کچھ سہانے موسم کا اثر تھا تو کچھ سیاسی گرما گرمی، بابوجی گرم چائے کی پیالی ہاتھوں میں پکڑے اپنے دوستوں کے ساتھ سلیم چائے والے کے ڈھابے پر بیٹھے تھے جس کی گرما گرم دودھ پتی نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کردیا تھا۔
وہاں موجود ہر شخص سیاست کے اتارچڑھاؤ پر غور کررہا تھا۔ کوئی عمران خان کو وزیراعظم کے روپ میں دیکھنے کے خواب دیکھ رہا تھا تو کوئی تبدیلی کا نعرہ لگا رہا تھا، تو کہیں سے ’’آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان‘‘ کے گانوں کی آوازیں ماحول کو اپنے سروں میں قید کررہی تھی۔ حال تو یہ تھا کہ جہاں دیکھو عمران خان کے فین نظر آتے اور جو لفظ سنو عمران خان کی تعریفوں کے قصیدے پڑھتے نظر آتے۔ لیکن اس اکثریت میں کچھ اقلیت ان کی بھی تھی جو دوسری پارٹیوں کو سپورٹ کررہی تھی۔
جہاں نظر دوڑاؤں تو ہر گھر کا کچھ ایسا ہی حال تھا۔ ابا نواز لیگ کے، اماں ایم ایم اے کی، تو بیٹا پی ٹی آئی کا۔ سارا گھر ہی الیکشن پول بنا ہوا تھا جہاں ہر کوئی اپنی پسندیدہ پارٹی کو سپورٹ کررہا تھا۔
الیکشن کے بعد جیتنے والے اپنی جیت کا جشن منا رہے تھے تو ہارنے والے اپنی ہار پر سوگ؛ اور اس میں ہر کوئی اپنی رائے کو فوقیت دے رہا تھا۔ اکثر لوگ تو الیکشن سے پہلے ہی عمران خان کی جیت کے دعوے کرتے نظر آرہے تھے، ان ہی لوگوں میں سے ایک بابوجی بھی تھے، جو چائے کے ڈھابے پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے اس خوشی میں گرما گرم دودھ پتی کی چسکیاں لے رہے تھے۔
’’ہاں بھائی کیا کہتے ہو، آگیا ناں عمران خان اور کیسا چھا گیا،‘‘ بابو جی عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے بولے۔
’’ہاں! آ تو گیا ہے، لیکن اصل امتحان تو اس کا اب شروع ہوا ہے،‘‘ ملک صاحب طنزیہ مسکرا کر بولے۔
’’بات تو صحیح ہے آپ کی ملک صاحب، لیکن پھر بھی کچھ تو ہمیں بھی اچھی امید رکھنی چاہیے،‘‘ اسد صاحب نے ذرا دھیما لہجہ رکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ان امیدوں کو پورا کرے گا کون؟ اس حکومت کے قدم تو ابھی سے لڑکھڑانے لگے ہیں،‘‘ ملک صاحب بولے۔
’’یہ ہے نیا پاکستان جس میں ہر چیز کی قیمت نئی ہے… بجلی کی، کھاد کی، چینی کی، اور تو اور شناختی کارڈ کو بھی نہیں چھوڑا‘‘ اسد صاحب نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
’’چہرے تو اس میں نئے ہیں، لیکن نظام تو وہی پرانا ہے،‘‘ عمر صاحب بولے۔
’’نیا سے مراد چوروں اور ڈاکوؤں سے پاک پاکستان، اس بار اسمبلی خالی کرکے دکھائی عمران خان نے ایسے لوگوں سے،‘‘ بابوجی نے پر امید لہجے میں کہا۔
’’خالی تو عوام نےکی ہے اسمبلی اپنے ووٹوں سے، اپنا یہ حق استعمال کرکے،‘‘ قمر صاحب بولے۔
’’بات تو بالکل ٹھیک کہی ہے آپ نے قمر صاحب، لیکن یہ حق استعمال کرنے پر انہیں ابھارا بھی عمران خان نے ہے؛ اپنے جلسوں سے، خاص طور پر اپنے دھرنوں سے،‘‘ بابوجی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’ہم م م، چلو مان لیتے ہیں۔ یہ نیا پاکستان نئے وزیراعظم کے آنے سے بن گیا۔ لیکن تبدیلی کیسے آئی؟ ڈالر بڑھ گیا ہے، مہنگائی کا نیا طوفان برپا ہونے کو ہے، یہ مظلوم عوام مزید مقروض ہوگئی ہے۔ شاید یہی وہ تبدیلی ہے جس کی باتیں عمران خان صاحب اپنے دھرنوں میں کرین پر کھڑے چلا چلا کر کرتے تھے۔ ایسی تبدیلی کے دعوے تو ہر آنے والی حکومت کرتی ہے، لیکن جب کرنے کی باری آتی ہے تو ہوا نکل جاتی ہے،‘‘ ملک صاحب بولے۔
حکومتیں تو بدلتی رہتیں ہیں۔ لیکن اصل تبدیلی تبھی آتی ہے جب عوام بدلتے ہیں۔ اور عوام اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک وہ اپنے حق کا صحیح استعمال نہ کریں اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب عوام خود اپنی اصلاح کا فیصلہ کرلے۔ کیونکہ جب تک ہم خود صحیح نہیں ہوں گے، تب تک ہم کسی بھی حکمراں کو لے آئیں وہ تبدیلی نہیں لاسکتا۔ کرپٹ صرف حکمراں نہیں، ہم عوام بھی ہیں۔ جس کو جہاں موقع ملتا ہے، وہ کرپشن کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ بس صرف اتنا فرق ہے کہ بڑا چور بڑے پیمانے پر اور چھوٹا چور چھوٹے پیمانے پر چوری کرتا ہے۔
اس لیے اب ہمیں نئی حکومت سے اپنی نئی امیدوں کے ساتھ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی۔ یہ پورا نظام، مکمل سسٹم بدلنا ہوگا جس کے باعث یہ عوام آزاد مملکت ہونے کے باوجود آزاد نہیں۔ کیونکہ ہم آج بھی قید ہیں، اپنی سوچ کے قیدی… ایک متعصبانہ سوچ کے قیدی۔
کوئی مانے یا نہ مانے، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد نے اس قوم کو جگا دیا ہے۔ خاص طور پر اس ملک کے نوجوانوں میں شعور آگیا ہے۔ وہ پرانے پاکستان کے پرانے حکمرانوں سے عاجز آگئے تھے جو ہماری اس نوجوان نسل کو بھی پرانے لوگوں کی طرح تعصب کا شکار بنانا چاہتے تھے۔
لیکن اس ملک کے نوجوانوں کو امیدیں ہیں… وزیر اعظم عمران خان سے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ امیدیں پوری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پرانے پاکستان کے حکمرانوں کی طرح لوگوں کو آس، دلاسوں اور امید بھرے خوابوں کا جام پلا کر گہری نیند سلا دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post تبدیلی آئے رے… پر کیسے آئے رے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QLuSn3
0 comments:
Post a Comment