Ads

کوچۂ سخن

کوچۂ سخن

غزل


جل رہا ہے دشت تنہا، بلبلا پانی میں ہے
میری مٹی آگ میں ہے اور ہوا، پانی میں ہے
کر رہے ہیں روشنی دونوں برابر ساتھ میں
چاند تنہا ہی کھڑا ہے اور دیا پانی میں ہے
یہ جہاں اپنی زمین و آسماں کے بیچ میں
بیٹھنا بھی چاہتا ہے اور کھڑا پانی میں ہے
جانے کتنا تھک چکا تھا دوستی کی آڑ میں
ہاتھ چھڑوا کر جو پتہ اب گرا پانی میں ہے
میں نا جانے کن زمینوں پہ تجھے تکتی رہی
اور جا کر اب کُھلا یہ راستہ پانی میں ہے
(فاطمہ مہرو، لاہور)

۔۔۔

’’سنو محبت فضول شے ہے‘‘


وہ آخری بار جب ملی تھی
تو کہہ رہی تھی
سنو! مرا رشتہ ہو رہا ہے
وہ ہنس رہی تھی
بتا رہی تھی کہ اب ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں ہے
سو لوٹ جاؤ
وہ کہہ رہی تھی کہ ہم نے بس ایک کھیل کھیلا
وہ بچپنا تھا
سنو! محبت تو بس ڈراموں میں اچھی لگتی ہے
ہم نے انڈین ڈرامے دیکھے ہیں بچپنے سے
وہاں پہ حاتم کو جیسمیں سے جو پیار تھا نا
وہیں سے یہ سب فضول باتیں ہمارے ذہنوں میں آ گئی ہیں
سنو! محبت فضول شے ہے
وہ ہنس رہی تھی
بتا رہی تھی کہ اس کا رشتہ بڑے گھرانے میں ہو رہا ہے
میں خامشی سے تمام باتوں کو سن رہا تھا
تمام باتیں مجھے پرائی سی لگ رہی تھیں
وہ ہنس رہی تھی
’’سنو مرا رشتہ ہو رہا ہے‘‘
میں نوٹ کرتا رہا کہ اس کی نظر زمیں پر ٹکی ہوئی ہے
مسلسل آدھا یا پون گھنٹہ
وہ ہنس رہی تھی
اچانک اس نے مری طرف جب نظر اٹھائی
تو پچھلے گھنٹے کے ضبط پر پانی پھر چکا تھا
وہ رو پڑی اور
مجھے گلے سے لگا کے بولی
سنو مرا رشتہ ہو رہا ہے
مگر جو باتیں میں ایک گھنٹے سے کہہ رہی تھی
وہ بھول جانا
سنو! محبت ہی زندگی ہے
(احسن سلیمان، تتہ پانی، آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل
کوئی تیر سینے پہ کھانا نہیں ہے
مجھے پیار کرکے جتانا نہیں ہے
نگاہیں ملا کر نگاہیں چرا کر
مجھے اپنی سانسیں دبانا نہیں ہے
وطن کی محبت میں مجھ کو دوانے
کسی طور بھی ڈگمگانا نہیں ہے
تمہاری گلی میں جو دل پر لگے ہیں
کوئی زخم بھی اب بھلانا نہیں ہے
ہماری محبت کو ٹھکرانے والے
تمہاری محبت میں آنا نہیں ہے
ارے میر و غالب کی غزلیں سنا کر
کبھی بھی کسی کو رلانا نہیں ہے
کبھی دل جلا کر کبھی غم بھلا کر
کبھی آئنہ کو دکھانا نہیں ہے
(نور اقبال، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


بے دل سے دل کی کہہ پانا ممکن ہے
یعنی چوٹ نئی اب کھانا ممکن ہے
پیروں میں ساجن کی بیڑی ڈالی ہے
ایسی قید میں عمر گنوانا ممکن ہے
تب ہی شامیں گھر کو واپس جاتی ہیں
راتوں سے رشتے بن پانا ممکن ہے
تم خواہش کی حد میں گھٹ بھی سکتے ہو
ویسے حد سے باہر جانا ممکن ہے
فطرت سے تنگ آکر، میں بھی روتا ہوں
مجھ میں دردوں کا للچانا ممکن ہے
عشق کہیں مشکل سے نہ دوچار رہے
یوں بھی اس کا جی بہلانا ممکن ہے
گرد پڑی ہے بالوں پر ان شاموں کی
گو سورج کو شرم دلانا ممکن ہے
چاند کو اب آداب سکھانے لازم ہیں
اور زمیں پر ٹاٹ لگانا ممکن ہے
یوں تو بنجر پن ہے طاری کاغذ پر
لفظوں کی اک فصل اگانا ممکن ہے
اس دنیا کی ریت سمجھنا مشکل ہے
سمجھ نہیں ہے، پر سمجھانا ممکن ہے
وقت کے ہاتھوں کتنے تخت گئے باقی
تم سے بدو کا مٹ جانا، ممکن ہے
(وجاہت باقی، اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


سبز باغ اور مت دکھا مجھ کو
آخری فیصلہ سنا مجھ کو
یہ نہ ہو ہاتھ سے نکل جاؤں
یار اتنا بھی مت اٹھا مجھ کو
اپنی جوڑی بھلی لگے نہ لگے
تو ذرا پاس تو بِٹھا مجھ کو
میں تو سمجھا تھا کھیل ہے کوئی
عشق نے دھو کے رکھ دیا مجھ کو
(فراز موسم، کہوٹہ)

۔۔۔
غزل

زمانہ نوچ نہ لے، بے شمار آنکھیں کھول
تُو صرف دو نہیں اپنی ہزار آنکھیں کھول
عجیب شخص ہے، میں سانس بھی نہیں لیتا
وہ چیخ چیخ کہ کہتا ہے یار آنکھیں کھول
ہماری آنکھ نہ لگ جائے اس خرابے میں
سو اے جنونِ رہِ ریگ زار، آنکھیں کھول
شرابِ عشق سے آرام کون پاتا ہے؟
چڑھا ہوا ہے اگر کچھ خمار، آنکھیں کھول
جو تیرے نام پہ ہنستا تھا کل تلک ساحر
وہ گریہ زار ہے زار و قطار، آنکھیں کھول
(سبطین ساحر، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


میں کس طرح سے دیکھتا اس کو شباب میں
آیا وہ جب بھی سامنے آیا نقاب میں
ڈرتا ہوں، اس لیے نہیں لکھتا ہوں اس کو خط
انکار ہی نہ کر دے مجھے وہ جواب میں
یہ سلسلہ وصال کا رکتا نہیں کبھی
وہ مہربان آتا ہی رہتا ہے خواب میں
کتنے مزے سے جی رہے تھے دونوں ایک ساتھ
اور پھر کہیں سے آ گئی ہڈی کباب میں
کرتے ہیں اس کا تذکرہ خود کو جلاتے ہیں
حیدرؔ عجیب لطف ہے ایسے عذاب میں
(ذکا حیدر ہرل، سرگودھا)

۔۔۔
’’مردے چوری ہو جاتے ہیں‘‘


رات کے پچھلے پہر میں جب، میں
نیند کی وادی گھومنے نکلا
میں نے دیکھا!
میرے ذہن کے قبرستاں میں
دبے ہوئے وہ خواب کہ جو کچھ عرصہ پہلے
ہجر وبا کی ضد میں آ کر،
اپنی جان گنوا بیٹھے تھے
ان کی قبریں کھلی ہوئی ہیں
میں نے دیکھا!
ایک حسن زادی آکر وہ
مردہ خواب چرا لیتی ہے
قبریں خالی رہ جاتی ہیں
’’مردے چوری ہو جاتے ہیں‘‘
(اویس ویسی، زیارت معصوم ایبٹ آباد)

۔۔۔

غزل

وہ مجھے حکمتِ تسخیرِ جہاں دیتا ہے
اور مہلت میں فقط عمر نہاں دیتا ہے
دشت میں اس نے اٹھا دی ہیں کئی دیواریں
گھر مرا چھین کے جو مجھ کو مکاں دیتا ہے
ہجر کے پیڑ کو اب آگ لگا دی میں نے
دھوپ دیتا تھا کبھی آج دھواں دیتا ہے
لوٹ لیتا ہے سکوں کاسۂ دل سے پیارے
عشق خوشیوں کے بھکاری کو فغاں دیتا ہے
حسن تاجر ہے وہ بازار محبت کا فہدؔ
نوٹ لیتا ہے یقیں کے تو گماں دیتا ہے
(سردار فہد، ۔۔۔۔)

۔۔۔

فاصلہ

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
٭٭٭
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
٭٭٭
دوری ہوئی تو اس کے قریں اور ہم ہوئے
یہ کیسے فاصلے تھے جو بڑھنے سے کم ہوئے
٭٭٭
دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
٭٭٭
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
٭٭٭
حد بندیِ خزاں سے حصار بہار تک
جاں رقص کر سکے تو کوئی فاصلہ نہیں
٭٭٭
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
٭٭٭
فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا
٭٭٭
مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں
درمیاں کے فاصلے کا طے سفر کیسے کریں
٭٭٭
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
٭٭٭
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
٭٭٭
محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
٭٭٭
نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا
٭٭٭
قریب آؤ تو شاید سمجھ میں آ جائے
کہ فاصلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
٭٭٭
اسے خبر ہے کہ انجام وصل کیا ہوگا
وہ قربتوں کی تپش فاصلے میں رکھتی ہے
٭٭٭
ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے
٭٭٭
اب تیرے میرے بیچ ذرا فاصلہ بھی ہو
ہم لوگ جب ملیں تو کوئی دوسرا بھی ہو
٭٭٭
حدود وقت کے دروازے منتظر ہیں نسیم
کہ تُو یہ فاصلے کر کے عبور دستک دے
٭٭٭
پہلے ہم نے گھر بنا کر فاصلے پیدا کیے
پھر اٹھا دیں اور دیواریں گھروں کے درمیاں
٭٭٭
ہم نے ہزار فاصلے جی کر تمام شب
اک مختصر سی رات کو مدت بنا دیا
٭٭٭
سیکڑوں پُل بنے فاصلے بھی مٹے
آدمی آدمی سے جدا ہی رہا

آپ کا صفحہ
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘ ، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
email:arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DKy1Az

via Blogger https://ift.tt/2zdUqmg
November 18, 2018 at 12:07AM
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment