Ads

’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ سے ’’ پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ تک کا سفر

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک یا معاشرے میں جب بھی کوئی تحریک اٹھی ہے اس نے معاشرتی، سیاسی، تہذیبی اور مذہبی جمود کو توڑ کر ہمہ رنگی اور حرکت پیدا کی ہے کہ اس کی تہہ میں تحرک کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور کارفرما ہوتا ہے۔ یوں بھی حرکت ایک مطلق حقیقت ہے، لہٰذا حرکت ہی جمود کے مخالف عمل کانام ہے اور حرکت کا یہ عمل بالعموم اس وقت شروع ہوتا ہے جب حالت جمود اپنی انتہا کو پہنچ کر تحرک کے عمل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

حرکت اور تغیر کی یہ سوچ و فکر اگر ایک فرد سے بڑھ کر دیگر لوگوں کے اذہان کا حصہ بن جائے تو وہ ایک رجحان بن جاتاہے اور جب اس رجحان میں کئی اور لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں بھی شامل ہوجائیں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور یہ رجحان نسبتاً وسیع طبقے کا نمائندہ بن جاتاہے۔ مُختصراً یہ کہ کسی مخصوص رجحان کا جادو جب معاشرے کے ایک وسیع طبقے کو اپنی گرفت میں لینے میں کام یاب ہوجاتا ہے تو پھر ایک تحریک مرتب ہونے لگتی ہے۔

جہاں تک پشتو تحفظ موومنٹ کا تعلق ہے تو اس تحریک کا بیج اسی دن بویا گیا جب دو ہزار نو میں جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں فوجی آپریشن کے باعث پورے محسود قبیلے کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور پوری پانچ لاکھ آبادی پر مشتمل محسود قبیلہ اس کارروائی سے متاثر ہوا، جس کے باعث اس قبیلے کے چند نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر ایک تحریک کا آغاز کیا، جسے ’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس تحریک کے سرخیل منظور پشتین ہیں جن کا مقصد اپنے لوگوں کو تحفظ مانگنا ہے۔

اپنے علاقے سے دور مہاجرت کی زندگی کی زندگی گزارنے اور فوجی آپریشن  کے بعد جب محسود قبیلے کے بے گھر افراد اپنے گھروں کو لوٹے تو انہیں وہاں بڑے پیمانے پر بچھائی جانے والی  بارودی سرنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران تقریباً سو کے قریب افراد جن میں زیادہ تر  بچے تھے، بارودی سرنگوں کے شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ وطن کارڈ رکھنے کے باوجود وزیرستان کے مرد، خواتین، بوڑھوں اور بچوں  کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑا کرکے ان کی جامہ تلاشی کی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ لاپتا افراد کا مسئلہ بھی تھا، لہٰذا ان مسائل کو لے کر محسود تحفظ موومنٹ شروع ہوئی، جس نے اپنے مطالبات کے لیے ڈی آئی خان سے احتجاجی لانگ مارچ شروع کرکے صوبے کے دیگر اضلاع بنوں، کوہاٹ، مردان اور صوابی تک سفر کیا۔ اس لانگ مارچ میں لوگ جوق درجوق شریک ہوتے رہے، جس نے ایک بہت بڑے لانگ مارچ کی شکل اختیار کرلی۔ اسی طرح محسود تحفظ موومنٹ پشتون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہوگئی۔

تحریک کے کارکنان اور حامیوں نے یکم فروری تا دس فروری اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پُرامن دھرنا دیا۔ یہ اتنا زوردار اور پُراثر دھرنا تھا کہ کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی اپنی جانب کھینچ لایا، جن میں  پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان، اے این پی کی سابق ایم این اے  بشریٰ گوہر، افراسیاب خٹک اور نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کے سابق مرکزی آرگنائزر محسن داوڑ کے علاوہ سیکڑوں کارکن، جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے چئیرمین محمودخان اچکزئی، پی پی پی کی مرکزی وصوبائی قیادت کے علاوہ معروف قانون داں عاصمہ جہانگیر اور معروف سنیئر صحافی حامدمیر شامل ہیں۔ لہٰذا اس تحریک  کا وزیرستان سے اٹھنا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خیبرپختون خوا، کراچی، اسلام آباد اور بلوچستان کے پختون علاقوں تک پہنچنا، پختونوں کی جانب سے اس کا خیرمقدم کرنا، اس میں جوق درجوق شامل ہونا، اس کے لیے چندے جمع کرنا، سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر اور آواز کو دنیا تک پہنچانا کسی اچانک حادثے یا کسی کے ’’مخصوص اشارے‘‘ کی پیداوار نہیں سمجھنا چاہیے بل کہ

سمجھے تھے ہم کہ عشق ہے ایک حسن اتفاق

دیکھا تو واقعات کا ایک سلسلہ ملا

یا بقول غالب ’’پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے۔‘‘ حالات اور پے در پے ہونے والے واقعات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے2013ء میں ’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کے نام تنظیم کی بنیاد رکھی تھی، جو بعد میں پشتون تحفظ موومنٹ بن گئی۔ اس تنظیم کے روح رواں منظور پشتین ہیں۔ ان کے بقول کہ ہمارے لوگ حالات سے اس قدر تنگ آچکے تھے کہ قیامت کی دعائیں مانگ رہے تھے تاکہ اس زندگی سے گلوخلاصی ہوجائے، کیوں کہ ایک طرف ماورائے عدلت قتل ہورہے تھے، دوسری طرف علاقے کے لوگ لاپتا کیے جارہے تھے، قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھی ہیں، چیک پوسٹوں پر مرد، خواتین، بوڑھوں اور بچوں کے ساتھ  بدتمیزی اور بداخلاقی کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ محب وطن قبائل کے لیے اپنے ہی ملک اور علاقے میں ’’وطن کارڈ‘‘ لازمی قرار دیے گئے، لہٰذا ان حالات سے تنگ آکر ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ہمیں مجبوراً اپنے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانا پڑی۔

منظور پشتین کا کہنا ہے کہ جہاں تک اسلام آباد میں دس دنوں تک دھرنا دینے کا تعلق ہے تو اس دھرنے کا فیصلہ ہم نے ستمبر2017ء میں کیا تھا اور اس وقت نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ تاہم ہمارے دھرنے اور احتجاج پر کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل نے جلتی پر تیل کا کام ضرور کردکھایا۔ چناں چہ2013.14ء میں شروع ہونے والی ’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ نے ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کی شکل اختیار کرلی۔ تاہم اس تحریک کا بیانیہ نہ تو اقتدار کی کرسی ہے اور نہ ہی ہمارا مقصد کسی پر تشدد یا کسی سے انتقام لینا ہے، بلکہ اس تحریک کا ایک ہی نعرہ اور مطالبہ ہے کہ ’’دا سنگہ آزادی دہ‘‘؟ (یہ کیسی آزادی ہے) جس میں ایک ہی نسل، زبان، جغرافیے، مذہب اور کلچر کے لوگوں کو الگ الگ رکھا گیا ہے، جس میں قبائلی علاقوں سے اب بھی ایک بڑی تعداد لاپتا ہے۔

’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ نے پورے دس دن اسلام آباد میں پرامن دھرنا دیا اور حکومت کی جانب سے تحریری ضمانت دینے کے بعد دھرنا ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ اگرچہ اس کے بعد باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، سوات اور مالاکنڈ میں بھی احتجاجی جلسے ہوئے۔  پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم مطالبات میں سے پہلا مطالبہ قبائلی علاقوں میں بچھی بارودی سرنگوں کا مکمل صفایا ہے، دیگر مطالبات یہ ہیں: ہزاروں کی تعداد میں لاپتا افراد کی واپسی اگر ان میں کوئی مطلوب یا جرائم پیشہ ہو تو اسے متعلقہ عدالتوں میں پیش کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، مگر جو بے گناہ ہیں انہیں باعزت طریقے سے اپنے گھروں کو واپس بھیجا جائے۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں میں قائم چیک پوسٹوں سے گزرنے والوں کے ساتھ جس قسم کا سلوک اور لب ولہجہ اختیار کیا جارہا ہے اس سلوک اور لب ولہجے کو بند کیا جائے، کراچی میں نقیب اللہ محسود کی غیرعدالتی قتل میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار گرفتار ہوگیا ہے، تاہم اس کے خلاف غیرجانب دارانہ قانونی کارروائی اور اس پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔

دیکھا جائے تو ان میں سے  ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں جو غیرآئینی، غیرقانونی اور غیرمنطقی ہو۔ اگر وابستگان تحریک، جن میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے، اپنی سرزمین پر امن کے قیام، بھائی چارے کی فضاء اور باہمی رواداری کے لیے آواز اٹھارہے ہیں اور پرامن طریقے سے احتجاج کررہے ہیں، اور اپنے مطالبات کے لیے ہر فورم پر باہمی مذاکرات کے لیے بھی ہمہ وقت تیار ہیں تو ان کے اس طرزعمل اور طرز فکر کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، کیوں کہ موجودہ حالات میں جہاں لوگ اپنے چھوٹے سے چھوٹے اور ناجائز مطالبے کے لیے بھی تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کرنا جائز  سمجھتے ہیں،  پشتون تحفظ موومنٹ، جس کے کارکنان کی  تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے، اپنی جدوجہد کے لیے پُرامن اور عدم تشدد کا راستہ چُنا ہے۔ تحریک نے ابھی تک اپنے مطالبات منوانے کے لیے کہیں بھی نہ تو توڑ پھوڑ سے کام لیا اور نہ ہی کوئی ایسا ردعمل ظاہر کیا جس سے عوام اور ریاستی املاک کو کوئی نقصان پہنچا ہو۔ ایسے میں اس تحریک کے قیام کی وجوہات اور اس کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

منظور پشتین کون؟
پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان روح رواں منظور پشتین 1992ء میں جنوبی وزیرستان کے ایک چھوٹے اور پس ماندہ گاؤں مولا خان سرائے میں ایک اسکول ماسٹر عبدالودود کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے میٹرک اپنے گاؤں کے اسکول سے کیا۔ بعد میں گومل یونی ورسٹی ڈی آئی خان سے ڈی، وی، ایم (ڈاکٹر آف ویٹنری میڈیسن) کی سند حاصل کی۔ وہ محسود قبیلے کی شاخ شمن خیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

2009ء میں ان کے علاقے میں جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو وہ اپنے گھرانے کے ساتھ نقل مکانی کرکے ڈی آئی خان میں جابسے۔ منظور پشتین چار بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ جنوری 2018ء تک وہ ایک گم نام نوجوان تھے اور انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ تاہم جب فروری میں ان کی قیادت میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے لانگ مارچ کیا اور اسلام آباد میں پورے دس تک تک احتجاجی دھرنادیا تو منظورپشتین کے نام سے ایک دنیا واقف ہوگئی۔ وہ گذشتہ سال شادی کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ کتابوں کا مطالعہ انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کے بقول ہجرت کے ایام میں ان کے والد اپنے گھر کے بارے میں اتنے فکرمند نہیں رہتے تھے جتنے اپنی چھوڑی ہوئی کتابوں کے بارے میں پریشان تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب ہم واپس اپنے گھر گئے تو گھر سمیت تمام کتابیں بھی آپریشن میں غارت ہوگئی تھیں۔ علاقے میں بارودی سرنگوں کی صفائی پر ان کی توجہ اس وقت زیادہ مرکوز ہوئی جب ایک واقعے میں ان کے ایک اسکول ٹیچر اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے۔ منظورپشتین کے بقول اس خبر نے مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں چھوڑی کہ میں اپنے استاد کی بیمارپرسی اور داد رسی کے لیے جاتا۔ مجھے یہ منظر اندر ہی اندر قتل کررہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ جس استاد کی محنت سے میں یہاں تک پہنچا ہوں آج انہیں اس حالت میں کیسے ملوں کہ مصافحے کے لیے وہ اپنی ٹانگوں پر اٹھ کھڑے ہونے سے معذور ہیں؟ منظورپشتین نے ان تمام حالات اور واقعات پر چودہ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کے بقول یہ کتاب پڑھ کر نہ صرف پختون بلکہ تمام انسان دوست لوگ بہت زیادہ دکھی ہوجائیں گے کیوں کہ وہ واقعات ہی کچھ ایسے ہیں۔

’’تحریک امن کے قیام تک جاری رہے گی: منظور پشتین
منظور پشتین کہتے ہیں کہ ہم ریاست سے اور کچھ بھی نہیں مانگتے سوائے آئین کے مطابق زندگی کی سلامتی اور ضمانت کے۔ قبائلی علاقوں میں انسانی زندگی آخری سانسیں لے رہی ہیں، دہشت گردی اور فوجی کارروائیوں سے فاٹا کا انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، بس خدارا ہمیں اور نہ مارا جائے نہ لاپتا کیا جائے اور نہ ہی ہماری عزت اور انا کو زک پہنچائی جائے۔ ہمیں ووٹ نہیں عوامی سپورٹ اور ہمیں وزارتیں اور عہدے نہیں صرف زندگی چاہیے۔ ملک کے جس حصے میں بھی ظلم اور ناانصافی ہو اس کے خلاف تمام مظلوم اور محکوم طبقات کو آواز اٹھانی اور مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔

ان کے بقول بعض قوتیں ہم پر را اور این ڈی ایس (افغانستان کی خفیہ ایجنسی) کا لیبل لگا رہی ہیں، جب کہ ہمیں آج تک ان ناموں کا پتا بھی نہیں تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے تمام مظلوم اور محکوم ایک ہوجائیں اور ہماری تحریک ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کرلے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ڈرانا اور دھمکانا بھی دہشت گردی ہے۔ ہم امن اور زندگی مانگ رہے ہیں، اس پر بھی ہم غدار، دہشت گرد اور ایجنٹ قرار دیے جارہے ہیں۔ ہم تو صرف اپنی زندگی اور اس کا تحفظ مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا تحریک میں جوق درجوق لوگوں کی شمولیت اور خیرمقدم اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اس دھرتی پر ملک کے آئین، قانون امن، استحکام اور عزت کے ساتھ جینے کا بنیادی انسانی حق مانگ رہے ہیں۔

شہید نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے الزام میں گرفتار ڈی ایس پی راؤانوار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سوچنے کی بات ہے کہ راؤانوار دو ماہ تک کہاں چھپا ہوا تھا؟ وہ کون سے شہر سے سپریم کورٹ تک آیا؟ یہ ہمارے ریاستی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان کے بقول نقیب اللہ محسود کے علاوہ محسود قبیلے کے تقریباً تین سو افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ راؤانوار سمیت دیگر جو لوگ بھی اس قسم کی وارداتوں میں ملوث ہیں انہیں گرفتار کیا جائے اور اس سلسلے میں جوڈیشل کمیشن بنایا اور قرار واقعی سزا دی جائے۔

تاہم افسوس کہ ہمارے مطالبے پر اب تک جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا گیا ہے۔ اور نقیب اللہ محسود کے بعد بھی سات افراد ماورائے عدالت مارے جاچکے ہیں۔ لاپتا افراد کی جو فہرست ہمارے پاس ہے اس میں ایسے افراد کی تعداد چھے ہزار ہے جب کہ ان میں سے اب تک صرف تین سو افراد واپس آئے ہیں۔ لہٰذا ان میں جو افراد مطلوب اور جرائم میں ملوث ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور سزا دی جائے مگر جو بے گناہ ہیں انہیں فوری واپس کیا جائے۔ بارودی سرنگوں کی صفائی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ صرف جنوبی وزیرستان کا نہیں بلکہ تمام قبائلی علاقوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لہٰذا جہاں جہاں بھی بارودی سرنگیں ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات پر بڑی سست روی سے عمل کیا جارہا ہے، عمل درآمد میں تیزی لائی جائے۔ منظور پشتین کے مطابق ان کی تحریک مکمل امن کے قیام تک جاری رہے گی اور آئندہ ملک کے دیگر شہروں کے علاوہ کرم ایجنسی میں بھی بڑا جلسہ منعقد کیا جائے گا،’’کیوںکہ وہاں شیعہ سنی فسادات میں بھی ہمارے ہی لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ ہم اس کے خلاف بھی بھرپور احتجاج اور مزاحمت کریں گریں گے۔‘‘

The post ’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ سے ’’ پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ تک کا سفر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JaVomn
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment