Ads

نظام تعلیم بھی تبدیلی کا متقاضی

کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک اس کا تعلیمی نظام بہتر نہ ہو۔ آج کے اس جدید اور سائنسی دور میں تعلیم بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بلاشبہ تبدیلی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اس شعبے کو بہتر بنانے کے لیے بے شمار دعوے اور وعدے کیے۔ اسی حوالے سے ہم بات کرتے ہیں خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کی کہ جس پر حکومت کی جانب سے 130 ارب روپے کی رقم خرچ کی جا چکی ہے، لیکن کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی طلبہ وطالبات میں تعلیم کو چھوڑنے کا تناسب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود بھی ہمارا تعلیمی نظام بہتر نہیں ہو پا رہا۔ محکمہ تعلیمات کے اعداد وشمار کے مطابق صوبے بھر میں پچھلے 4 سال میں 6 لاکھ 85 ہزار طلبہ نے داخلہ تو لیا، لیکن وہ اس کو جاری نہ رکھ سکے۔ یہ بات زیر غور رکھی جائے کہ پاکستان کی45 فیصد آبادی کا شمار غر بت کی تہہ میں ہوتا ہے۔

آئیے ایک نظر ان وجوہات پہ ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام کمزور ہے۔

زبان کا مسئلہ:

زبان کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام انگریزی کے بغیر نامکمل سمجھا جا تا ہے۔ جو بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں انگریزی نصاب سمجھ نہیں آتا۔ اور ہمارا تمام نصاب انگریزی میں ہے، طلبہ تو دور کی بات، بعض اوقات اساتذہ کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ سرکاری اسکولوں میں جہاں تک دیکھنے میں آیا ہے، وہاں تو پرائمری سیکشن تک ہی انگریزی کی ابتدائی سیریز ہی پڑھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ان کے مستقبل کی تعلیم میں پریشانی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ مزید آگے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے۔

نصاب کا مسئلہ:

جب ہم نصاب کی بات کرتے ہیں تو ایک طویل عرصے سے ہم ایک ہی گھسا پٹا نصاب دیکھتے آرہے ہیں۔ جس سے طلبہ تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن اس میں نہ کچھ نیا ہے اور نہ دلچسپ۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ تعلیم دے رہے ہیں جس کا انفرادی اور ملکی ترقی میں کوئی عمل دخل ہی نہیں ہے۔

جدید تقاضوں سے غیر آہنگ اساتذہ:

بعض اوقات تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ بھی پائے جاتے ہیں جو خود اپنے ہی مضامین پو پوری طرح گرفت نہیں رکھتے۔ یا پھر ان کی معلوما ت اتنی محدود ہوتی ہیں کہ وہ اپنے طلبہ کو کسی جدید علوم سے آراستہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

فیسوں کا مسئلہ:

اس کے بعد جب ہم فیسوں کے مسئلہ کی جانب بڑھتے ہیں تو والدین کےلیے یہ بھی سنگین مسئلہ ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بھیجنے کےلیے سوچ بھی لے تو سب سے پہلے تو اس کو فیسوں کی پریشانی ہی کھا جاتی ہے۔ کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں تو دو وقت کی روٹی میسر آجانا ہی غنیمت ہے۔

نشستوں کا مسئلہ:

تعلیمی اداروں کا ایک بڑا مسئلہ نشستوں کا بھی ہے۔ اگر کلاس 40 سیٹس کی ہے تو وہاں 150 طلبہ پائے جائیں گے۔ جس کی وجہ سے نہ تو طلبہ پڑھ پاتے ہیں اور نہ اساتذہ پڑھا پاتے ہیں۔

یہ وہ سنگین مسائل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا مستقبل سڑکوں پہ رُل رہا ہے، اور انہی وجوہات کی بنا پر تعلیم کو جاری نہیں رکھ پا رہے اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں بڑی تعداد 5 سے 15 سال تک کے بچوں کی پائی جاتی ہے۔

اس ضمن میں ہم نے لیبر اینڈ آئی سروس کارپوریٹ کے وکیل ذیشان سلیمان کی رائے لی، ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے جو تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے ہر بچے کو تعلیم اور نوکری دے، ورنہ یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔

پنجاب حکومت نے چائلڈ لیبر کو غیر قانونی قرار دے کر 15 سال تک کہ بچوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اگر ہم اپنا تعلیمی نظام بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں نجی اور سرکاری اسکولوں کے فرق کو ختم کرنا ہوگا۔ اور اردو جو کہ ہماری مادری زبان ہے، اس کو ہمیں نجی اور سرکاری دونوں سطح پر رائج کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو بھی تبدیل کرکے ایسا تعلیمی نصاب متعارف کروانا ہوگا جو جدید ہونے کے ساتھ ساتھ آسان بھی ہو۔ نیز ایسے اساتذہ کا بھی انتخاب عمل میں لایا جائے جو اتنے تعلیم یافتہ ہوں کہ وہ اپنے طلبہ کو بہترین تعلیم فراہم کر سکیں؛ اور ساتھ ساتھ ان اساتذہ کی مناسب ٹریننگ بھی ہونی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post نظام تعلیم بھی تبدیلی کا متقاضی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2LEXw7z
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment