Ads

ایوان صدر کا نیا مکین کون اور کیسا ہوگا؟

ایک نوجوان انٹرویو کیلئے آیا، اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک کا صدر کون ہے؟ وہ نوجوان جواب دینے کے بجائے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ حالات کو بھانپتے ہوئے جب اس سے موجودہ صدر سے پہلے والے صدر کا پوچھا تو وہ فوراً بولا: آصف زرداری۔

جی ہاں! صدر ممنون حسین ملک پر ایسے ’’ممنون‘‘ ہوئے کہ قوم کو پانچ سال تک ان کی موجودگی کا پتا بھی نہ چل سکا۔ وہ ٹی وی پر تب آتے جب سالانہ پریڈ ہوتی یا کسی سے حلف لینا ہوتا۔ وہ سال میں ایک مرتبہ پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران بھی دکھائی دیتے رہے ہیں۔ ممنون صاحب بھی کیا کرتے، آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم نے ان کے ہاتھ ایسے باندھے کہ بندھے ہی رہ گئے۔ اب جو ان کا جانشین ہوگا، وہ بھی اختیارات کے لحاظ سے ایسا ہی ہوگا۔

کون ہوگا صدرپاکستان؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں ہلچل مچائے ہوئے ہے۔ جوں جوں 4 ستمبر قریب آتی جارہی ہے، صدارتی امیدواروں کی طرف سے رابطوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ اس وقت تین امیدوار یعنی ڈاکٹر عار ف علوی، اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔ تینوں امیدوار جیت کیلئے پر امید ہیں۔ عارف علوی پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں، اعتزاز احسن پیپلز پارٹی جبکہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن اتحاد کی طرف سے انتخاب لڑیں گے۔ کس کی پوزیشن مضبوط ہے؟ کون ملک کی سربراہی سنبھالے گا؟ اس کا اندازہ نمبر گیم سے لگایا جاسکتا ہے۔

حکومتی اور اپوزیشن اتحاد کے پاس کتنے ووٹ ہیں اور کہاں کتنے ووٹ آزاد ہیں؟ ملاحظہ کیجیے: قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں 12 نشستیں خالی ہیں۔ موجودہ 330 کے ایوان میں تحریک انصاف کے پاس 176 اور اپوزیشن کے پاس 150ووٹ ہیں جبکہ 4 ارکان آزاد ہیں۔ سینیٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن سے اور 25 کا پی ٹی آئی الائنس سے ہے جبکہ 11 آزاد سینیٹرز ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں (بلوچستان اسمبلی کے تناسب کے لحاظ سے) حکومتی اتحاد کے 33 اور اپوزیشن کے 30 ووٹ بنتے ہیں جبکہ ایک رکن آزاد ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی الائنس کے 26 ووٹ، اپوزیشن اتحاد کے 38 جبکہ تحریک لبیک کا ایک ووٹ ہے۔ خیبر پی کے میں حکومتی الائنس کے 45 ووٹ، اپوزیشن الائنس کے 18 اور 2 ووٹ آزاد ارکان کے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے پاس 41 ووٹ، اپوزیشن کے 16 اور 4 ووٹ آزاد ارکان کے ہیں۔ یوں پی ٹی آئی اتحاد کے کل ووٹ 346 ،اپوزیشن الائنس کے 320 اور آزاد ووٹرز کی تعداد 23 کے قریب ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ فاٹا سے تین آزاد سینیٹرز پی ٹی آئی کا حصہ بن چکے ہیں۔

کہانی میں ٹوئسٹ یہ ہے کہ حکومتی اتحاد کا ایک امیدوار ہے اور اپوزیشن متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہی ہے۔ اب اس کے دو امیدوار میدان میں ہیں تو اپوزیشن کا ووٹ تقسیم ہوجائے گا۔ اپوزیشن کے درمیان رابطوں کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا بڑا نقصان یہ نظر آرہا ہے کہ اب مشترکہ امیدوار نہ آنے سے خود اپوزیشن کے مستقبل کے آگے بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے؛ اور لگ یہ رہا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد آنے والے حالات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوبارہ کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر آنا ممکن نہیں ہوگا۔

صدارتی انتخابات میں حکومت کو فائدہ یہ ہوگا کہ اب ایوان صدر کا مکین ان کا نامزد کردہ ہوگا اور صدارتی انتخاب کا نقصان اپوزیشن کو یہ ہوا کہ اپوزیشن تقسیم ہوگئی اور اب پاکستان کی مؤثر ترین اپوزیشن کے الفاظ ادا نہیں کیے جاسکیں گے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ آخر کیوں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار سامنے نہ آسکا۔ ہارنے والے انتخاب میں اپوزیشن رسماً بھی اکٹھی نہ رہ سکی تو آنے والے حالات میں کسی سیاسی فائدے کے تحت کیسے جمع ہو پائے گی؟

ماضی میں مسلم لیگ ن کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانے والی پیپلز پارٹی مستقبل میں پی ٹی آئی کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی، جس کا اندازہ خورشید شاہ کے دعووں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعتزاز احسن کو امیدوار نامزد کرنے میں پی ٹی آئی کی ’’خواہش‘‘ شامل تھی۔ پی ٹی آئی بظاہر اس سے انکاری ہے لیکن حالات ان کے دعووں کو سچ ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔

ادھر متحدہ اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمان دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کو حکومتی اتحاد سے بھی ووٹ پڑیں گے۔ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم پاکستان نے یقین دہانی بھی کرادی ہے، بلوچستان سے بی این پی مینگل بھی مولانا کی جھولی ووٹوں سے بھر سکتی ہے کیونکہ اس نے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے ساتھ مل کر حصہ لیا تھا۔ خیر! جو بھی ہو، اپوزیشن میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ پہلے نمبر پر پی ٹی آئی امیدوار ہے، دوسرے اور تیسرے نمبر کیلئے مقابلہ چار ستمبر کو ہوگا۔

ایک بات تو طے ہے ان میں سے جو بھی صدر بنا، ایوان صدر میں رونق لگی رہے گی۔ شاہراہ دستور سے گزرنے والے ’’السلام علیکم یا اہل القبور‘‘ کہتے ہوئے وہاں سے نہیں گزریں گے؛ اور اگر کوئی ایسی غلطی کر بھی بیٹھا تو سلام کا جواب ضرور ملے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post ایوان صدر کا نیا مکین کون اور کیسا ہوگا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NDMsHY
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment