کتنے آدمی تھے؟
مصنف: ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
صفحات: 376، قیمت: 500 روپے
ناشر: قریشی انٹرپرائزز، کراچی
لفظوں اور جملوں کی دل چسپ ترتیب و تحریف سے معنی خیز شگفتگی دکھانے والے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی یہ ’سلور جوبلی‘ تصنیف ہے۔ اس کتاب میں اُن کی روایتی تخلیقیت کی مثال کے لیے یہ عنوانات ملاحظہ کیجیے ’بیوی ’ڈانٹ‘ کام، باس زندہ ذلت باقی، جس گدھے میں جان ہوگی وہ گدھا رہ جائے گا، جنون سے اور ’رسک‘ سے ملتی ہے آزادی اور یہ شادی یہ تیرے پراسرار بندے وغیرہ۔ کتاب کے مندرجات میں حسب روایت زبان و بیان پر ان کی مضبوط گرفت اور محاوروں اور روزمرہ کا برجستہ استعمال اپنی شان دکھا رہا ہے۔
مصنف کے یہ اوصاف ان کے مزاح نگاری کو چار چاند لگاتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمیں آج کے لکھنے والوں میں زبان پر ایسا عبور ذرا کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایسے ’تعمیری مزاح‘ کے قائل ہیں، جو آپ کو مسکرانے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرے، اُن کا یہ رنگ یہاں بھی واضح ہے۔ اُن کی تحریر میں برسبیل تذکرہ در آنے والے مشاہدات و تجربات، مثالیں اور محاورے قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں، یہی نہیں، ساتھ ہی وہ اپنی وسیع مطالعے کے بگھار سے دو چند بھی کرتے جاتے ہیں۔
یہ کتاب پانچ حصوں میں تقسیم ہے، حصہ اول بہ عنوان ’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘ 33 مضامین پر استوار ہے، حصہ دوم میں اسپین کا مختصر سفرنامہ شامل ہے، حصہ سوم میں ’یہ خاکے اپنی فطرت میں ہلکے ہیں نہ بھاری ہیں‘ چھے عدد خاکے رقم کیے گئے ہیں، حصہ چہارم میں مختلف تقاریب میں پڑھے گئے نو مضامین سجے ہیں، جب کہ حصہ پنجم ’اردو ہے جس کا نام۔۔۔‘ میں دو مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ’فلیپ‘ پر کتاب کے مندرجات کے دل چسپ اقتباسات درج ہیں، جب کہ پچھلے سرورق پر مصنف کے تعارف کو جگہ دی گئی ہے، جو مختصر ہونے کے باوجود پوری جگہ میں پھیل گیا ہے۔
اردو بستی لندن سے
مصنف: یشپ تمنّا
صفحات: 160، قیمت: 350 روپے
ناشر: اردو ورثہ، ناظم آباد، کراچی
لندن میں کسی زمانے میں اردو کے نام وَر مشاہیر ادیب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، اور بہت سے دیگر اہل علم کی آمدورفت بھی جاری رہتی تھی، تب اُسے اردو کے تیسرے بڑے مرکز کے طور پر یاد کیا جاتا تھا۔ آج بھی برطانیہ میں جنوبی ایشیائی باشندوں کی تعداد 22 لاکھ سے زیادہ ہے، جن میں نصف سے زیادہ نے آنکھ وہیں کھولی۔ اس کتاب میں لندن میں رقم ہونے والے اردو ادب پر اظہار خیال کیا گیا ہے، یہ تمام مضامین گذشتہ بیس، پچیس برس کے دوران تحریر کیے گئے، بقول ناشر سیدہ تحسین فاطمہ ’’یشپ تمنا‘‘ کا لہجہ ذرا تیکھا سا ہے۔
ان کی نثر ان کے شعر کی طرح اکثر سچ بولتی ہوئی نظر آتی ہے۔‘‘ ظفراقبال کے ذیل میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر ان کی کتاب ’’لاتنقید‘‘ سے دُہرائی گئی باتیں حذف کردیں، تو کتاب کی ضخامت ایک چوتھائی کم ہو سکتی ہے۔ اس کتاب میں اردو سے وابستہ مختلف شخصیات کے ساتھ کچھ کتب پر بھی اظہارخیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں انہوں نے انگریزی کو ذریعہ اظہار بنانے والوں کے تذکرے میں وہاں کارفرما ادبی ایجنٹ کا انکشاف کیا ہے کہ جو آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ اپنی کتاب میں کیسا مواد شامل کریں، جو آپ کی کتاب کی اشاعت اور فروخت میں معاون ہو۔
کتاب: تنہائی
مصنف: یشپ تمنّا
صفحات: 176، قیمت: 350 روپے
ناشر: اردو ورثہ، ناظم آباد، کراچی
یہ اس کتاب کی دوسری اشاعت ہے، 2011ء میں یہ شعری مجموعہ پہلی بار شایع ہوا، جس میں سے کلام ’اکادمی ادبیات پاکستان‘ کے سالانہ انتخاب میں بھی شامل ہوا۔ اس کتاب کی بہت سی شاعری کو وہ اپنی شریک حیات کی رفاقت کے مرہون منت کہتے ہیں۔ ایک طرف ان کی غزل میں ہجر و وصل کے عنوانات ہیں، تو وہیں ان کے اندر کی بے تابیاں نظموں کی صورت استوار نظر آتی ہیں، جن میں محبت کے ساتھ سماجی المیے بھی نوحہ گر ہیں۔ کتاب کے مندرجات میں ہجرت، فاصلے، وصل، جدائی، سفر و مسافت کے ساتھ کہیں کہیں دوسرے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے؎
میں معرفت کے ہوں اب اس مقام پر کہ جہاں
کیا گناہ بھی تو خدشۂ ثواب رہا
اسی طرح جدائی کے موضوع پر ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے؎
بچھڑ کر اس سے ایسے مطمئن ہوں
کہ جیسے بوجھ اترا کوئی سر سے
کہیں ہمیں ان کے مزاج میں پہناں درد کی خبر ملتی ہے؎
ہجر کے لطف بھی انوکھے ہیں
وصل میں بھی عجب ملال سا ہے
ان کی نظموں میں کہیں غم کے ’اسٹیٹس کو‘ سے رہائی کی بات ہے، تو کہیں سماج کے ناگفتنی مسائل پر سخن آرائی ہے۔ آخر میں شامل نثری نظموں کے بعض استعارے بہت خوب ہیں، جس میں نظم ’پوٹلی‘ کا آخری حصہ قابل ذکر ہے۔
مقالات کلیم
مصنف: کلیم احسان بٹ
صفحات: 271، قیمت: 500 روپے
ناشر: کتاب ورثہ، لاہور
اس کتاب میں شامل مقالات میں میر تقی میر، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان وغیرہ کی ادبی خدمات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب میں شامل 13 مقالوں میں سے چار کا موضوع مرزا اسد اللہ خاں غالب ہیں، جن میں سے ایک مقالے میں غالب، میرؔ کے، جب کہ دوسرے میں مشتاق احمد یوسفی کے ساجھے دار دکھائی دیتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے شہرۂ آفاق ناول ’آگ کا دریا‘ کے حوالے سے لکھے گئے مقالے میں اس ناول میں ہندی زبان کے استعمال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ محقق نے شریف کنجاہی کی ’چپ جی‘ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی ہے۔ کلیم احسان بٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، راول پنڈی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اس سے قبل اُن کی شاعری اور تحقیق وغیرہ پر چھے تصانیف منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ دوٹوک انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’ان مضامین کے معیار پر مجھے کوئی اصرار نہیں، بس یہ وہ کوشش ہے جو میں کر سکا، ان میں مضامین میں ایک دو مضامین ہی ایسے ہیں جو فرمائشی ہیں۔
باقی مضامین میں نے اپنی افتاد کے مطابق لکھے ہیں۔‘‘ کسی بھی تحقیقی کتاب میں شامل حوالے اس کتاب کی تحقیق کو معیار کے ایک درجے پر فائز کرتے ہیں، اور اس کتاب میں بھی اس امر کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ جامعہ دلی میں اردو کے پروفیسر شیخ عقیل احمد نے لکھا ہے، وہ کہتے ہیں ’’کلیم احسان بٹ ایک باصلاحیت تخلیق کار، محقق اور ناقد ہیں، ان کے مطالعے کا کینوس کافی وسیع ہے، متذکرہ تصنیف میں ان کی جملہ صلاحیتوں کا عکس موجود ہے۔‘‘
کتاب القواعد
مؤلف و مصنف: مظہر حسین گوندل
صفحات: 297، قیمت: 250 روپے
ویسے تو یہ کتاب ششم تا ہفتم جماعت کے نصاب کے لیے ہے، لیکن باذوق قارئین بھی اگر اس کی ورق گردانی کریں، تو اسے بے حد مفید پائیں گے، کیوں کہ اس میں زبان کے تمام بنیادی قواعد اور اسے برتنے کے سلیقے اور قرینے مذکور کیے گئے ہیں۔ اسم اور فعل کی اقسام ، حرف، اعراب، واحد جمع، تذکیر و تانیث، متشابہ الفاظ، سابقے لاحقے، مترادفات، حصہ نحو، کلام، رموز اوقات، روزمرہ محاورے، ضرب المثل، تشبیہہ، استعارے، تلمیح اور ردیف جیسے بہت سے بنیادی عنوانات اس کتاب میں شامل ہیں۔
ساتھ ہی ہر سبق کے ساتھ چوکھٹے میں اس کا اہم نکتہ بھی درج ہے، تاکہ طالب علم کو ذہن نشین کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک باب اصناف ادب پر بھی ہے، جس میں مختصراً ہر صنف سے متعلق بتایا گیا ہے، درحقیقت یہ وہ موضوع ہے کہ جس کے بارے میں بہت سے قارئینِ ادب کا بھی تصور واضح نہیں ہوتا اور وہ بہت سی اصناف کے درمیان امتیاز نہیں کرپاتے۔ اس کے بعد کتاب میں روزمرہ زندگی میں کام آنے والی ضروری تحاریر کے حوالے سے بھی لکھا گیا ہے۔ اس لیے اس جامع کتاب کو درس و تدریس اور اِبلاغیات سے جڑے افراد اور اردو لکھنے، پڑھنے سے شوق رکھنے والے عام قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے، تاکہ زبان دانی سے متعلق بنیادی ترین باتوں سے اچھی طرح آگاہ ہو سکیں۔
گنّا، کھیت سے کھپت تک
مصنف: ڈاکٹر محمد اعجاز رستم
صفحات: 317، قیمت: 1600 روپے
ناشر: ڈیزائن اسٹوڈیو، فیصل آباد
گنّے کا شمار ہمارے ملک میں کاشت کی جانے والی اہم ترین فصلوں میں ہوتا ہے، اس فصل کے حوالے سے عالمی سطح پر ہمارا مقام چوتھا یا پانچواں ہے۔ اس کتاب میں گنّے کی کاشت کے حوالے سے بنیادی معلومات سے لے کر اعداد و شمار تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں مختلف فصلوں سے متعلق ایسی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، جس میں جدید تحقیقات کی روشنی میں متعلقہ افراد کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، تاکہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے ہماری معیشت مستحکم رہے، یوں تو مصنف کا تعلق فیصل آباد سے ہے، لیکن اس کتاب کے ذریعے وہ ہر قاری کی دسترس میں ہیں اور اپنی ماہرانہ رائے پہنچا رہے ہیں۔ کتاب کا اسلوب سوالاً جواباً ہے، مصنف اِسے معلومات کے متلاشی عام قارئین، طالب علموں، اساتذہ، سائنس دان، کسان، کاشت کار، شوگر مل مالکان اور پالیسی سازوں تک کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔ دیدہ زیب رنگین طباعت سے آراستہ یہ مجلد کتاب چکنے کاغذ پر شایع کی گئی ہے۔
پنکی اور کٹو
مصنف: سمیرا انور
صفحات: 103، قیمت: 200 روپے
ناشر: گلستان کتاب گھر، خانیوال
بچوں کو زبان وبیان سے آگاہ کرنے اور ان کی تربیت میں قصے کہانیوں کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے، بدقسمتی سے آج کل بچوں کی تفریح کا یہ بہترین شعبہ عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جدید ذرایع اِبلاغ میں جدید ترین ذرایع میں شاید پرانی وضع کی کہانیوں اور کرداروں میں اُس طرح کی کشش بھی محسوس نہیں ہوتی، لیکن اس کتاب کی لکھاری چوں کہ خود شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں، اس لیے نئی نسل کو زیادہ قریب سے جانتی ہیں، تب ہی انہوں نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں جانوروں کو کردار بناتے ہوئے بچوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہانیاں جانوروں پر ہونے کے باوجود براہ راست کوئی نہ کوئی سبق اور نصیحت لیے ہوئے ہیں۔ یہ کہانیاں ’کرنیں‘ (ایکسپریس) اور دیگر اخبارات میں شایع ہوچکی ہیں۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مرزا ظفر بیگ لکھتے ہیں ’’انہوں نے خاص طور پر جنگل کو اپنی سوچ اور تربیت کا بیڑہ کچھ اس طرح اٹھایا کہ خاص طور سے جنگل کو اپنی سوچ اور تربیت کا مرکز بنایا۔ اس میں جانوروں کے کردار کے ذریعے بچوں کی جس خوب صورت انداز سے راہ نمائی کی گئی ہے، اسے بڑے ادیبوں نے بھی سراہا ہے۔‘‘
خاموش دریچے
مصنف: مسلم انصاری
صفحات: 160، قیمت: 300 روپے
ناشر: علم و عرفان پبلشرز، لاہور
یہ کتاب دراصل ایک درد مند دل کے مکالموں پر استوار ہے، کتاب کا نصف حصہ نثر اور نصف شاعری پر محیط ہے۔ صاحب کتاب کی عمر فقط 21 برس ہے، مگر حوادث زندگی نے اس کے تجربات میں نوجوان میں ہی اتنی اداسی، رنج، درد، بے چینیاں ، بے تابیاں، اکتاہٹ، سوالات اور خدشات بھر دیے ہیں کہ وہ اُن کے بے لاگ اظہار سے باز نہ رہ سکا۔ یہ اُسی صورت میں ہوتا ہے جب شعور سنبھالتا ہوا ذہن غیرمعمولی حساسیت لیے ہوئے ہو، جس کے نتیجے میں اپنے گرد وپیش سے آگاہی کسی کاری وار کی صورت کلیجے پر محسوس ہو اور پھر ان وارداتوں سے ابھرنے والی آہیں اس کے وجود سے لبریز ہو کر چھلک پڑیں۔۔۔ ان ’آہوں‘ کو پڑھیے تو خالی کمرے میں بیٹھے کسی تنہا شخص کی خودکلامی کا احساس ہوتا ہے، جو اپنی کیفیت سے مجبور ہو کر بے خودی کے عالم میں بس کہے چلے جاتا ہے۔۔۔ کبھی یہ تصور اور کبھی یقین ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اپنے محرک تک پہنچ رہے ہیں اور کبھی تو وہ بھی نہیں ہوتا، مگر وہ اپنے کلام کا اکیلا سامع بنا اس کیفیت میں محو رہتا ہے۔۔۔
’’ارتقاء‘‘
کہانی ایک سرکاری ملازم کی
منصف : سید ارتقا احمد زیدی
صفحات : 468 ، قیمت : 1000 روپے
سید ارتقا احمد زیدی صوبہ بلوچستان کے پہلے آفیسر ہیں جنھوں نے حکوم مغربی پاکستان ، بلوچستان اور وفاقی حکومت میں چالیس سال سے زیادہ عرصے تک خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ مختلف بین الاقوامی فورمز سے بھی جُڑے رہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی سرکاری ذمے داریوں کے متعلق بھی اہم واقعات بیان کیے ہیں۔ ابتدا میں سوانح حیات کا پس منظر بیان کیا گیا ہے، پھر مصنف نے اپنے بچپن کا ذکر کیا ہے، والد کا تعارف، جائے پیدائش، ہندوستان سے پاکستان ہجرت کا واقعہ اور پھر پاکستان آکر پنجاب میں قیام اور پھر ابتدائی تعلیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف کا اندازِ تحریر اس قدر دلچسپ اور سہل انداز میں تفصیلاً تمام واقعات کو بیان کیا گیا ہے کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کتاب نہیں پڑ رہے بلکہ نگاہوں کے سامنے وہ تمام مناظر گھوم رہے ہیں ۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HzA2lt
0 comments:
Post a Comment