Ads

سانس دماغ کےلیے ریموٹ کنٹرول کی طرح ہے

یہ حقیقت تو سبھی جانتے اور مانتے ہیں کہ انسانی دماغ کا انسانی زندگی میں کتنا اہم کردار ہے۔ آپ کے دماغ میں جو خیالات آئے روز مٹر گشت کرتے رہتے ہیں، وہی آپ کے باقی بدن کو عصبی اشارے بھیجتے ہیں، جن کے مطابق آپ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تعین کرتے ہیں۔

گویا، ہم سب دماغ کی اہمیت سے تو نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ لیکن، کیا آپ اپنے دماغ کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی آپ اپنے جسم کو دیتے ہیں۔ آپ اپنے جسم کو پُرکشش اور توانا رکھنے کےلیے کیا کیا جتن کرتے ہیں، مگر دماغ کی مشین کی پروا شاید ہی کی جاتی ہو۔ بلکہ لوگوں کو اس کا خیال بھی نہیں آتا۔ اسی وجہ سے آپ کا دماغ آپ کے قابو سے باہر رہتا ہے۔ آئے دن اسٹریس، ڈپریشن، مایوسی، روزانہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑنا یا پھر معمولی سی بات پر غصے میں آجانا، اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا دماغ آپ کے قابو میں نہیں ہے۔

اگر آپ اپنے دماغ کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک آسان ترین طریقہ سانس ہے۔ جی ہاں! سانس کی مدد سے آپ اپنے دماغ کو باآسانی اور فوری قابو کرسکتے ہیں۔ یوں تو جب ہم مائنڈفلنس مراقبہ کراتے ہیں تو سانس پر توجہ رکھنے کا کہتے ہی ہیں، لیکن عام زندگی میں بھی اگر آپ اپنی سانس سے آگاہ ہونے کی عادت ڈال لیں تو آپ بہت سی منفی ذہنی اور جذباتی کیفیات سے نکلنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

تقریباً پچاس برس قبل سانس اور دماغ کے تعلق کے حوالے سے پوری دنیا میں تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو اکیسویں صدی میں عروج پر ہے۔ ان تمام تحقیقات سے یہ توثیق ہوتی ہے کہ گہری سانس لینے سے نہ صرف جسم کو آکسیجن زیادہ ملتی ہے بلکہ منفی جذباتی کیفیت سے نکلنے میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر، فوجیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ دورانِ جنگ جب وہ کسی جگہ پھنس جائیں اور پریشان ہونے لگیں تو آہستہ آہستہ سانس لیں۔ ایسے ہی برفانی علاقوں میں جو سیاح جاتے ہیں یا کوہ پیما کوہ پیمائی کرتے ہیں، وہ شعوری طور پر سانس لینے کی اہمیت سے خوب آگاہ ہوتے ہیں۔ شعوری طور پر سانس لینا یہ ہے کہ آپ کی توجہ آپ کے عمل تنفس پر ہو۔ آپ سانس لیں تو آپ آگاہ ہوں کہ سانس آپ کے جسم میں جارہی ہے۔ جب آپ سانس باہر نکالیں تو آپ جانتے ہوں کہ سانس نتھنوں کے راستے آپ کے جسم سے خارج ہورہی ہے۔ عام طور پر ہم جس انداز سے سانس لیتے ہیں، وہ لاشعوری عمل تنفس ہوتا ہے۔

جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نتھنوں سے سانس لینے اور نکالنے کے عمل اور انسان کے سوچنے کے افعال (cognitive functions) میں براہِ راست تعلق ہے۔ گہری اور آہستہ سانس لینے سے Parasympathetic Nervous System سکون میں آتا ہے اور دل کی دھڑکن کم ہوتی ہے۔ یوں، ذہن اور جسم دونوں کو آرام ملتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن میڈیسن کے سائنس داں اس بات کو جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ سانس کا عمل کیسے دماغ کے اُن حصوں پر اثر انداز ہوتا ہے جو یادداشت اور جذبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی تجربات کے بعد انھوں نے یہ جانا کہ نتھنوں سے سانس لینے کا عمل دماغ کے اس حصے کو، جو بو سے تعلق رکھتا ہے (olfactory cortex) عصبی اشارے بھیجتا ہے۔ پھر یہاں سے یہ اشارے ایمگڈالا (وہ مقام جہاں سے جذبات انگیخت ہوتے ہیں) اور ہیپوکیمپس (یادداشت اور جذبات کا ذمے دار خطہ) تک پہنچتے ہیں۔

حس شامہ (سونگھنے کی حس، صلاحیت) کا انسان کے جذبات، یادداشت اور برتائو سے گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایک مخصوص بو (خوش بو یا بدبو) انسان کے اندر شدید جذباتی ہیجان پیدا کردیتی ہے۔ اس مطالعے سے یہ بھی پتا چلا کہ بو ہی نہیں، اگر صرف سانس بھی اس انداز سے لیا جائے اور بو غائب ہو، تب بھی انسان کے جذبات اور یادداشت پر اس کا اثر ہوتا ہے۔

ابتدا میں محققین نے مرگی کے سات مریضوں کے دماغ میں برقی اشاروں (الیکٹرک سگنل) کا جائزہ لیا تو انھیں پتا چلا کہ ان مریضوں میں فطری عمل تنفس خطہ شامہ (یعنی دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق خوش بو یا بدبو سونگھنے سے ہے) کے سست برقی تال (الیکٹرک ردھم) سے ہم آہنگ ہے۔ پھر انھوں نے یہ جانا کہ نتھنوں سے سانس لیتے وقت ایمگڈالا اور ہیپوکیمپس میں تیز برقی تال مزید قوی ہوگئے۔ اس عمل کو آپ موسیقی کے آرکیسٹرا کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے میوزک آرکیسٹرا میں ایک ماہر استاد کنڈیکٹر ہوتا ہے اور اپنی زیر نگرانی دیگر درجنوں موسیقاروں کو ہدایات دے رہا ہوتا ہے کہ کس کو کب اور کتنی شدت سے طبلہ، گٹار، بانسری، ڈھول وغیرہ بجانا ہے اور کب خاموش رہنا ہے، ایسے ہی اس معاملے میں نتھنوں سے آنے والی سانس گرینڈ کنڈیکٹر کا کام کرتی ہے۔ نتھنوں سے سانس لینے کا عمل خطہ شامہ کا عمل رواں رکھتا ہے اور جن حصوں کا جذبات اور یادداشت سے تعلق ہے، انھیں ہم آہنگ کرتا ہے۔

اگلے مرحلے پر ان ماہرین نے ساٹھ صحت مند افرادکا انتخاب کیا اور جائزہ لیا کہ نتھنوں سے سانس لینے کا عمل ان کی یادداشت اور جذباتی برتائو پر کیا اثر ڈالتا ہے۔ ان شرکا کو خوف ناک چہرے دکھائے گئے اور کہا گیا کہ انھوں نے جو چہرہ بھی دیکھا ہے، اس کے بارے میں فوری جذباتی تاثرات دیں۔ یہ دیکھا گیا کہ جب انھوں نے یہ خوف ناک چہرے دیکھے تو وہ ڈر گئے۔ لیکن، جب ان سے کہا گیا کہ وہ نتھنوں سے شعوری سانس لیتے رہیں اور پھر انھیں خوف ناک چہرے دکھائے گئے تو اُن کے اندر فوری طور پر یا شدید خوف کا تاثر پیدا نہیں ہوا۔

اگلے مرحلے پر ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ انھوں نے کون کون سے چہرے دیکھے تھے تو کئی شرکا کو چہرے یاد نہیں تھے۔ لیکن، جب انھوں نے نتھنوں سے سانس لینے کا عمل کیا اور اس دوران وہ چہرے دیکھے تو بعد میں انھوں نے کہیں بہتر یادداشت کے ساتھ جواب دیا کہ انھوں نے کون کون سے اور کتنے چہرے دیکھے۔

اس مطالعے سے ماہرین نے یہ تجزیہ کیا کہ نتھنوں سے سانس لینے کا عمل، شعوری سانس، بالکل ایسا ہے جیسے آپ اپنے ٹی وی کے لیے ریموٹ استعمال کرتے ہیں۔ گویا، آپ اپنے نتھنوں سے جس انداز سے سانس لیتے ہیں، وہ آپ کے دماغ کی یادداشت اور جذبات کی اہلیت و صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ شعوری طور پر سانس لینا شروع کردیں تو آپ اپنے دماغ کو اپنی سانس کے ذریعے باآسانی اور بخوبی کنٹرول کرسکتے ہیں۔

ہمارا مشورہ یہ ہے کہ سانس کا عمل اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، بلکہ سب سے بڑی نعمت کہیے۔ کیوںکہ اگر سانس نہ ہو تو آدمی اگلے سیکنڈ بھی نہ جی پائے۔ اس لیے، سانس لینے کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھائیے کہ اس میں اس نعمت کی شکرگزاری بھی ہے۔ روزانہ کم از کم پانچ منٹ تین مرتبہ شعوری طور پر سانس لینے کو اپنے روزانہ معمولات کا حصہ بنائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سانس دماغ کےلیے ریموٹ کنٹرول کی طرح ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2Y31Brr
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment