Ads

افغانستان میں قیام امن، ترکی اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار

افغانستان میں مصالحتی عمل کو دوبارہ شروع کر نے کے لئے علا قائی ممالک نے کو ششوں کا آغاز کیا ہے۔

گزشتہ ہفتہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں افغان حکومت کے نمائندوں اور متحارب گر وپوں کے درمیان ملا قات بھی ہو ئی ہے۔ ترک حکومت نے افغان طالبان کو سیاسی دفتر کھولنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

اس نئے مذاکراتی عمل کو چین، روس اور پاکستان کی حمایت بھی حا صل ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے سیاحتی مقام مر ی میں بھی مشاورت ہو ئی ہے تاہم تادم تحریر سرکاری سطح پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں آئی لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ استنبول میں منعقدہ مشاورت میں چونکہ افغان طالبان نے شرکت نہیں کی تھی ،اس لئے انھیں اس نئے مذاکراتی عمل میں شرکت کے لئے راضی کرنے پر مری میں ملا قاتوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔گزشتہ چند سالوں کے دوران افغانستان میں مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے متعدد بار کو ششیں کی گئیں۔

دسمبر 2015ء میں پا نچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو ئی ۔کا نفرنس کا ـمو ضوع افغانستان میں قیام امن تھا۔مشترکہ اعلا میہ میں کہا گیا کہ افغان طا لبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جہاں سے ٹو ٹا تھا وہیں سے شروع کیا جا ئے گا۔اس مقصد کے حصول کے لئے افغانستان ،پا کستان ،امریکہ اور چین پر مشتمل چار ملکی رابطہ گر وپ تشکیل دیا گیا تھا۔

چار ملکی رابطہ گر وپ کا پہلا اجلاس 11 جنوری 2016ء کو اسلام آباد میں ہوا تھا، اس ملاقات میں افغانستان کے نا ئب وزیر خارجہ حکمت خلیل کر زئی، پا کستان کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری ،پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے سفارتکار رچرڈ اولسن اور افغانستان کے لئے چین کے خصو صی نما ئندے ڈینگ ژی جن نے شرکت کی تھی۔

رابطہ گروپ کا دوسرا اجلا س 18 جنوری 2016 ء کو کا بل میں ہو ا ، اس میں بھی چاروں ملکوں کے نما ئندوں نے شرکت کی تھی۔اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلا میہ میںافغان طالبان سے کہا گیا تھا کہ وہ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں تا کہ تمام مسائل کو سیاسی طور پر ،افغان قوم کے امنگوں اور کیو سی جی میں شامل ممالک کے تجاویزکے مطا بق حل کئے جا ئیں۔

رابطہ گروپ کا تیسرا اجلاس 6 فروری2016 ء کو اسلام آباد میں ہوا ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ افغان حکومت کے نامزدنما ئندوں اور افغان طالبان کے درمیان بر اہ راست مذاکرات کے لئے راہ ہموار کی جائے گی ۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ چاروں ممالک افغانستان میں قیام امن کے لئے مشترکہ طور پر کو ششیں جاری رکھیں گے۔

گر وپ کا چوتھا اجلاس افغانستان کے دارالحکومت کا بل میں 23 فروری 2016 ء کوہو ا۔اس اجلاس میں بھی چاروں ملکوں کے نما ئندوں نے شرکت کی تھی۔ اجلاس میں چاروں ممالک نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے اس بیان کی تائید کی تھی جو انھوں نے 15 فروری 2015 ء کو دیا تھا۔ جس میںافغان صدر نے تمام طالبان گروپوں اور حزب اسلامی کو دعوت دی تھی کہ وہ حکومت کے ساتھ بر اہ راست مذاکرات میں شامل ہو۔اجلاس میںرکن ممالک نے افغان طالبان اور دوسرے گر وپوں کو دعوت دی تھی کہ وہ مارچ 2016 ء میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں افغان حکو مت کے نامزد کر دہ نمائندوں کے ساتھ بر اہ راست بات چیت میں حصہ لیں۔گروپ میں شامل ممالک نے پاکستان اور افغانستان کے اس فیصلے کو بھی سراہا کہ دونوں ممالک کے علما ء پر مشتمل ورکنگ گروپ بنا یا جائے گا ،جو افغانستان میں قیام امن کے لئے کو ششیں کریگا۔

چار ملکی رابطہ گر وپ کا پانچواں اجلاس 18 مئی 2016 ء کو اسلام آباد میں ہوا ۔اس اجلاس میں پاکستان ،امریکہ اور چین کے نما ئندوں نے شرکت کی تھی۔افغانستان نے اس مر تبہ کابل سے کسی کو شرکت کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔

