Ads

قائداعظمؒ اور جدوجہد آزادیٔ کشمیر

ایک تصویر میں کفن میں لپٹے کشمیری رہنما یٰسین ملک نظر آئے، جنہوں نے کشمیر میں نئی تحریک شروع کی ہے کہ ایک ہی دفعہ سب کشمیریوں کو مار دو، مگروہ انڈیا سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ حد ہو گئی کہ یٰسین ملک کو کفن پہن کر نکلنا پڑا۔ صرف سال 2018 ء میں سینکڑوں معصوم کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کشمیر کے صفِ اول کے اخبارات چیخ چیخ کر معصوم کشمیریوں کے خون کی ارزانی پر نوحہ کناں ہیں۔ بے گناہ کشمیریوں پر ظلم کی داستانیں دیکھنی ہیں تو سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، مشعال ملک اور دیگر آزادی پسند کشمیری متوالوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ فالو کر لیں، آپ کو رزوانہ بھارتی ظلم کی وہ تصویریں اور ویڈیوز نظر آئیں گی کہ آپ آنسو بہانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ انٹرنیشنل میڈیا، اقوامِ متحدہ اور مہذب ممالک، تمام کے تمام اس عالمی سانحے پر خاموش بیٹھے ہیں۔

ہندوستان کا عالمی اثر و رسوخ اور سب سے بڑھ کر امریکہ کا چمچہ ہونا، عالمی برادری کو بہرہ کر گیا ہے۔ آج جب کشمیری ایک ایک کر کے شہید ہو رہے ہیں تو پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسی ہے کہ ہندوستان سے دوستی کی جائے اور کشمیر بات چیت سے آزاد ہوگا۔ تویہ غلط فہمی تو خان لیاقت علی خان مرحوم کو بھی تھی، مگر ان کی زندگی میں یہ خواہش پوری نہ ہوئی- دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اس فارمولے سے حل کرنا ہے یا پھر قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ویژن کے مطابق حل کرنا ہے۔ اگرحل اول الذکر ہے تو یقین مانیے کہ 2030 ء کے بعد پاکستان میں کشمیر کے دریاؤں سے پانی کی ایک بوند بھی ہندوستان نہ آنے دے گا۔ وہ دریائے سندھ بھی ٹنل بنا کر خشک کر دے گا اور دیگر تمام دریا تقریباً ہم سے چھین چکا ہے۔ نہ پاکستان میں زراعت رہ گئی ہے اور نہ انڈسٹری ہے۔ یہ سب کچھ کشمیریوں کو مشکل میں اکیلا چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔

اقوامِ متحدہ پچھلے 70 سال سے بندر کا تماشہ دکھانے میں مصروف ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اندر اتنا دم ہی نہیں ہے کہ کشمیریوں کی مدد کر سکے۔ میثاقِ مدینہ میں لکھا ہے کہ تمام اہلِ ایمان یک جان ہیں اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اﷲ کے راستے میں جو شہید ہوں ان کا بدلہ لے۔ کسی مسلمان کے قتل پر تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایکا کر کے اس قاتل کی مخالفت کریں اور اس کے خلاف کارروائی میں مدد دیں۔ ہندوستان کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں کو بے دریغ شہید کر رہا ہے۔

بحیثیت مسلمان ملک پاکستان پر واجب ہے کہ کشمیر میں جو لاکھوں شہادتیں ہوئی ہیں، ان کا بدلہ لے اور تمام مسلمان ممالک ہندوستان کے اس ظلم کی بھر پور مذمت کریں۔ ہندوستان سے کسی قسم کے تعلقات تب تک نہ رکھے جائیں جب تک اس سے بدلہ نہ لے لیا جائے۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو نبی اکرم ﷺ ہمیشہ محاذ جنگ کے لیے تیار رہتے، روایات میں آتا ہے کہ ہر مہینے کوئی نہ کوئی معرکہ ہوتا تھا اورنبی پاکؐ ہر ماہ کم از کم 10 دن کھلے آسمان تلے رہتے تھے۔ میجر اے ایچ امین اپنی کتاب ’’آزادی کشمیر… کھوئے ہوئے مواقع کی جنگ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کی حکومت میں قائدِ اعظم اور جنرل اکبر کے علاوہ آزادیٔ کشمیر میں کسی کو دلچسپی نہ تھی۔ میجر افضل خان اپنی کتاب ’’میری آہ و زاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے رویے سے مایوس ہو کر قائداعظم نے حکومت کو حکم دیا کہ کشمیر میں جہاد کو جاری رکھا جائے تو جنرل اکبر نے تجویز دی کہ مجاہدین کو پونچھ اور جموں محاذ پر جہاد کے لیے بھیجا جائے، لیکن حکومت نے اجازت نہ دی۔ جونہی قائدِ اعظم کو اس بات کا علم ہوا تو سخت ناراض ہوئے۔ حکومت نے بتایا کہ بھارت کے ساتھ باقاعدہ جنگ شروع ہو سکتی ہے، تو قائدِ اعظم نے فرمایا کہ ’’بے شک بھارت سے جنگ شروع ہو جائے، لڑنے والے کبھی مرتے نہیں ہیں۔‘‘

پھر حکومتی عہدے داروں نے بہانا بنایا کہ ہمارے پاس فوج کم ہے اورمغربی سرحد پر ہے۔ تو قائدِ اعظم نے حکم دیا کہ ’’فوراً ساری کی ساری فوج مشرقی سرحد پر لائی جائے۔ پورے پاکستان سے شہریوں کو جہاد کے لیے دعوت دی جاتے۔ اگر پاکستان کے پاس ہتھیار نہ رہے تو پاکستانی مجاہد نیزوں بھالوں سے بھی لڑیں گے۔ اسلام غیرت مند لوگوں کا دین ہے، ہم کشمیریوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ کشمیرپاکستان بنے گا۔‘‘

قائدِ اعظم آگاہ تھے کہ جس طرح رسولِ عربیؐ نے قریشِ مکہ کی ناکہ بندی کی تھی، اور قریش کے تجارتی قافلے کو سکون سے شام جانے نہ دیتے تھے، مسلمانوں کا مدینہ جانا قریش کے لیے مصیبت بن چکا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ ہندوستان کو اگر موقع دیا گیا تو وہ پاکستان کا جینا حرام کر دے گا۔ (جیسا کہ 1971 ء میں ہوا اور2019 ء میں بھی ہو رہا ہے)۔ ہندوستان کی بدمعاشی سے تنگ آ کر آپ سوچ چکے تھے کہ جس طرح انڈیا نے مادھوپور سے پاکستان کا پانی بند کیا تھا، مستقبل میں جب بھی ہندوستان آنکھیں دکھائے گا، اس کے بحری تجارت کے راستے بند کر دیئے جائیں۔ کیا آج ہم لوگ قائدِ اعظم سے زیادہ سیاست اور قانون جانتے ہیں؟ کیوں قائدِ اعظم نے کشمیر پر حملے کا حکم دیا؟

اگر کشمیر پر حملہ غیر قانونی ہوتا تو محمد علی جناح کبھی یہ حکم نہ دیتے۔ کشمیر اشو پر ان کی جو حکم عدولیاں کی گئیں اس پروہ اپنے آخری ایام میں بہت مایوس ہوئے۔ قائدِ اعظم نے سری نگر ہوائی اڈے اور جموں پر حملے کا حکم دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ان کی فوجی صلاحیتوں میں کوئی شک نہیں ہے۔ دونوں فیصلوں کی حکم عدولی ہوئی، ورنہ کشمیر آج پاکستان کا حصہ ہوتا۔ کشمیری عوام پاکستانی عوام سے اب بھی پُر اُمید ہیں۔ اگر حکومتِ وقت کشمیریوں سے مخلص ہے توایمان کے آگے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹک سکتی ہے۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ غیرت کی زندگی گزارنی ہے کہ اغیار کا ظلم چپ چاپ سہنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post قائداعظمؒ اور جدوجہد آزادیٔ کشمیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2RrnVqL
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment