Ads

جب سے آٹزم دوست ہوا

وہ شروع سے ہی انوکھا تھا۔ جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ ہر ایک کو دیکھ کر ایسا مسکراتا کہ کوئی نظرانداز ہی نہ کر پاتا۔ ملائیشیا سے پاکستان آتے ہوئے میں پریشان تھی کہ نہ نہ کرتے ہوئے بھی سامان زیادہ ہوگیا۔ دیسی پردیسیوں کے سامان اور کچن کے گندے برتنوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ مکائے نئیں مکدے۔ بہرصورت جب ہم امیگریشن پر پہنچے تو اس نے ایسی دلفریب مسکراہٹ سے ملائیشین خاتون افسر کو دیکھا کہ انہوں نے ہمارے زیادہ سامان کو بخوشی جانے دیا اور ہنستے ہوئے (اپنی زبان میں) ساتھ کھڑے افسر کو شرارتاً کہنے لگیں ’’دیکھا! بچے حسین لوگوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔‘‘ وہ ہنستا ہوا اگلے مسافر کی جانب بڑھ گیا۔ ہم نے بھی راستہ ناپنے میں عافیت جانی۔

پاکستان میں بھی اسں نے ہر ایک کا دل موہ لیا۔ وقت ہنستے کھیلتے کٹنے لگا۔

مجھے زندگی ایک حسین خواب کی مانند لگتی تھی۔ ہر چیز امید سے بڑھ کر بہترین۔ اس نے توتلی زبان میں اپنے بابا کا نام پکارنا شروع کیا تو ہم سب اس کی توتلی باتوں کے بے صبری سے منتظر ہوگئے۔

وقت گزرتا گیا لیکن بولنا تو درکنار، اس نے اپنے بابا کا نام پکارنا بھی چھوڑ دیا۔ اپنے نام پر پلٹ کر دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ آنکھوں میں بھی نہیں دیکھتا تھا۔ بس اپنی دنیا میں مگن رہتا تھا۔ سب مذاق میں کہتے، حسین ہے اس لیے نخرے دکھاتا ہے۔ مگر یہ سب مذاق سے زیادہ سنجیدہ معاملہ لگتا تھا۔ پڑھنا شروع کیا تو الجھن بڑھتی گئی۔ بائیومیڈیکل سے متعلقہ تعلیمی پس منظر ہونے کی وجہ سے اس کی خاموشی اور خود فکری کی گتھیاں سلجھاتے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ شاید الله نے ہمیں آٹزم کی آزمائش کےلیے چن لیا ہے۔

دنیا تو امتحان گاہ ہے، پرچے میں سوالات بھلا اپنی مرضی کے کہاں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی آزمائش بھی رب کی مرضی! جس کو دے، جیسی دے، جب دے! میرے سامنے جب یہ آزمائش آئی تو الله کے حبیب، سرورِ کون و مکاںﷺ کے الفاظ یاد آگئے، ’’آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اور اے ابراہیم ہم تیری جدائی کے سبب غمگین ہیں۔‘‘ دل نے ’’ابراہیم‘‘ نام سن کر جیسے ایک لمحے کو دھڑکنا چھوڑ دیا۔ کیا آج جس کے غم میں میرے آنسو تھم نہیں رہے، اس کا نام ابراہیم ہونا محض اتفاق ہے۔

نہیں نہیں! دل نے محبوبِ حق کو اس قدر قریب محسوس کیا کہ درد جاتا رہا۔

دل بہت بے قرار رہتا تھا لگتا تھا کہ میں یہ آزمائش سہہ نہ پاؤں گی۔ مائیں شاید اسی قدر ناتواں ہوتی ہیں کہ اپنے بچوں کی تکلیف نہیں دیکھ سکتیں۔ قرآن یقیناً شفا ہے، دل کی بے چینی کا بھی، علاج ہوگیا۔ سورة البقرة میں الله سبحانه و تعالىٰ فرماتے ہیں: (ترجمہ) ’’الله کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ دل کو اطمینان ہوا؛ اور مسئلے کے ممکنہ حل کی طرف بڑھنے کا حوصلہ ہوا۔

اس کے بابا سے بات کی اور آٹزم کی باقاعدہ تشخیص کا آغاز ہوا۔ ایک صاحبہ نے تشخیص ان الفاظ میں کی کہ آپ لوگ دماغی طور پر تیار ہوجائیں کہ آپ کا یہ بیٹا ڈاکٹر، انجینئر نہیں بن سکتا، خود کو ہی نہ سنبھال پائے شاید۔ مجھے تو یہ مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں لگا، کیونکہ اپنے بچے کو ڈاکٹر، انجینئر بنانا میرا کبھی خواب نہیں رہا۔ میرے نزدیک خواب اور کامیابی ڈگریوں کے محتاج نہیں۔ لیکن گھر آ کر میں اس سوچ کے زیرِ اثر دیر تک مغموم رہی کہ میرے نہ سہی، ہوسکتا ہے دوسرے ماں باپ کے ایسے خواب ہوتے ہوں۔ اس طرح کی باتیں والدین کے دل دکھا دیتی ہوں گی۔

جس موقعے پر سب سے زیادہ حوصلے اور ہمت والی باتوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس موقعے پر ایسی دل دکھانے والی باتیں کرنا بہت غیر مناسب لگا۔ ایک سینٹر کی پرنسپل نے ارشاد فرمایا کہ یہ دماغی طور پر مفلوج ہے۔ کم از کم پانچ سال ہمارے پاس لائیے، تب شاید کچھ سمجھ بوجھ آئے۔ آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ملے جنہوں نے بتایا کہ آٹزم (Autism) کوئی بیماری نہیں۔ یہ بچے زندگی کو مختلف طرح سے دیکھتے ہیں۔ ان کو اپنی بات سمجھانے کےلیے، ان کی بات سمجھنے کے لیے ان کی دنیا میں جانا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ آٹسٹک (Autistic)بچے ہر قسم کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صلاحیات سے محروم ہیں۔ بھلا ایسا ممکن بھی کیونکر ہو جب کہ الله رب العزت منصف ہے۔

تاریخ شاہد ہے ایسے بچوں نے میڈیکل سے فزکس تک، ریاضی سے فلکیات تک، کیسے کیسے انہونے کارنامے انجام دیے ہیں۔ ماہرِ آٹزم سائمن بیرن کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ آئن اسٹائن بھی آٹسٹک تھا، کیونکہ سات برس کی عمر تک وہ کوئی دوست نہیں بنا پایا تھا۔ ان کے خیال میں شہرۂ آفاق سائنس دان نیوٹن بھی اسپرجر سینڈروم کا شکار تھے۔ یہ اور ان جیسی بےشمار مثالیں آٹزم کا شکار بچوں کے والدین کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ آٹزم کتاب کا آخری صفحہ نہیں، یہ تو کتاب کا سرورق ہے۔ یہ غروبِ آفتاب نہیں، یہ تو آنے والے روشن دن کی نویدِ صبح ہے۔

یہ سمجھ لیجیے کہ آنے والا ہر دن آپ کےلیے مشکل تو ہوگا مگر جب آپ ایک مرتبہ آٹزم سے دوستی کرلیں گے، جب آپ اپنے بچے کو اپنی دنیا سے آوازیں دینے کے بجائے اس کی دنیا میں جا کر گھلنا ملنا سیکھ لیں گے، تو کتابِ زیست پر روزانہ کچھ انوکھا، کچھ دلفریب تحریر ہوگا۔ اگر آپ دل چھوڑ کر فقط اس دکھ میں مبتلا رہیں گے کہ آپ کا بچہ نارمل نہیں، تو یقین جانیے یہ سب سے بڑا نقصان ہوگا، کیونکہ آٹزم کا علاج صرف آپ کی ہمت، آپ کے عزم اور آپ کے اعتماد میں مضمر ہے۔

دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے! یہ نارمل اور ایب نارمل آخر ہے کیا؟ قدرت کے شاہکاروں اور انسانوں کی تخلیق کردہ تھیوریوں کو جو ایک زاویے سے دیکھیں وہ سب نارمل ہیں؛ اور جنہیں الله نے وہ نظر عطا کی ہے جو ہمارے شعور کےلیے چیلنج ہے، وہ سب ایب نارمل ہیں؟ جب درخت سے سیب گرا اور کسی نے سوچا کہ نیچے ہی کیوں گرا، اوپر کیوں نہیں گیا، وہ ایب نارمل تھا؟ اگر اٹھا کر کھا لیتا کہ سیب تو گرتا ہی نیچے ہے، تو نارمل ہوتا؟

ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اپنے بیٹے کو کبھی ایب نارمل نہیں سمجھا۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ اسے چیزیں سکھانا، دوسرے بچوں کو سکھانے سے مختلف ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی محبت بھی دوسرے بچوں جیسی نہیں، کچھ خاص ہے اس میں۔ یہ بھی سچ ہے کہ دل مطمئن ہے کہ یاد کرتی ہوں جب کبھی پرچہ مشکل آجاتا تو اساتذہ نمبر دیتے ہوئے لحاظ کرتے تھے کہ پرچہ مشکل تھا، چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کردیا جائے۔ اب سوچتی ہوں جن کو الله رب العزت مشکل امتحان دیتا ہے، کیا خبر اپنی صفتِ رحمت سے کوتاہیوں کو معاف کردے کہ پرچہ مشکل تھا۔ یہی سب سوچ کر آٹزم کو دشمن نہیں سمجھا۔

بیٹے کا رجحان کھانے پکانے کی طرف ہے تو اب توجہ اس طرف مبذول کر رکھی ہے کہ اسے کھانا پکانا سکھانے کےلیے میری طرف سے کوئی کمی نہ رہ جائے۔ آٹزم کو زندگی کا حصہ بنانے اور اپنے آپ کو آٹزم کی ڈیمانڈ کے مطابق ڈھالنے کے بعد دل مطمئن اور زندگی آسان ہے لیکن اب بھی وہ وقت یاد آتا ہے کہ جب ہر طرف مایوسی تھی، ہر ایک کہتا تھا یہ بند گلی ہے، سرنگ کے پار روشنی نہیں، تو وہ وقت یاد کرکے دل لرز جاتا ہے۔

ایسے تمام والدین جن کے بچے آٹزم کا شکار ہیں، آپ سب سے گزارش ہے کہ اسے ایک چیلنج کی طرح قبول کیجیے۔ دل چھوڑنے کے بجائے آٹزم کو قبول کیجیے اور اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ الله یقیناً مدد فرمائے گا۔ ڈاکٹر، ماہرِ نفسیات اور عام لوگوں سے التماس ہے کہ وہ ایسے والدین کی ہر ممکن مدد کریں۔ انہیں حوصلہ دیجیے، مگر انہیں ناامید نہ کیجیے کہ امید ہی زندگی ہے؛ اور انہیں زندہ رہنا ہے اپنے انمول بچوں کےلیے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post جب سے آٹزم دوست ہوا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2U7cD1i
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment