’’روزگار سفیر‘‘ اس نوجوان کا قصہ ہے جو بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے زراعت کی ڈگری لینے گیا تھا اور جسے دلچسپی دنیا اور بہ طور خاص مسلم دنیا کی تاریخ سے تھی۔ وہ مصر، شام، لبنان کی سیرکرتے ہوئے شہدا کے مزاروں پر ماتھا ٹیکتے ہوئے ہمیں یہ بتانا نہیں بھولتے کہ ہندوستان میں جو تحریک خلافت چلی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں اور چند ہندئوں نے خلافت عثمانیہ کی سربلندی کے لیے جو عطیات دیے تھے، وہ ترکی اس وقت پہنچے جب خلافت عثمانیہ کی بساط لپٹ چکی تھی۔
کمال اتاترک کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ یہ رقم ہندوستانیوں کو شکریے کے ساتھ واپس بھیج دیں لیکن یہ مشورہ انھیں مناسب معلوم نہیں ہوا اور انھوں نے کہا کہ یہ مخلص ہندوستانیوں کی دل شکنی کا سبب بنے گا، اس اس لیے اسے ترکی میں بننے والے نئے مرکزی بینک میں Seed Money کے طور پر استعمال کیا جائے۔کرامت غوری لکھتے ہیں کہ جب وہ ترکی میں سفارتی ذمے داریاں ادا کر رہے تھے، تو یہ واقعہ انھیں ترک اسٹیٹ بینک کے صدر نے سنایا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ترک جمہوریہ نے گزشتہ 75 برس میں جو دولت پیدا کی ہے، اس کی جڑوں میں تحریک خلافت کے عطیات پیوست ہیں۔
کرامت غوری کی زندگی بہت سے نشیب و فراز سے گزری۔ گھر والوں کا تقاضہ تھا کہ وہ سائنس پڑھیں، طبیعت لبرل آرٹس کی طرف مائل تھی۔ بیروت سے بھی اسی لیے ڈگری مکمل کیے بغیر واپس آنا پڑا تھا۔کراچی واپس آکر زندگی میں کئی مشکل مقام آئے لیکن یہ کمر باندھ کرکار زارِ حیات میں اترگئے۔انھوں نے انٹرنیشنل افیئرز میں ایم اے کیا۔ کراچی یونیورسٹی کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے اور تعلیمی کامیابیوں کے جھنڈے اڑاتے ہوئے وہ انکم ٹیکس کے محکمے میں پہنچے اور وہاں سے کچھ ہی عرصے بعد قطع تعلق کر بیٹھے۔اس محکمے میں گنگا نہانے کی جو آسانی تھی اس سے کرامت کو کسی قسم کو شغف نہ تھا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز سے بہ طور ریسرچ آفیسر وابستہ ہوئے اور یوں ان کے لیے وہ دروازے کھلتے چلے گئے جن کی انھیں خواہش تھی۔
وہ برٹش کونسل سے کتاب کی چوری، عابدہ سے اپنے عشق کا قصہ اور فرانسیسی کا ڈپلوما حاصل کرنے کا معاملہ جس کے بعد پیرس کی مشہور یونیورسٹی سوربون سے پی ایچ ڈی کے لیے وظیفے کا مل جانا ان کی زندگی کے اہم سنگ میل ہیں۔ وہ جس طرح بیروت سے بے نیل و مرام لوٹے تھے، کچھ ایسا ہی واقعہ سوربون کے وظیفے کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ چند ہی دنوں بعد کراچی لوٹ آئے۔کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ ماسکو کی لوممبا یونیورسٹی میں ریسرچ کا موقع مل رہا تھا لیکن والد اور محبوبہ کی ناپسندیدگی آڑے آئی۔ سول سروس کے امتحان سے کامیاب گزرے۔ خواہش تھی کہ فارن سروس میں لیے جائیں۔ اس خواہش کی راہ میںکیا کچھ مشکلیں آئیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
انھوں نے سروس اکیڈمی میں تربیت کے برسوں کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے جو دلچسپ ہے اور اس کے ساتھ ہی معلومات افزا بھی۔ سچ پوچھیے تو اس کتاب میں بہ طور سفیر ان کی زندگی کے دن بہت بعد میں آتے ہیں، ابتدائی سیکڑوں صفحات ان نوجوانوں کے لیے راہ نما ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، بہت ذہین ہیں لیکن نہ وسائل ہیں اور نہ بڑی سفارشیں جو ان کے لیے اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے کھولتی جائیں۔ کرامت متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہ اپنے والدین کے سایہ عاطفت میں نقل مکانی کرکے پاکستان آئے، نہ سر پر آسمان، نہ پیروں کے نیچے وہ زمین جو صدیوں سے ان کے آبائو اجداد کی ہو۔اس کے باوجود ان کے اندر آگے بڑھنے اور آسمان کو چھو لینے کی بے حساب خواہش تھی۔ انھوں نے ہر مرحلے پر اس خواہش کی پرورش کی، اسے خون جگر پلایا، راتوں کو آنکھوں کا تیل جلایا اور پھر ایک کامیاب سفارتکار بن کر سامنے آئے۔
ان کی شادی کا قصہ دلچسپ ہے اور طولانی بھی، جس کا نکاح تین مولوی پڑھائیں وہ قصہ طولانی تو ہوگا۔ اسی طرح وہ کراچی کے انٹیلی جنس بیورو میں سراغرسانی کی تربیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی فیلڈ ٹریننگ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ تربیت انھیں کراچی کے بوہری بازار میں ایک شام لے گئی۔ لکھتے ہیں ہمارے لیے امتحان یہ تھا کہ شام کے دھندلکے میں جھٹ پٹے کا وقت، بھرے بوہری بازار میں ایک مخالف جاسوس کا تعاقب کرنا تھا۔ ہمیں دو دو تین تین افراد کی ٹکڑیوں میں بانٹا گیا اور ایک پیشہ ور اور تجربہ کار جاسوس کے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔
ہمارا مشن یہ تھا کہ وہ جاسوس ہمیں جل دے کر غائب نہ ہونے پائے۔ وہ بوہری بازار اور صدرکی گلیوں میں ہمیں گھماتا رہا اور ہم ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کے کردار کی طرح اس کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ ہمیں جل دینے میں کامیاب ہوگیا۔ اور نظروںسے ایسا اوجھل ہوا کہ اس کے بعد ہم دیر تک الفنسٹن اسٹریٹ، وکٹوریہ روڈ اور آس پاس کی سڑکوں اور گلیوں میں اسے ڈھونڈتے پھرے، لیکن اس کا سراغ نہیں ملا اور جب وقت ختم ہوگیا تو وہ ہمیں اچانک الفی پر معروف ہوٹل فاروق کے سامنے ہنستا مسکراتا ہوا مل گیا۔‘‘
بہ طور جونیئر سفارتکار ان کا تقرر نیویارک کے قونصل خانے میں ہوا، جون 1968 سے بہ طور سفیر ان کی نئی زندگی شروع ہوئی۔ وہ زندگی جو بہ ظاہر بہت شاندار اور پربہار محسوس ہوتی ہے، لیکن وہ افسراعلیٰ کی ناراضگی کے جہنم میں کس طرح جھلستی ہے۔
کرامت نہایت محبت سے اپنے بنگالی ساتھیوں کا ذکر کرتے ہیں ، جو اس وقت تک پاکستان کا حصہ تھے، بلکہ شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہم ان کا حصہ تھے۔ دلوں میں بال آرہا تھا لیکن پاکستانی عوام کو ابھی اندازہ نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ سفارتکاری کے ابتدائی دنوں میں پروٹوکول کے دیو نے انھیں نیویارک میں کس طرح آزمایا۔ وہ بھی پڑھنے والا معاملہ ہے۔
نیویارک سے بیونس آئرس۔ سفارت کار کی زندگی بس ایسی ہی ہوتی ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک، ایک زبان سے دوسری زبان کی واقفیت اور پھر سیاست کے معاملات الگ۔ وہ ارجنٹائنا پہنچے تو لاطینی امریکا آمریت کے جھولے میں جھول رہا تھا۔ وہ اس ملک میں سوا برس سے بھی کم مدت رہے۔ لیکن اس دوران ملک میں دو صدر آئے اورگئے۔
یہاں سے ان کا اگلا سفر شروع ہوا اور اسی دوران پاکستان دو لخت ہوگیا۔ وہ جس صدمے سے دوچار ہوئے اس کا ذکر نہایت دل گرفتگی سے کرتے ہیں۔
’’میڈیا کے محاذ جنگ پر لڑنے کے لیے ہم اپنے قلم کے راہوار کو چابک دے رہے تھے۔ اور زبان کی تلوار کو صیقل کر رہے تھے اور یہ عمل تسلسل سے جاری تھا اس کے باوجود کہ دورواطراف سے آنے والی خبریں پریشان کن اور حوصلہ شکن تھیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن یہ خبر مل رہی تھی کہ آج فلاں سفارتخانے میں فلاں فلاں بنگالی افسر بنگلہ دیش کے حق میں پاکستان سے ناتا توڑ کر چل دیا۔ ہمارے 1966 کے فارن سروس گروپ کے سب بنگالی ساتھی اور دوست ایک ایک کرکے داغ جدائی دے رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آہستہ آسہتہ بدن کا ایک حصہ مفلوج ہو رہا تھا یا اس میں سوئیاں چبھوئی جا رہی تھیں۔ اور پھر مجھے منیلا میں تعینات ہوئے بمشکل سات ہفتے گزرے تھے اور ہم تازہ تازہ اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئے تھے کہ ایک صبح فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف پنی صاحب تھے اورفون پر مجھے یہ اطلاع دے رہے تھے کہ ’’ دو گھنٹے بعد ان کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس ہونے والی تھی، جو انھوں نے طلب کی تھی اور وہ اس میں پاکستان سے اپنا رشتہ توڑنے کا اعلان کرنے جا رہے تھے۔
میں ذہنی طور پر تو اس اطلاع کے لیے منیلا قدم رکھنے کے بعد سے تیار تھا لیکن پھر بھی پنی صاحب کے اس برملا اعلان سے جیسے ایک دھچکہ سا لگا۔ْ دیوار میں سے ایک اور اینٹ نکلی جارہی تھی۔ اور جس دیوار کی اینٹیں ایک ایک کرکے نکالی جارہی ہوں۔ وہ کتنی دیر تک کھڑی رہ سکتی تھی۔ لیکن پنی صاحب کی شرافت اور دیانت داری نے اس لمحۂ وحشت میں بھی ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ کہنے لگے۔ ’’ گھنٹے بھر میں وہ سرکاری گاڑی چابیوں کے ہمراہ میرے پاس بھجوا دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ سرکاری رہائش گاہ بھی انھوں نے شام سے پہلے خالی کردی تھی۔‘‘
دنیا میں ایسے سفارتکار کم ہوں گے جنھیں ایسی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا ہو۔ (جاری ہے)
The post ’’روزگارِ سفیر‘‘ (2) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31VTlfz
0 comments:
Post a Comment