڑھنے کا یہاں لطف ہی کچھ اور تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل
کعبہ ارباب فن سطوت دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
مسجد قرطبہ کے اندر داخل ہوئے تو ہر ایک مسلمان کی طرح ہمیں بھی تاسف ہوا کہ مسجد کو زبردستی گرجا بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ محرابوں میں مجسمے زبردستی ٹھونسے گئے ہیں۔ اب یہ مسجد صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ خوش قسمتی ہے کہ مسجد میں مرکزی محراب کا حصہ جہاں قرآنی آیات کنندہ ہیں، اسے ویسا ہی رہنے دیا گیا ہے۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر کا آغاز مسلمان حکمران عبدالرحمن اول نے 786 عیسوی میں کیا تھا۔ اس وقت یہ عالم اسلام کی ایک بڑی مسجد تھی۔ 1236میں قرطبہ میں مسلم حکومت کا خاتمہ ہوا اور دس سال بعد 1238 میں اسے گرجا گھر میں بدل دیا گیا۔ یہ تاریخی جبر ایک ہزار سال بعد بھی ناکام ہے اور مسجد کے وجود کو کلیتاً ختم نہیں کیا جاسکا۔ مسجد قرطبہ کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔
عروج و زوال اقوام کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے اور کیا معلوم مستقبل کا نقشہ کیسا ہو جس طرف علامہ نے اپنے اشعار میں یوں اشارہ کیا ہے کہ
آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی
علامہ اقبالؒ نے 1931 میں مسجد قرطبہ میں نماز ادا کی تھی اور میرے دل میں بھی یہ شدید خواہش تھی کہ یہاں نماز ادا کی جائے۔ محراب کے مرکزی حصے میں کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ مسجد میں داخلہ کے وقت وہاں متعین عملے نے سختی سے متنبہ کیا ہے کہ یہاں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ اب مجھے بھی اپنی خواہش پوری ہوتی نظر نہ آئی کہ میرے چھوٹے بھائی شاہد نے میری خواہش کے احترام میں وہاں متعین سیکورٹی کے عملہ سے ہسپانوی زبان میں بات کی تو اس نے کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں۔ اپنے بھائی سے کہو کہ ایک طرف ہو کر نماز ادا کرلیں۔ یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی اوراس طرح مسجد قرطبہ میں نماز عصر پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
دسویں صدی عیسوی کے اِختتام تک قرطبہ مسلم دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر تھا۔ اس وقت اس کی آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی جبکہ بغداد اس کے بعد مسلم دنیا کا دوسرا بڑا شہر تھا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں اندلس پر مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہونا شروع ہوگیا تھا اور یہاں کے عیسائی زور پکڑ چکے تھے۔ اس وقت اگر یوسف بن تاشفین میدان عمل میں نہ آتے تو اسپین سے مسلمانوں کا اخراج بہت پہلے مکمل ہوچکا ہوتا۔
یہاں مسجد قرطبہ کے علاوہ اور بھی بہت سی تاریخی یادگاریں ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جن میں مسلم دور کا شاہی حمام، القصر، یہودیوں کے کوارٹرز اور دیگر کئی مقامات شامل ہیں لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہم وہ سب نہ دیکھ سکے جنہیں اگلے دورے تک مؤخر کردیا۔ مسجد قرطبہ دیکھنے کے بعد ہم قریب ہی ایک کیفے میں بیٹھے تھے کہ میرے بیٹے حارث نے قدرے خوش کن لہجے میں بتایا کہ قریب ہی کسی مسلمان کا بہت بڑا مجسمہ نصب ہے، چلیے اسے دیکھتے ہیں کہ وہ کس کا مجسمہ ہے۔ مجھے بھی شوق ہوا کہ دیکھیں کہ یہ کون سی شخصیت ہے۔ قریب جا کر دیکھا تو یہ ابن رشد کا مجسمہ تھا۔
ابن رشد 14 اپریل 1126 کو قرطبہ میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 10 دسمبر 1198میں ہوئی۔ وہ بہت عظیم فلسفی، طبیب، ماہر فلکیات اور مقنن تھے۔ اہل مغرب انہیں ’’ایویروس‘‘ (Averroes) کے نام سے جانتے ہیں جنہوں نے ابن رشد سے بہت کچھ سیکھا اور ان کی عظمت کے معترف ہیں۔ قرطبہ میں ان کا مجسمہ اسی عظمت کا اعتراف ہے۔ قرطبہ اس دور میں علم و فضل کا عالمی مرکز تھا جہاں ابن طفیل، ابن اظہر، ابن فرناس، الزہراوی اور ان جیسے کئی عظیم سائنس دان، فلسفی، شاعر، موسیقار غرض زندگی کے ہر شعبے کے ایسے درخشاں ستارے تھے جن کی لو سے انسانیت ہمیشہ منور ہوتی رہے گی۔
قرطبہ سے ہم اپنی اگلی منزل غرناطہ کےلیے روانہ ہوئے جو دو سو کلو میٹر کی دوری پر تھی۔ غرناطہ اسپین میں آخری مسلم ریاست تھی اور اس کے لغوی معنی ’’انار‘‘ ہے، اسی لئے یہاں انار کی شکل کی سجاوٹی اشیاء سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھیں۔ یہاں کے محل الحمرا کی دنیا بھر میں دھوم ہے۔ یہ وہی محل ہے جہاں آخری مسلمان فرمانروا ابوعبداللہ نے عیسائی بادشاہ فرنینڈس کو اس کی چابیاں پیش کی تھیں۔
غرناطہ کی سیاحت کےلیے آنے والوں کا سب بڑا مقصد الحمرا کو دیکھنا ہوتا ہے اور ہماری بھی یہی خواہش تھی لیکن دو روز قبل میرے صاحبزادے نے انٹرنیٹ سے ٹکٹ خریدنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سب ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں۔ یہ جان کر پریشانی ہوئی لیکن سوچا کہ وہاں جا کر کوشش کریں گے، ممکن ہے کہ کوئی صورت نکل آئے۔ جس ہوٹل میں ہم نے قیام کیا وہاں استقبالیہ پر موجود عملے سے ٹکٹ کے حصول کےلیے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ واقعی سب ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں لیکن کوشش کریں گے کہ شام کو کہیں سے ٹکٹ مل جائیں۔یہ موہوم سی امید لے کر ہم نے غرناطہ میں پہلا دن شہر کی سیاحت میں گزارا۔ پرانا شہر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور جدید شہر بھی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہاں عربی ریسٹورنٹ بکثرت ہیں۔ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے اس کے ریسٹورنٹ میں حلال کھانے بھی رکھے گئے تھے جس سے ظاہر تھا کہ یہاں مسلمان سیاح کثرت سے آتے ہیں۔
ہوٹل کے عملے میں سے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے اپنا نام سبستیان بتایا۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ ان قدیمی مسلمانوں کی نسل سے ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ شام کو ہوٹل کے عملے سے الحمرا میں داخلے کےلیے ٹکٹ کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ باوجود کوشش کے ٹکٹ نہیں مل سکے البتہ اگر آپ چاہیں تو صبح آٹھ بجے وہاں جا کر خرید لیں لیکن آپ کو صبح پانچ بجے قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا پھر کہیں باری آئے گی۔ اب اتنی صبح کون جا کر کھڑا رہے؟ اس لئے ہمیں افسوس تو ہوا لیکن یہ فیصلہ کیا کہ جلد ہی دوبارہ قرطبہ اور غرناطہ آئیں گے تاکہ الحمرا اور جو دیگر چیزیں رہ گئی ہیں انہیں تسلی سے دیکھ سکیں۔
الحمرا کے ٹکٹ کم از کم دو ہفتے پہلے انٹرنیٹ کے ذریعہ خرید لینے چاہئیں اور گائیڈ کے ہمراہ دیکھنا چاہیے۔ ہم الحمرا کے گرد و نواح میں گھومتے رہے اور کچھ تاریخی مقامات دیکھے۔ الحمرا کے نزدیک عرب مسلمانوں کے قبرستان میں عظیم ہستیاں اور شہداء مدفون ہیں۔ وہاں فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل ہوئی۔ اسی قبرستان میں عظیم مسلم مفکر اور مصنف محمد اسد کی قبر ہے۔
وہ جرمنی میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن اسلام قبول کیا اور قرآن حکیم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ اور شہرہ آفاق کتاب Road To Mecca لکھی۔ وہ پاکستان کے سابق سفارت کار بھی رہے۔
الحمرا دوبارہ آنے کا قصد کرتے ہوئے اس شہر سے نکلے اور اسپین کے مشہور ساحلی شہر مالاگا کا رخ کیا جہاں بحیرہ روم کی بپھری ہوئی موجوں کا نظارہ کرتے ہوئے وہ منظر ذہن میں گھومنے لگا کہ جب اس کے کنارے اترا تھا کارواں ہمارا۔ انہی سوچوں کے ساتھ مالاگا سے واپس اپنے ہوٹل جانے کےلیے روانہ ہوئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
عارف محمود کسانہ
بلاگر، کالم نگار اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی Arifkisana پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
The post سرزمین اندلس میں قرطبہ اور غرناطہ کی سیاحت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2ixOewf
0 comments:
Post a Comment