انسان کو اپنا ماضی ہمیشہ پرکشش محسوس ہوتا ہے اور وہ تاریخ کے بارے میں متجسس رہتا ہے۔ وہ اس بات کا متلاشی رہتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق جان سکے جو آج کے جدید دور میں تو اس کے استعمال میں ہیں لیکن ان چیزوں کی شروعات کہاں سے ہوئیں ؟ جیسے آرٹ، فوٹو گرافی، فن تعمیر اور موسیقی وغیرہ۔
زیر نظر مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ان چیزوں کی معلومات قارئین تک پہنچائی جائے جو آج تک دنیا میں دریافت ہونے والی پرانی ترین چیزوں میں شمار ہوتی ہیں۔
یاد رہے کہ پرانی ترین چیزوں سے مراد ہرگز ’’پہلی‘‘ چیز نہیں بلکہ اب تک منظر عام پر آنے والی قدیم ترین چیزیں ہیں۔جب تاریخ کی کتابیں ناکافی محسوس ہوں تو عجائب گھروں سے لے کر ’’اینٹیک‘‘ اشیاء کی دکانوں تک اور گھروں میں موجود خاندانی ورثے جیسے آثار، مخطوطات اور باقیات ہمیں پرانے زمانے کے انداز، رہن سہن، بودوباش، تہذیب و روایات اور ضروریات کی ایک ٹھوس جھلک دکھاتے ہیں۔
-1 ریکارڈنگ (صورت بندی) :
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیپ ریکارڈر مشہور موجد تھامس ایڈیسن کی ایجاد ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کئی سال قبل یعنی تقریباً 1860ء میں فرانس کے دارالحکومت پیرس کا رہنے والا ایک فرانسیسی موجد، جس کا نام ’’ایڈورڈ لیون اسکاٹ‘‘ (Edovard-Leon Scott) تھا، یہ کارنامہ سرانجام دے چکا تھا۔ اسکاٹ نے اپنا ایجاد کردہ یہ ’’فونائو ٹو گراف‘‘ 1857ء میں پیٹنٹ کروایا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 1860ء میں اپنی اس ریکارڈنگ مشین میں خود اپنی آواز میں پہلی ریکارڈنگ کی جو ایک فرانسیسی لوک گیت ”Av Clair de la lune” پر مبنی تھی۔ یہ اب تک کی پہلی معلوم میوزیکل ریکارڈنگ تصور کی جاتی ہے۔ اسکاٹ کی ریکارڈنگ اور فونائوٹوگراف 2007ء میں دریافت ہوئی۔
-2 فوٹو گراف (کھنچی ہوئی تصویر) :
فرانس ہی کے ایک اور شخص ’’جوزف نائسفور نائپس‘‘ (Joseph Nicephore Niepce) نے 1826ء سے 1827ء کے دوران کسی وقت فرانس کے علاقے ’’برگنڈے‘‘ (Burgundy) میں موجود اپنی جائیداد کے ایک منظر کی تصویر کھینچی۔ اس تصویر کو (View From the Window at Le Gras) کا نام دیا جاتا ہے۔ گویہ تصویر اتنی صاف نہیں جتنی ہم آج کل کی تصویریں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس دور کے لحاظ سے یہ تصویر ٹیکنالوجی میں ایک حیران کن پیش رفت تھی۔
اصل میں جوزف 1822ء میں بھی ایک تصویر کھینچ چکا تھا۔ یہ تصویر عیسائیوں کے روحانی پیشوا ’’پوپ پائیس ہفتم‘‘ (Pope Pius VII) کی کندہ کی گئی شبیہ کی تھی۔ کئی سال بعد بدقسمتی سے جوزف اپنی کھینچی ہوئی اس تصویر کی ایک نقل تیار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اصل تصویر کو بھی ضائع کر بیٹھا۔
-3 گلوب :
’’ایرڈ ایفل‘‘ گلوب، دنیا کا پہلا گلوب نہیں مگر یقینا یہ زمین کا اب تک کا سب سے پرانا تھری ڈئمینشنل ماڈل ہے۔ جرمن زبان میں ’’ایرڈاپفل‘‘ (Erdapfel) کا مطلب ’’ارضی سیب‘‘ ہوتا ہے۔ اس گلوب کا نام ’’بیہائم گلوب‘‘ ہے، جو اس کے بنانے والے ’’مارٹن بیہائم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے یہ گلوب 1491ء میں بنایا تھا۔ وہ جرمنی کے شہر ’’نیوریم برگ‘‘ (Nuremberg) کا رہنے والا تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ گلوب ایک متاثر کن چیز تھا، لیکن اپنی تخلیق کے بعد جلد ہی بیہائم گلوب ناقص و غلط ثابت ہوگیا کیونکہ اس میں بہت سارے سقم تھے۔ اس گلوب میں دیئے گئے دنیا کے نقشے کو غلط ثابت کرنے میں ایک اہم کردار کرسٹوفر کولمبس کا بھی تھا، جو اسی دوران امریکہ دریافت کرکے یورپ لوٹا تھا اور اس نے اہل یورپ کو دنیا کے اس حصے کے نئے نقشوں سے روشناس کروایا۔
-4 یونیورسٹی :
مراکش کے شہر ’’فیض‘‘ میں واقع ’’القرائوبن‘‘ یونیورسٹی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے، جس کا افتتاح 854ء میں کیا گیا۔ یہ یونیورسٹی شروع میں ایک مسجد کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد ایک دولتمند تاجر کی بیٹی ’’فاطمہ الفحری‘‘ نے بنوائی تھی۔ اس نے اپنے باپ سے ورثے میں ملنے والی دولت کو اس نیک کام میں لگا کر اس کا استعمال انتہائی مثبت بنا دیا۔ یہاں ممتاز مسلمان دانشورں کو دعوت دے کر خطاب کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ عرصہ دراز گزرنے کے بعد اس کی عمارت بوسیدگی کا شکار ہوکر ڈھ گئی۔ تاہم مراکش کی وزارت تمدن نے 2012ء میں اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش شروع کروادی۔
مسلمان آج ساری دنیا میں تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک کی یونیورسٹی عالمی رینکنگ میں پہلے پانچ سو نمبروں میں شمار نہیں ہوتی، مگر مراکش کی اس یونیورسٹی کو دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کا مقام ملنا ہم سب مسلمانوں کے لیے اعزاز کی بات بھی ہے اور فکر انگیزو چشم کشا بھی کہ ہم جو علم کے میدان میں دنیا میں سب سے آگے تھے آج کس زبوں حالی کا شکار ہیں ،جبکہ ہمارے دین نے ہمیں سب سے پہلا حکم ہی ’’اقراء‘‘ کا دیا اور قرآن پاک و احادیث مبارکہ سے مسلمانوں کے لیے علم حاصل کرنے کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔
-5 ریسٹورنٹ :
آسٹریا کے شہر ’’سالزبرگ‘‘ (Salzburg) میں واقع ’’سٹیفٹ سکیلر‘‘ (Stiftskeller) نامی یہ ریسٹورنٹ اپنے قیام کے ایک ہزار سال بعد بھی ’’سینٹ پیٹرز ابے‘‘ (St.Peter’s Abbey) کے علاقے میں اسی عمارت میں پوری آب و تاب سے اپنی چھب دکھلا رہا ہے جس میں وہ 803ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا قدیم ترین ریسٹورنٹ مانا جاتا ہے۔ اس ریسٹورنٹ کا کچھ حصہ سینٹ پیٹر کی خانقاہ کے نزدیک پتھریلی چٹانوں کو تراش کو بنایا گیا تھا۔ اس تاریخی ریسٹورنٹ کا دعویٰ ہے کہ اسے بہت سی مشہور شخصیات اور شاہی افراد کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس ریسٹورنٹ کا مالک خاندان بھی کیونکہ اسی قصبے کا رہنے والا تھا، جہاں معروف موسیقار ’’موزارٹ‘‘ (Mozart) پیدا ہوا، اس لیے اس ریسٹورنٹ نے اس کی بھی میزبانی کی۔ یہاں آنے والے گاہک آج بھی رات کا کھانا کھاتے ہوئے موزارٹ کی تخلیق کی گئی دھنوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
-6 چمڑے کے جوتے :
پانچ ہزار پانچ سو برس پرانے بتائے جانے والے یہ جوتے، 2008ء میں امریکہ کے صوبے ’’ویاٹس ڈزور‘‘ (Vayots Dzor) میں واقع گائوں ’’آرنی‘‘ (Areni) کی غاروں سے ملے۔ اس جوتے کا ایک پیر ہی مل سکا ہے۔ یہ جوتے گائے کے چمڑے کے سالم ٹکڑے سے بنے ہوئے ہیں اور ابھی تک بھی بہترین حالت میں ہیں۔ انہیں گھاس پھوس اور بھیڑوں کی مینگنیوں کے ذریعے محفوظ کیا گیا تھا۔
-7 دنیا کا نقشہ (Map) :
دنیا کا قدیم ترین نقشہ عراق سے دریافت ہوا۔ یہ 300 سے 700 قبل از مسیح میں تیار کیا گیا تھا اور یہ پتھر کی تختی پر کندہ ہے۔ اسے میسوپوٹیمیا کی مشہور بابلی تہذیب کے دور میں بنایا گیا۔ اس نقشے میں عراق کے علاقے بابل کو زمین کے مرکز میں دکھایا گیا ہے۔ ماہرین نے اس نقشے میں عہد رفتہ کے علاقوں جیسے ’’اسیریا‘‘ (Assyria) وغیرہ کو بھی شناخت کیا ہے۔ اس نقشے میں زمین کے چاروں طرف پانی دکھاکر اسے ’’نمکین سمندر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نقشے میں تکونی طرز تحریر میں مختلف علاقوں کو اس دور کے ہیروز اور اساطیری حیوانوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ نقشہ 1800ء کی دہائی میں عراق سے ملا اور اب برٹش میوزیم کی زینت ہے۔
-8 تختی :
’’دی ایٹروسکین گولڈ بک‘‘ (The Etruscan Gold Book) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی پرانی ترین متعدد صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ یہ چوبیس کیرات سونے کی چھ پرتوں سے بنی ہوئی ہے جنہیں گول لچھوں کی مدد سے باندھا گیا ہے۔ ان پرتوں پر قدیم اطالوی تہذیب ’’ایٹروسکین (Etruscan) کے رسم خط میں گھوڑے، گھڑ سوار، ایک جل پری اور سپاہیوں کی شبیہیں کندہ ہیں۔ 600 تا 660 قبل از مسیح پرانی یہ کتاب بلغاریہ میں ایک مزار کی کھدائی کے دوران 1943ء میں دریافت ہوئی۔ اب یہ کتاب بلغاریہ کے شہر صوفیہ کے نیشنل ہسٹری میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔
9۔ کرنسی یا سکے :
کہا جاتا ہے کہ ’’لیڈیا‘‘ (Lydia) کی قدیم سلطنت (موجودہ ترکی) وہ پہلی ریاست تھی جس نے اپنی مملکت میں سکے رائج کیے اور یہ بات آج سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے یعنی 750-560 قبل از مسیح کی ہے۔ یہ سکے جنہیں ’’سٹاٹرز‘‘ (Staters) کہا جاتا تھا، قدرتی سونے اور چاندی کے ملاپ سے بنائی جانے والی دھات ’’الیکٹرم‘‘ (Electrum) سے ڈھالے جاتے تھے تاکہ وہ وقت کی شکست و ریخت سے محفوظ رہ کر تادیر استعمال کیے جاسکیں۔ سلطنت لیڈیا کی امداد کی شکل میں یہ سکے سارے یورواشیا میں پھیل گئے۔ 2014ء میں بلغاریہ میں ایک غوطہ خور کو ایسا ہی ایک سکہ بحرہ سیاہ میں غوطہ خوری کے دوران ملا۔
-10 پل :
اگر کوئی چیز پرانی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اب استعمال کے قابل نہیں۔ یہ بات یونان کے شہر ’’آرکاڈیکو‘‘ (Arkadiko) میں ’’کازرما‘‘ (Kazarma) پر بنے ’’دی مائسینایان‘‘ (The Mycenaean) نامی پل نے ثابت کردی جو 1300-1200 قبل از مسیح یعنی آج سے تقریباً تین ہزار سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور آج بھی روز اول کی طرح قابل استعمال ہے۔ ’’آرچ‘‘ (Arch) نما یہ پل انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے، جس کو ملانے اور جوڑے رکھنے کے لیے کوئی چپکنے والی چیز استعمال نہیں کی گئی۔ اس پل کے دونوں اطراف ریلنگ کی طرح کی چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں بھی بنائی گئیں ہیں جن کا مقصد غالباً اس پر سے گزرنے والی رتھوں کو نیچے گرنے سے بچانا تھا۔
-11 موسیقی کی لکھی ہوئی علامات :
موسیقی کی لکھی ہوئی علامات والے اس مٹی کے ٹکڑے کو ’’ہورین ہامن نمبر 6‘‘ (Hurrian Hymn No.6) کا نام دیا گیا ہے، جو قدیم شام کے باسیوں کی دیوی ’’نکال‘‘ (Nikkal) کی شان میں مرتب کی گئی ایک غزل کی موسیقی پر مبنی ہے اور تقریباً 1400 قبل از مسیح میں تخلیق کیا گیا۔ قدیم شامیوں کے نزدیک ’’نکال‘‘ پھلوں کی دیوی تھی۔ مٹی کا یہ ٹکڑا شام کے شہر ’’یوگاریٹ‘‘ (Ugarit) سے 1950ء کی دہائی میں دریافت ہوا۔ موسیقی کی زبان میں لکھا ہوا یہ گیت مٹی کی تختی پر قدیم تکونی طرز تحریر میں کندہ ہے۔ مٹی کے اس ٹکڑے پر گیت کو ستار پر بجانے کے بارے میں مکمل ہدایات بھی درج ہیں۔ اس ٹکڑے کی دریافت سے قبل مورخین کا خیال تھا کہ موسیقی کی لکھی ہوئی علامات محض اتنی ہی پرانی ہیں جتنی قدیم یونانی تہذیب لیکن اس دریافت نے یہ خیال غلط ثابت کردیا۔
-12 دھوپ کے چشمے :
گرمیوں کے موسم میں دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں باہر نکلنے والے افراد دھوپ کے چشموں کی اہمیت سے خوب واقف ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ یہ چشمے جدید دور کی پیداوار ہیں۔ زمانۂ قدیم میں بھی لوگ دھوپ کی چکا چوند سے بچنے کے لیے ان چشموں کی ضرورت اور اہمیت سے کما حقۂ آگاہ تھے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ دھوپ چاہے گرمیوں کی ہو یا برفانی علاقوں میں سردیوں کی، وہ آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ برف پر پڑکر منعکس ہونے والی دھوپ بھی آنکھوں کے لیے ویسی ہی نقصان دہ ہے جیسے گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر کی دھوپ۔ اسی لیے پرانے زمانے سے ہی شمالی امریکہ کے برف زاروں میں بسنے والے اسکیمو لوگ برف سے منعکس ہونے والی دھوپ سے بچنے کے لیے دھوپ والے چشموں کا استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ چشمے ’’سیل‘‘ نما برفانی جانور، جنھیں سمندری شیر بھی کہا جاتا ہے، کے بڑے بڑے نوکیے ہاتھی دانت جیسے دانتوں سے بنے ہوتے تھے۔ جن کے سامنے والے حصے میں دیکھنے کے لیے پتلی سی درز بنائی جاتی تھی۔ اسی طرح بارہویں صدی عیسوی میں چین میں بھی دھوت کے چشمے استعمال ہوتے تھے۔
-13 مذہبی مخطوطات :
’’ایجپشن بک آف دی ڈیڈ‘‘ (Egyption Book of the Dead) فوت ہوجانے والے مصریوں کے لیے ہدایات پر مشتمل ایک مجموعہ تھا، جو میت کو آخروی دنیا کے مراحل میں پیش آنے والے امتحانات کے بارے میں راہنمائی فراہم کرتا تھا۔ اس ہدایت نامے پر مبنی تصاویر اور تحریروں کے مجموعے کو پہلے پہل قدیم مصر کے تیسرے عہد حکومت کے حوالے سے مشہور مقابر (اہرام) میں سے دریافت کیا گیا۔ قدیم مصر کا یہ عہد حکومت آج سے تقریباً 4,600 برس قبل یعنی 2613 تا 2670 قبل از مسیح پر محیط تھا۔ ازاں بعد یہ کتاب قدیم مصریوں میں اتنی مقبول ہوئی کہ عام مصری بھی اس کی ایک کاپی اپنی قبر میں ساتھ مدفون کرنے کی وصیت کرنے لگے۔ ایسی ایک کاپی کی لمبائی چالیس فٹ تک ماپی گئی۔
-14 درخت :
سائنسدانوں نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ دنیا کا تنہا قدیم ترین درخت 5,067 برس پرانا ہے۔ صنوبر کی ایک قسم ’’برسٹل کون‘‘ (Bristlecone) سے تعلق رکھنے والا یہ درخت 3050 قبل از مسیح کے زمانے کا ہے اور امریکی ریاست کیلیفورنیا کے وائٹ مائونٹین ریجن میں استعادہ ہے۔ دنیا کا قدیم ترین درخت ہونے کا اعزاز اس سے پہلے اسی علاقے کے ایک اور درخت ’’میتھوسیلاہ‘‘ (Methuselah) کے پاس تھا۔ ان درختوں کا صحیح محل و قوع خفیہ رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں کٹنے سے بچایا جاسکے۔
-15 خوراک :
پرانی ترین خوراک کالج کے اجتماعی طور پر استعمال ہونے والے دوستی ریفریجریٹر میں نہیں پائی جاتی بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جلی ہوئی ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا ہے جو انگلستان کی کائونٹی آکسفورڈ شائر (Oxfordshire) سے ملی تھی۔ ’’نیولیتھک برنٹ بریڈ‘‘ (Neolithic Burnt Bread) نامی یہ ڈبل روٹی کا ٹکڑا جو 5,500 سال پرانا یعنی 3620-3350 قبل از مسیح کا ہے اور جل جانے کی وجہ سے کالا سیاہ پڑچکا ہے، اپنی دریافت پر پہلے تارکول کا کوئی ٹکڑا تصور کیا گیا تھا۔ پھر ایک ماہر آثار قدیمہ نے تحقیق کی تو اسے اس ٹکڑے میں پسے ہوئے ’’جو‘‘ کے دانے کے ذرات ملے۔ اس سے پتا چلا کہ یہ ڈبل روٹی ہے کیونکہ انگلستان میں ’’نیولیتھک‘‘ (Neolithic) دور میں ہونے والی کاشتکاری میں ایسا جو کاشت کیاجانا تھا۔
-16 تاج :
دنیا کا سب سے پرانا تاج، بحرہ مردار کے کنارے واقع اسرائیلی صحرایہودا کے ایک غار سے 1961ء میں ملا۔ اپنی دریافت سے پہلے یہ تاج، اس غار میں تقریباً چھ ہزار سال یعنی 4,500-3,600 قبل از مسیح سے پڑا ہوا تھا۔ یہ آج کل کے تاجوں کی طرح سونے چاندی یا ہیرے جواہرات سے مزین نہیں ہے بلکہ یہ ایک سادہ سا دھاتی تاج ہے، جس کو گدھ اور فاختاہوں کی شبیہوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس تاج کا تعلق ’’ناہل مشمار‘‘ (Nahal Mishmar Hoard) نامی موسمی ندی کے علاقے کے اس دور کی ’’کوپرایج‘‘ (Copper Age) یعنی تانبے کے دور سے ہے جو اس صحرائی علاقے میں ہزاروں برس قبل پائی جاتی تھی۔ یہ تاج اس دور کی ہنر مندی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔
-17 قدیم ترین صحیح سلامت عمارت :
نو ہزار قبل از مسیح میں تعمیر کی جانے والی تین منزلہ اس عمارت کو کھڑے ہوئے آج گیارہ ہزار سال ہوچکے ہیں۔ یہ عمارت فلسطین کے علاقے ’’مغربی کنارے‘‘ میں واقع ہے اور اس کا نام ’’ٹاور آف جیریکو‘‘ (Tower of Tericho) ہے۔ اس عمارت کا تعلق ’’نیولیتھک پیریڈ‘‘ (Neolithic Period) سے ہیں۔ ’’نیولیتھک پیریڈ‘‘ پتھر کے زمانے کا آخری دور کہلاتا ہے۔ انجیل مقدس کے مطابق جس جگہ شیطان نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو آزمانے کی کوشش کی تھی، یہ عمارت اسی مقام کے قریب ہی تعمیر کی گئی۔ ماہرین آثار قدیمہ کے نزدیک بڑے زینے دار یہ عمارت شاید اس دور کے لوگوں نے ایک استعارے کے طور پر بنائی تھی جس کا مقصد اندھیروں سے حفاظت اور روشنی کا خیر مقدم کرنا ہوسکتا ہے۔
-18 ممی :
عام طور پر ’’ممیوں‘‘ کی پہچان قدیم مصری تہذیب کے حوالے سے ہے۔ لیکن درحقیقت ’’ممی‘‘ بنائے جانے کی ابتدائی مثالیں براعظم جنوبی امریکہ سے ملیں ہیں۔ جنوبی امریکہ کے ملک ’’چلی‘‘ کے صحرا ’’اتاکاما‘‘ (Atacama) کے باسی جو ’’چنکورو‘‘ (Chinchoro) کہلاتے تھے، اپنے مردوں کی ممیاں بناتے تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ قدیم مصریوں کے برعکس ’’چنکورو‘‘ صرف امیر اور طاقتور ہی نہیں بلکہ سب مرنے والے عام لوگوں کی بھی ممیاں بناتے تھے۔ ان کا زمانہ 5050 قبل از مسیح کا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بیشتر ممیاں خراب ہوگئیں تاہم بہت ساری ممیوں کو ماہرین آثار قدیمہ نے محفوظ کرلیا ہے۔
-19 جوتے :
امریکہ کے مغربی ساحل کے قریب واقع ریاست ’’اوریگون‘‘ (Oregon) کی ’’فورٹ راک کیوو‘‘ (Fort Rock Cave) سے 1938ء میں ملنے والے یہ جوتے، دنیا کے قدیم ترین جوتے مانے جاتے ہیں۔ علم الانسان کے ماہر ’’لوتھر کریسمین‘‘ (Luther Cressman) نے آتش فشانی راکھ تلے دبے ہوئے ایسے درجنوں سینڈل دریافت کیے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ راکھ ساڑھے سات ہزار برس قبل ایک آتش فشاں ’’ماذاما‘‘ (Mazama) کے پھٹنے اور لاوا اگلنے کے باعث پیدا ہوئی اور اس نے 7,700 تا 8,970 قبل از مسیح کے دور کے ان جوتوں کو اپنے نیچے چھپا کر دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا۔ ماہرین نے ان جوتوں میں استعمال ہونے والے فائبر کا تعین نو ہزار سال پرانے دور سے کیا۔ یہ جوتے ایک قسم کی چھال جسے ’’شریڈڈ سیجبرش‘‘ (Shredded Sagebrush) کہتے ہیں، سے بنے ہوئے ہیں۔
-20 عبادت گاہ :
موجودہ دور میں پائے جانے والے بہت سے مذاہب کی ابتداء آج سے ہزاروں سال پہلے ہوئی۔ ترکی میں دریافت ہونے والی ایک عبادت گاہ کو دنیا کی قدیم ترین عبادت گاہ مانا جاتا ہے۔ یہ جگہ ’’گوبیکلی ٹیپے‘‘ (Gobekli Tepe) کہلاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عبادت گاہ آسمان پر کلب آکبر والے مجمع النجوم میں سب سے روشن اور چمکدار ستارے ’’سگ ستارہ‘‘ (شعری ستارہ) کو ماننے والوں نے تعمیر کی تھی کیونکہ زمین پر اس عبادت گاہ کا محل و قوع عین اس ستارے کے نیچے واقع ہے۔ ان سب قیاس آرائیوں کے باوجود یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں کے عقائد اور رسوم و رواج کیا تھے۔
-21 غاروں میں تصویر نگاری:
جو ملک دنیائے مصوری کے دو عظیم ناموں ’’پیکاسو‘‘ اور ’’ایل گریکو‘‘ کے وطن ہونے کا شرف رکھتا ہے، اسی کے پاس غاروں میں بنائی گئیں دنیا کی قدیم ترین تصاویر کی موجودگی کا اعزاز بھی ہے۔ یہ ملک اسپین ہے۔ کاربن ڈیٹنگ (Carbon Dating) کی ٹیکنیک (جس میں کاربن کی پرتوں کے ذریعے کسی چیز کی قدامت کا اندازہ لگایا جاتا ہے) استعمال کرتے ہوئے 2012ء میں یونیورسٹی آف برسٹل نے ایک تحقیق میں اس بات کا تعین کیا کہ اسپین کے علاقے ’’ایل کسٹیلو‘‘ (El Castillo) کے ایک غار میں بنائی گئی اس تصویر کو بنے لگ بھگ چالیس ہزار برس گزر چکے ہیں۔ یعنی یہ تصویر 38,800 قبل از مسیح سے بھی پہلے بنائی گئی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تصویر کو بنانے والے لوگ ’’نیاندر تھالز‘‘ (Neanderthals) نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس نسل کے لوگ یورپ میں تیس تا چالیس ہزار سال پہلے ہو گزرے ہیں۔
-22 آلات موسیقی :
ریکارڈ کی ہوئی موسیقی کا سورج طلوع ہونے سے چالیس ہزار سال پہلے کے لوگ یہ نہیں کہ موسیقی سے نابلد تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنی موسیقی کی طرزیں بناتے تھے۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق جرمنی کی ’’ہوہلے فیلز کیوو‘‘ (Hohle Fels Cave) سے ملنے والی بانسریاں، قوی الجثہ جانوروں، جنہیں ’’مموتھ‘‘ (Mammoth) کہا جاتا تھا کی ہڈی سے بنی ہوئی ہیں اور بیالیس سے تینتالیس ہزار برس پرانی ہیں۔ گو اس دور کے انسان شاید باقاعدہ موسیقی کی طرزیں بنانے پر قادر تو نہ ہوںگے مگر سائنسدان کہتے ہیں کہ اس دریافت سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جرمنی کے مشہور دریافت ڈینوب کا علاقہ وہ جگہ ہے جو انسانی ارتقاء میں ایک کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔
-23 زیورات :
کروشیا کے علاقے ’’کراپینا‘‘ (Krapina) سے دو سال قبل ملنے والی دنیا کے پرانے ترین زیورات تقریباً 128,000 قبل از مسیح سے تعلق رکھتے یعنی 130,000 برس قدیم ہیں۔ یہ زیورات بھی اس علاقے سے ملے ہیں جو ’’نیا ندرتھال‘‘ (Neanderthal) نسل کے لوگوں کا مسکن تھا۔ یہ زیورات جو گلے میں پہننے والے گلوبند (نیکلس) اور کلائیوں کی ’’پہنچی‘‘ (بریسلٹ) پر مشتمل ہیں، عقاب کے پنجوں کی ہڈیوں سے بنے ہوئے ہیں اور انہیں نفاست سے تراش خراش کرنے کے علاوہ چمک دمک کے لیے ان پر پالش بھی کی گئی ہے۔ سائنسدانوں کو یقین ہے کہ یہ زیورات تقریبات میں پہننے کے لیے استعمال ہوتے ہوں گے۔
-24 پتلون (پینٹ) :
جدید دور کے مقبول پہناوے جینز کی پتلون کی ایجاد بے شک 1873ء میں ہوئی لیکن پتلون پہننے کا رواج ہزاروں برس پرانا ہے۔ حال ہی میں مغربی چین کے ایک قبرستان میں سے ایک اونی پتلون دریافت ہوئی جو تقریباً 3,300 سال قدیم ہے۔ یہ ماہرین آثار قدیمہ کو آج تک ملنے والی پتلونوں میں سب سے پرانی ہے۔ یہ اتنی عمدہ حالت میں ہے کہ یوں سمجھئے کہ آج بھی استعمال کی جاسکے۔ اس کے ڈیزائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھڑ سواری میں پہننے کے لیے بنائی گئی تھی۔ آج کے دور کے برعکس اس دور میں پتلونیں کپڑے کے ٹکڑے کاٹ کر اور پھر سی کر نہیں بنائی جاتی تھیں بلکہ کھڈی پر بنت کے دوران ہی مطلوبہ شخص کے سائز کے حساب سے تیار کی جاتی تھیں۔ یونیورسٹی آف پینسلونیا میں چینی تاریخ کے ماہر ’’وکٹر مائر‘‘ (Victor Mair) کہتے ہیں کہ اس پتلون کی بناوٹ یہ بتاتی ہے کہ اس دور کے چرواہے گھڑ سواری کے لیے یہ پتلونیں پہننے تھے کیونکہ یہ انہیں چست رکھتی تھیں اور ان کے کپڑے کا کسی چیز میں پھنسنے کا امکان بھی نہیں ہوتا تھا۔
-25 ڈائنو سار فوسل :
’’نیاسا ساریورس پارنگٹونی‘‘ (Nyasasaurus Parringtoni) فوسل کی دریافت نے سائنسدانوں کو واضح سراغ دے دیا ہے کہ ڈائنوسار کب ہماری اس دنیا میں ظہور پذیر ہوئے۔ تقریباً دو سو پینتالیس ملین سال پرانا یہ فوسل اب تک دریافت ہونے والے ایسے دیگر فوسلز سے دس تا پندرہ ملین سال پرانا ہے۔ اس فوسل پر تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ وہ ڈائنوسار صرف تین فٹ لمبا تھا اور اس کا وزن پینتالیس سے ایک سو پینتیس پونڈز کے درمیان تھا۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں اس سے بھی زیادہ پرانے فوسلز دریافت ہوجائیں اور تاریخ مزید اپنے رازوں سے پردہ اٹھا دے۔
The post انسانی ُہنر کاری کے قدیم ترین نمونے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GoK74r
0 comments:
Post a Comment