یکم مئی 1986 وہ تاریخ ساز دن تھا جب امریکا کے شہر شکاگو کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے غیرانسانی اوقات کار، حالات کار اور اُجرتوں میں اضافے جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پر امن جدوجہد کا آغاز کیا۔
یکم مئی کی تحریک کوئی اچانک پیدا ہوجانے والی تحریک نہیں تھی، بلکہ یہ امریکا میں انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوجانے والی مزدور تحریکوں کا تسلسل تھی۔ 1806 میں امریکا کے مزدوروں نے اوقات کار میں کمی کی تحریک شروع ۔ 1827 میں فلاڈیلیفیا میں15 مزدور یونینوں کے اتحاد ’’مکنیکس یونین آف ٹریڈ ایسوسی ایشن‘‘ نے غیرمعینہ مدت کے بجائے دس گھنٹے اوقات کار کے لیے احتجاجی تحریک چلائی۔ 1861 میں امریکی کانوں کے محنت کش بھی خود کو منظم کرچکے تھے۔
اس زمانے میں مزدوروں کی بیس انجمنیں قائم ہوچکی تھیں جو اوقات کار میں کمی کے لیے ہم آواز تھیں۔ 20 اگست 1866 کو امریکا بھر کی مزدور تنظیموں کے نمائندوں نے بالٹی مور میں جمع ہوکر ’’نیشنل یونین لیبر‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ تنظیم بنائی جس نے امریکا بھر میں یومیہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کا شیڈول نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے صنعت کاروں نے جبری برطرفیوں اور تشدد کی روش اختیار کی، لیکن اس تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ 1870 اور 80 کی دہائیوں میں امریکا کے مزدوروں نے کئی ایک احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں کیں۔
1973 میں شکاگو میں امریکا کی تاریخ میں امریکی حکومت کے خلاف مزدوروں کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا، 1875 میں مزدور تحریک کے دس سرگرم کارکنوں کو سزائے موت دی گئی لیکن مزدور تحریک آگے بڑھتی رہی۔ اکتوبر 1884 میں ’’فیڈریشن آف ٹریڈ یونین‘‘ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ اگر یکم مئی 1886 تک اوقات کار آٹھ گھنٹے نہ کیے گئے تو مزدور کام بند کردیں گے۔ اس اعلان کے بعد ایک طرف مزدوروں کی جدوجہد میں تیزی آئی تو دوسری جانب حکومت کے جبر و تشدد میں بھی اضافہ ہوتا چلاگیا۔
یکم مئی 1884 تک محنت کشوں کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس دن سے پورے امریکا میں مزدوروں نے کام روک کر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ تین مئی کو شکاگو میں امریکی پولیس نے ہڑتالی مزدوروں پر شدید لاٹھی چارج کیا اور بعد ازاں فائرنگ شروع کردی جس سے چار محنت کش شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
حاکموں کی اس بربریت کے خلاف اگلے روز پورے امریکا میں مزدور سراپا احتجاج تھے۔ شکاگو کے Hey market square پر مرکزی جلسے سے مزدور راہ نماؤں کے خطاب کے دوران پولیس نے مداخلت کی اور اسے زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس میں ناکامی پر پولیس نے جلسے پر دستی بم پھینکا جس سے خود ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ پچاس کے قریب مزدور پولیس فائرنگ سے شہید جب کہ ان گنت زخمی ہوگئے۔ اس موقع پر ایک مزدور نے اپنے شہید ساتھی کی سفید قمیص جو خون سے سرخ ہوچکی تھی، پرچم کے طور پر فضا میں بلند کی۔ تب سے سرخ پرچم محنت کشوں کا عالمی نشان ٹھہرا۔
شکاگو کے سرکردہ مزدور راہ نماؤں اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور اسکرنیب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں سب اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی جب کہ مائیکل شواب اور سیموئیل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ لوئس لنگ کی جیل میں وفات ہوگئی تھی۔ ان مزدور راہ نماؤں میں سے 2 کا امریکا جب کہ باقی کا برطانیہ، آئر لینڈ اور جرمنی سے تعلق تھا۔ شکاگو کے حاکموں نے اس واقعے کو محض ’’ہے مارکیٹ کے بلوے‘‘ کا نام دینا چاہا، مگر یہ دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ 1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا اور 1890 سے اس دن کو دنیا بھر میں منانے کا آغاز ہوا۔
آج ایک طرف سام راجی ممالک دنیا بھر میں محنت کش عوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، منڈیوں کے پھیلاؤ اور قبضوں کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگوں میں مصروف ہیں اور عالمی مالیاتی سام راجی اداروں کے ذریعے مسلط کردہ پالیسیوں اور معاہدوں کے ذریعے غلامی کے ایک ایسے نئے چلن کو عام کردیا گیا ہے جس سے کرۂ ارض پر موجود کوئی سماج اور اس میں بسنے والے انسان محفوظ نہیں ہیں۔
دوسری طرف ہم ایسے ممالک بالخصوص پاکستان کے رجعت پسند صنعت کار حکم راں ہیں جو ان کی گماشتے بن کر یہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں سے مسلسل کھلواڑ میں مصروف ہیں۔ ایک جانب IMF، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے نتیجے میں سرمایہ داروں کی دولت اور منافع میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے، تو دوسری طرف ملک کی تقریباً آدھی آبادی غربت کی سطح سے بھی انتہائی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ قوت خرید کو مکمل طور پر مفلوج کردینے کی بھیانک شکل میں سامنے ہے۔ بے روزگاری، غربت، بھوک، بیماری اور افراط زر میں ہوشربا اضافے کے باعث محنت کشوں کی حقیقی اُجرتوں میں 100فی صد سے زاید کمی انہی مزدور دشمن پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔
عوامی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا وفاقی حکومت ہوں یا سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی صوبائی حکومتیں ہوں یہ سب محنت کش طبقے کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ مراعات چھیننے میں ایک دوسرے سے کم نہیں۔ صنعتی و مالیاتی اداروں کی نج کاری کا معاملہ ہو، جبری برطرفیاں ہوں، کم از کم تنخواہ پر عمل در آمد، سوشل سیکیوریٹی سمیت سماج تحفظ سے رجسٹریشن کا معاملہ ہو یا اداروں میں یونین سازی کے حق کو تسلیم کرنے کا معاملہ، ان سب کا مزدور دشمن رویہ روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے، صنعتی اداروں میں مخدوش صورت حال کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پانچ فی صد ورکرز کے پاس ہی تقرر نامے ہیں، جب کہ 95 فی صد اس بنیادی حق سے محروم ہیں، جس کے باعث وہ لیبر عدالتوں یا سماجی تحفظ کے اداروں میں خود کو مزدور ثابت کرکے اپنا قانونی حق حاصل نہیں کرسکتے۔
اسی طرح صرف 2.5 فی صد مزدوروں کو یونین سازی کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح ملک کی 6 کروڑ 20 لاکھ کی ورک فورس میں 70 فی صد غیر منظم شعبے سے وابستہ ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد گھر مزدوروں کی ہے۔ 1 کروڑ 80 لاکھ گھر مزدوروں میں خواتین محنت کشوں کی تعداد 1 کروڑ 50 لاکھ ہے لیکن پیداواری عمل میں حصہ لینے والے یہ گھر مزدور قانونی طور پر ورکر تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔
آج یکم مئی کا درس یہی ہے کہ مزدور تحریکوں، احتجاجوں اور مزاحمت کی چنگاریوں کو ایک ایسے توانا شعلے میں تبدیل کردیا جائے جو لوٹ کھسوٹ اور جبر پر مبنی اس فرسودہ اور عوام دشمن سرمایہ داری جاگیرداری کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے۔
The post یکم مئی، تاریخ کا ایک اَمر دن appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HJdmvg
0 comments:
Post a Comment