ابھی چاروں ممالک کے درمیان افغانستان میں امن بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے چار ملکی رابطہ گروپ کی کو ششیں جاری تھیں کہ پانچویں اجلاس کے چند روز بعد امریکا نے پاکستان کے صوبہ بلو چستان کے علا قہ نو شکی میں ڈرون حملہ کرکے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو مار دیا۔ملا اختر منصور کو قتل کرنے کے بعد نہ صرف چارملکی رابطہ گروپ غیر فعال ہوا بلکہ مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا جو ابھی تک بحال نہیں ہوا۔ اس تناظر میں ترکی میں افغان حکومت کے نما ئندوں اور افغانستان میں متحارب گر وپوں کے درمیان بات چیت کا آغاز نیک شگون ہے۔

2017 ء میں افغانستان میں قیام امنکے لئے کی گئی کوششیں
سن2017 ء کے شروع میں اسلام آباد نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کوششیں شروع کر دی تھیں۔اپریل میں چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی سر براہی میں وفد نے کابل کا دورہ کیا لیکن حالات جوں کے توں رہے۔اس دورہ کے دو دن بعد15 رکنی پارلیمانی وفد نے سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کی سربراہی میں افغانستان کا دورہ کیا۔

اس دورے میں قوم پرست رہنما ء بھی ایاز صادق کے ہم رکاب تھے لیکن یہ دورہ بھی ناکام رہا۔پارلیمانی وفد کے بعد سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اگست 2017 ء میں کا بل کا دورہ کیاتھا، لیکن انھیں بھی ناکامی کا سامنا کر نا پڑا۔اکتوبر کے مہینے میںپاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید با جوہ نے کابل میں صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے ملا قات کی،اس ملا قات کے بعد امید تھی کہ بر ف پگھلے گی کیونکہ افغان صدر نے دورہ پاکستان کی یقین دہانی کرائی تھی۔ابھی سفارتی حلقوں میں اس ممکنہ دورے پر بحث جاری تھی کہ 6 نومبر2017 ء کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں جلال آباد شہر میں دہشت گردوں نے پاکستان کے سفارتی اہلکار نیئر اقبال رانا کو شہید کر دیا۔جس کی وجہ سے حالات مزیدکشیدہ ہو گئے ۔

افغان مفاہمتی عمل میں امریکا کا منفی کردار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست 2017ء میںجنو بی ایشیا ء کے لئے نئی پالیسی کا اعلان کیا، اس پالیسی میں انھوں نے پاکستان پر وہی پرانے الزامات دہرائے۔نئے سال کے آغاز پر انھوں نے پاکستان پر ایک اور الزام لگا یا کہ واشنگٹن اسلام آباد کو مالی امداد دیتا ہے لیکن بدلے میں اس نے ہمیشہ دھوکا ہی دیا ہے۔ جنوبی ایشیاء کے لئے نئی امریکی پالیسی اور ٹرمپ کے اس الزام کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات تاحال کشیدہ ہے جس کی وجہ سے افغان مفاہمتی عمل کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔دوسری طرف امریکا افغانستان میں ہندوستان کو تھا نیدار کے طور پر بٹھانا چا ہتا ہے جو پاکستان سمیت دوسرے علاقائی ممالک خا ص طور پر چین ،روس اور ترکی کے لئے قابل قبول نہیں۔

افغان مصالحتی عمل اور مشکلات
چار ملکی رابطہ گر وپ کے غیر فعال ہونے کے بعد علاقائی ممالک پاکستان،چین ،روس اور ترکی نے افغانستان میں قیام امن کے لئے مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کی غیر مو جودگی میں یہ مصالحتی عمل کا میاب ہو جائے گا؟دوسرا اہم سوال خود افغان حکومت کی نیم رضامندی سے متعلق بھی ہے۔افغا نستان میں مذاکر اتی عمل کے دو اہم فریق افغان حکومت اور افغان طالبان ہے۔کابل کا مو قف ہے کہ طا لبان کو مذاکر اتی عمل میں شریک کر نے کی ذمہ داری پا کستان کی ہے۔افغانستان یہ مطا لبہ اس لئے کر رہا ہے کہ اس کے مطابق طالبان قیادت پاکستان میں ہے اور اس کی سر پرستی پا کستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کر رہی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس الزام کی تر دید کی ہے۔ افغانستان میں مصا لحتی عمل شروع کر نے کے بعد پا کستان نے کئی بار مطا لبہ کیا ہے کہ افغانستان خود اس مذاکر اتی عمل کی سرپرستی کرے لیکن افغانستان ایسا کر نے سے انکاری ہے۔ پا کستان کا دوسرا مطا لبہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے اب جو بھی کو ششیں کی جائیںگی وہ تحریری صو رت میں ہوں گی۔ افغانستان اس سے پہلے کسی تحریر ی معا ہدے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ابھی تک اس مطالبے کے جواب میں افغانستان خاموش ہے۔

اگر اس نئے مذاکر اتی عمل میں پا کستان اور افغانستان ان دونوں نکات پر متفق ہو گئے  تو پھر مذاکراتی عمل شروع ہو نے کا کسی حد تک امکان مو جود ہے ۔ اس لئے کہ پا کستان ہمیشہ سے کہتا رہا ہے کہ ہم سہولت کا ر کا کر دار ادا کر نے کے لئے تیار ہیں۔ رہا سوال فریق ثا نی یعنی طالبان کا، کہ ان کے ساتھ رابطہ کا ری کے لئے کو ن سے ذرائع استعمال کئے جا ئیں،پا کستانی جیلوں میں قید افغان طالبان یا قطر کا دفتر؟ اس سے پہلے افغان طالبان کی آمادگی ضروری ہے، اس لئے کہ طالبان کے دو ہی مطا لبات ہیںکہ غیرملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔دوسرا یہ کہ  مذاکرات افغانستان حکومت کی بجا ئے امر یکا کے ساتھ ہوںگے۔

سوال یہ ہے کہ کیا طا لبان مذاکراتی عمل میں شریک ہو نے سے پہلے ان دونوں مطا لبات سے دست بر دار ہو جائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کو ن سی یقین دہانیا ں ہیں جو طا لبان کو کر ائی گئی ہیں، جن کی بنیا د پر وہ مصا لحتی عمل میں شریک ہو نے پر رضا مند ہونگے؟دوسر ا یہ کہ افغانستان میں طا لبان نے شروع ہی سے اپنی کارروائیاں موسم سرما میں ہمیشہ معطل رکھی تھی لیکن اس پوری تحریک مزاحمت کے دوران میں پہلی مر تبہ ایساہو رہا ہے کہ سخت سر دی کے مو سم میں بھی طالبان کی کا میاب کارروائیاں جا ری ہیں۔

جس طر ح طالبان مذاکرات پر آما دگی سے پہلے غیر ملکی افواج کا انخلاء چاہتے ہیںیا افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بجائے امر یکا کے ساتھ با ت چیت کر نے کے خو اہش مند ہیں، اسی طر ح افغانستان کی حکومت کاطالبان کے ساتھ مذاکر ات کر نے کے لئے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ طا لبان اپنی کارروائیاں بند کر دیں۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا طالبان افغان حکومت کے اس مطا لبے کو ما ننے پرآمادہ ہیں یا نہیں؟

افغانستان حکومت کے اندرونی اختلافات بھی ایک اہم مشکل ہیں کیو نکہ ڈاکٹر عبد اللہ اور رشید دوستم کبھی اس پر راضی نہیں ہو نگے کہ ان کی حیثیت کمزور ہو۔ہند وستان کی بھی خواہش ہے کہ افغانستان میں افراتفری رہے تا کہ اسے پاکستان میں تخریبی کا رروائیاں کر نے میں آسانی ہو۔اس پو رے مذاکر اتی عمل میں سب سے اہم اور مشکل مر حلہ پا کستان کا افغا نستان اور اتحادی افواج سے یہ مطا لبہ ہے کہ کا لعدم تحریک طالبان پا کستان کے خلاف بھی کا رروا ئی کی جا ئے۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس ایسا کر نے کی اجا زت دے گا؟دوسرا یہ کہ اس وقت افغان حکومت میں جو وار لارڈز مو جو د ہیں کیا وہ ایسا ہو نے دیں گے؟ تیسرا اہم نقطہ کہ کیا خود امر یکہ پا کستان کے ساتھ اس مطا لبے پر راضی ہو جا ئے گا؟اللہ کر ے کہ پاکستان،چین ،روس اور تر کی مل کر افغانستان میں امن کے قیام میں کا میاب ہوں، تاہم مو جودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہو ئے کہا جا سکتا ہے کہ اس مذاکر اتی مصالحت کو شروع کر نے میں بہت سی مشکلات ہیں۔

چاروں ممالک اور امر یکا کے درمیان عدم اعتماد کی فضا موجود ہے۔رہی بات چین کی، ہو سکتا ہے کہ وہ طا لبان کے ساتھ کسی حد تک مفاہمت میں کا میا ب ہو جا ئے تا کہ افغانستان میں ان کا سرما یہ اور سرمایہ کارمحفوظ ہو، جہاں تک تعلق ہے دیر پاامن کے حصول کااس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے لئے چین کو کتنے برسوں تک انتظا ر کر نا ہو گا۔اس لئے کہ افغانستان میں جنگ گز شتہ چار عشروں سے جاری ہے ،جبکہ بد اعتمادی کی یہ فضا بھی اسی وقت سے مو جود ہے۔

The post افغانستان میں قیام امن، ترکی اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DGWcjO
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment