ماننا پڑے گا کہ پاکستان کا جتنے بھی دشمن ممالک سے واسطہ پڑا ہے ان سب میں ایک قدر حیرت انگیز طور پر مشترک ہے؛ اور وہ یہ کہ ان ممالک کو پاکستان کو برباد کرنے کےلیے ’’مدد‘‘ بھی پاکستان ہی سے درکار ہے۔ کیا یہ اچنبھے کی بات نہیں؟ مثلاً کوئی دشمن ملک ہمارے اربابِ اختیار کو خریدنا چاہتا ہے تو کوئی ہمارے عوام کو خرید کر خانہ جنگی کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے… اور دشمن کا اس سے بھی بڑا حملہ یہ ہے کہ وہ ہمارے عوام کو ہماری ہی پاک فوج کے خلاف کرنا چاہتا ہے۔
آج کل لوگوں کی باتیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کچھ ہم وطنوں پر دشمن کا یہ بھیانک وار اثر کر چکا ہے۔ ایسے ’’متاثرہ لوگوں‘‘ کو ہماری ضرورت ہی نہیں بلکہ انہیں رہنمائی اور ہماری نگرانی کی بھی اشد ضرورت ہے مبادہ وہ کسی غلط کام کے مرتکب نہ ٹھہریں کہ بعد ازاں اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے۔
موجودہ حکومت کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ اُن مسائل کو سب سے پہلے ترجیح دے رہی ہے جو سب سے زیادہ اہم ہونے کے باوجود بھی مسلسل نظر انداز کیے گئے ہیں جیسے سندھ طاس کا معاہدہ، مسئلہ کشمیر اور کالا باغ ڈیم یا اس کے متبادل ڈیم کی جلد از جلد تعمیر۔ ظاہر ہے کہ ان معاملات میں ہمیں پہلے اپنوں کو سنبھالنا ہے جو ایسے وسائل ہی سے نفرت کرتے ہیں جن سے یہ مسائل حل ہوسکیں۔
یہ تو اللہ کا بیش بہا شکر کہ پاکستان کی فضا اور ماحول بہترین ہیں کیونکہ سارے ادارے، ارباب اختیار اور پاک فوج ایک ہی پیج پر دکھائی دیتے ہیں؛ اور وہ پیج ہے پاکستان کو مسائل سے نکال کر وسائل کی دولت سے مالامال کرنا۔
پاکستان کی عسکری حکمت عملی ہمیشہ دفاعی رہی ہے اور پاکستان ہمیشہ سے ہی ساری دنیا کے ممالک کو امن کا پیغام دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی امن و آشتی کے خواہاں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے 26 ستمبر کی تقریر میں بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی جو قبول بھی کرلی گئی تھی اور اس ضمن میں پاک بھارت وزرائے خارجہ (شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج) کے مابین نیویارک میں یہ مذاکرات طے بھی پاگئے تھے جن کا مقصد دونوں ممالک کے غریب عوام کی بہتری کےلیے کوئی لائحہ عمل وضع کرنا تھا۔
کہنہ مشق تجزیہ نگار اور مبصرین پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ بھارت معمول کے مطابق مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرے گا۔ آخر یہ بات بھی سچ ثابت ہوگئی کہ بھارت نے پاکستان پر بے سروپا الزامات لگا کر مذاکرات سے انکار کردیا۔ ایسا پہلی بار نہیں بلکہ تیسری مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان کی جانب سے جب بھی بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی گئی تو عالمی فورم کے سامنے مذاکرات کی ہامی بھرنے کے باوجود بھی ہندوستان نے پاکستان پر مختلف الزامات تھوپ کر مذاکرات سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق جھوٹا ہوگا تو وہ حیلے بہانے تو ڈھونڈے گا ہی!
امریکہ کی جنوبی ایشیائی اور وسطی ایشیائی امور کی نائب سیکرٹری ایلس جی ویلز نے عمران خان کی ہمسایہ ممالک سے امن اور تعاون کی پالیسی کو بے حد سراہا ہے اور پاکستان کو خطے کے ممالک میں امن کے حوالے سے اہم ترین ملک قراردیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی اقتصادی ترقی اور استحکام کی حمایت کرنی چاہیے؛ اور خاص کر افغانستان سے بھارت جانے والی اشیاء کو بھارت تک رسائی دینی چاہیے۔ (امن اور تعاون کی آڑ میں بلاشبہ پاکستان کے خلاف یہ ایک بھیانک داؤ ہے۔)
ایس ویلز کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کی بحالی سب سے زیادہ اہم ایشو ہے جس سے مشرق اور مغرب کی تجارت کو وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی ملے گی۔ کیا پاکستان کو درپیش حالات کے تناظر میں ایسی کوئی گنجائش ممکن ہے کہ ہم افغانی اشیاء کی بھارت تک رسائی کےلیے کوئی راہداری مہیا کریں؟ کبھی نہیں! امریکا کی افغانستان کو مستحکم کرنے کی پالیسی کی مد میں پاکستان سے ایسا تعاون مانگنا کسی گہری سازش کا شاخسانہ لگتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو راقم کی بات ہضم نہ ہو لیکن اگر امریکا، افغانستان اور انڈیا کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی محب وطن پاکستانی، افغانی اشیاء کی براستہ پاکستان، انڈیا میں منتقلی کےلیے کبھی راضی نہیں ہوگا کیونکہ ایک عام پاکستانی بھی اس سے واقف ہوچکا ہے کہ کس طرح داعش افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود پنپ رہی ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ جہاں امریکی فوجیں ہوتی ہیں، وہیں داعش کا وجود بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ پہلے امریکا کا مقصد افغانستان سے دہشت گردی ختم کرنا تھا لیکن اس کے باوجود داعش پیدا ہوگئی۔
اب امریکا کا مقصد افغانستان کو معاشی طور پر متحکم کرنا ہے اور مدد بھی پاکستان سے درکار ہے؛ جب کہ ساری دنیا پر واضح ہے کہ بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ صرف پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کےلیے ہی بنا ہے یا بنایا گیا ہے۔ اب بھی افغانستان اور انڈیا کے مابین سمندری راستے سے براستہ ایران لین دین چل رہا ہے۔ یہ راستہ بہت لمبا اور مہنگا پڑتا ہے لیکن پھر بھی ان دونوں ممالک کا ایسا کونسا ’’مشترکہ مفاد‘‘ ہے کہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور ہونے کے باوجود، سیاسی طور پر ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں؟
ظاہر ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بھارت مشرق میں بیٹھ کر ہمارے دونوں مغربی ہمسایوں (افغانستان اور ایران) کے ساتھ ہمارے ہی خلاف جوڑ توڑ میں مصروف ہے جبکہ انکل سام کی سفارش سے ان تک رسائی بھی ہم سے ہی مطلوب ہے۔ واقعی ہندو بنیے سے بڑا کوئی عیار شاید ڈھونڈے نہ ملے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے نیویارک میں ہماری قومی زبان اردو میں جس طرح پاکستان کا مفصل مقدمہ پیش کیا ہے وہ بلاشبہ بہترین، احسن اور لائقِ تحسین ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ شاہ صاحب نے بائیس کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے تو بے جا نہ ہوگا؛ اور میں یہ بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس طرح شاہ صاحب نے پاکستان کا مؤقف ببانگِ دُہل بیان کیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ جس طرح شاہ صاحب نے ناموسِ رسالتﷺ کے حوالے سے جنرل اسمبلی میں صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ کا مؤقف بیان کیا، اس سے پہلے ایسا کریڈٹ کسی اور شخصیت کے حصے میں نہیں آیا ہوگا۔
جناب شاہ محمود قریشی نے مسئلہ فلسطین اور بالخصوص مسئلہ کشمیر پر بھی پاکستان کا واضح مؤقف پیش کیا اور گزارش کی کہ اقوام متحدہ ان مسائل کو باقاعدہ اپنی قراردادوں سے حل کرے کیونکہ یہ صرف کسی مذہب کے مسائل نہیں بلکہ سب سے پہلے یہ انسانیت کے زمرے میں آتے ہیں، جنہیں حل کرنا انسانیت کی معراج ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کبھی امن نہیں چاہتا اور نہ ہی مذاکرات کرنا چاہتا ہے، اس کی وجہ سے سارک کے باقی ممالک بھی غیر فعال بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ہر طرح کی مدد بھی کررہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان خانہ جنگی کا شکار رہتا ہے۔ انڈین جاسوس کلبھوشن جیسی زندہ مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، اے پی ایس اور سانحہ مستونگ کے ذمہ داروں کو بھی بھارتی پشت پناہی حاصل تھی۔ اپنے ایک اور بیان میں انہوں نے واضح کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر لوٹے جس کےلیے ہم امریکا سے خصوصی بات کریں گے۔
افغان پناہ گزینوں کے بارے میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی جلد اور رضاکارانہ طور پر واپسی ممکن بنائی جائے۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے ٹھوس لہجے میں ’’حملے کی صورت میں بھرپور جواب دیا جائے گا‘‘ کا پیرایہ اختیار کرتے ہوئے، پاکستان کا مؤقف ایسے الفاظ میں بیان کیا تاکہ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post امورِ خارجہ اور جناب شاہ محمود قریشی کا تاریخی بیان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DOO95c
0 comments:
Post a Comment