گزشتہ دنوں کراچی میں ایک اسکول وین میں گیس سلنڈر میں آگ لگنے کے باعث بارہ بچے جھلس گئے جس کے بعد متعلقہ حکام کی پھرتیاں شروع ہوئیں اور انہوں نے اسکول وین سے گیس سلنڈر نکالنے کا حکم جاری کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گھروں میں چولہا جلانے کےلیے گیس میسر نہیں تو کیا کمرشل ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈر کی اجازت ہونی چاہیے؟
اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ملک بھر میں صارفین گیس کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ ملک بھر کے مختلف علاقوں میں سوئی گیس پریشر میں صبح کے اوقات میں کمی کے باعث گھریلو صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے؛ اور اس پریشان کن صورتحال کے باعث عوام بغیر ناشتہ کیے گھر سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ بعض علاقوں میں تو سارا سارا دن گیس غائب رہتی ہے جس کے باعث شہری ہوٹلوں سے کھانا خرید کر کھانے پر مجبور ہیں۔ سوئی گیس پریشر میں کمی اور گیس لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہر طبقے کے شہری متاثر ہوئے ہیں۔ سوئی گیس کی اس صورتحال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صنعتی اور گھریلو استعمال کے اس لازمی ایندھن کی سپلائی میں برسہابرس سے کوئی بہتری نہیں آئی۔
ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے اور مسائل برقرار رہتے ہیں۔ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز نے موسم سرما کے دوران گیس کا لوڈ مینجمنٹ پلان وفاقی حکومت کو بھیجا جس کے مطابق گھریلو صارفین کو روزانہ مجموعی طورپر صرف آٹھ گھنٹے گیس کا مکمل پریشر ملنا تھا جبکہ دیگر اوقات میں لوڈشیڈنگ کرکے تجارتی اور صنعتی صارفین کو گیس فراہم کی جانی تھی۔ مگر اس کے باوجود سردیوں میں گھریلو گیس صارفین کو کہیں گیس پریشر میں کمی اور کہیں بالکل ہی قلت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ گیس، جو توانائی کا ایک انمول قدرتی ذریعہ ہے، اسے کمرشل ٹرانسپورٹ میں بے دردی سے ضائع کیا جارہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔
بڑی بڑی بسیں اور ویگنیں استعمال تو سی این جی کرتی ہیں لیکن غریب عوام سے ڈیزل کے کرائے وصول کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح لوگ 1500 سی سی یا اس سے بھی بڑی گاڑیوں میں پیٹرول کی جگہ سی این جی ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس پر محکمے کو توجہ دینی چاہیے اور گیس کی بچت کےلیے بڑی گاڑیوں میں سی این جی کٹ پر فوری پابندی لگائی جائے۔ ساتھ ہی پیٹرول پمپس کو اس بات کا پابند بنانا ہوگا کہ بڑی گاڑیوں کو کسی صورت سی این جی نہ فراہم کی جائے اور جن گاڑیوں میں کٹس لگی ہوئی ہیں، انہیں بھی نکالا جائے۔ اس کی ایک مدت مقرر کی جائے جس کے بعد بھاری جرمانہ کیا جائے۔
گیس کے بے دردی سے استعمال میں اداروں کے ساتھ گھریلو صارفین بھی شامل ہیں جو گیس کے پریشر اور قلت کا رونا تو روتے ہیں لیکن اسے ضائع کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ لوگ اپنے جنریٹرز کو گیس پر استعمال کرکے گھروں کے چولہوں کو ٹھنڈا کررہے ہیں۔ کسی بھی علاقے کی بجلی بند ہوتے ہی وہاں گیس کا پریشر بے حد کم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ ان جنریٹرز کا گیس پر استعمال ہے۔
جہاں شہریوں نے اپنے جنریٹر گیس پر منتقل کرا لیے ہیں، وہیں تمام صنعتیں بھی اپنے جنریٹرز گیس پر چلارہی ہیں، جنہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ جب مارکیٹ میں گیس سے چلنے والے جنریٹرز کی نوید سنائی گئی تو اس وقت حکومت سو رہی تھی، کیوں کہ منصوبہ بندی کس چڑیا کا نام ہے، ہماری حکومتیں اس سے واقف ہی نہیں۔ یہ سب منصوبہ بندی کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے کہ شہر میں سی این جی اسٹیشنوں کی بھرمار ہوگئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ اس وقت کی حکومت نے یہ بات سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ اس کےلیے مستقبل میں گیس کہاں سے آئے گی۔
اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ شہر بھر کے جنریٹرز کے گیس کنکشن معطل کردیئے جائیں تو گیس کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دراصل کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ اس قدرتی نعمت کے استعمال میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ اگر ترجیحات کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے اس گیس پر گھریلو صارفین کا حق ہے جس کے بعد صنعتوں کو گیس فراہم کی جانی چاہیے؛ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سی این جی کے استعمال پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
ملک میں گیس کی کل یومیہ پیداوار 3.8 سے 4.2 ارب مکعب فٹ ہے جبکہ عام دنوں میں طلب 6 ارب، اور شدید سردی کے دنوں میں مزید بڑھ کر آٹھ ارب مکعب فٹ یومیہ تک ہوجاتی ہے۔ گیس کی کم سپلائی کی بڑی وجہ ملکی ذخائر میں کمی بتائی جاتی ہے۔ تاہم فرسودہ ٹرانسمیشن سسٹم بھی ہموار سپلائی کی راہ میں رکاوٹ اور گیس کے زیاں کا بڑا سبب ہے۔ اس کے نتیجے میں موسم سرما کے کم از کم تین ماہ ملک کا بڑا حصہ گیس کی فراہمی سے محروم رہتا ہے۔ اس قلت یا بدانتظامی کو چھپانے کےلیے جو انتظامات کیے جاتے ہیں، ان سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ حکومت کو اس صورت حال میں گھریلو صارفین کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے گیس چوری کے خاتمے کےلیے ٹھوس اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ اور پریشر میں کمی کی وجوہ پر بھی پر بھی غور کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post پبلک ٹرانسپورٹ کےلیے سی این جی کی ممانعت کیوں نہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2GgQ9mp
0 comments:
Post a Comment