’’ ٹھیک ہیں انکل آپ؟ ‘‘ میں نے ان کے بیڈ کے پاس سے گزرتے ہوئے پوچھا اور انھوں نے ایک دردیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، وہ مسکراہٹ جو جانے کتنے درد چیر کر لبوں تک آئی تھی۔ وہاں لیٹا ہوا کوئی بھی شخص ٹھیک کیسے ہو سکتا تھا، انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں جو پہنچتا ہے، وہ شخص ہوتا ہے جو حیات اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے ۔ ساتھ والے بیڈ پر محو استراحت وہ خوبصورت سی بزرگ خاتون مجھے پہلے سے بہت بہتر لگیں، میں انھیں بھی چار دن سے دیکھ رہی تھی۔
اپنی والدہ کے اسپتال میں ہونے کے باعث ہم سارے بہن بھائی اسپتالوں کے کاریڈورز، انتظار گاہوں، انتہائی نگہداشت کے یونٹ اور وارڈوں میں ہی مل رہے تھے۔ وہ جو یہیں مقیم ہیں اور وہ بھی جو ان کی یوں اچانک علالت کا سن کر تکلیف دہ سفر کر کے غیر ممالک سے پہنچے تھے۔ وہ جنھیں ان سب کو اپنے ارد گرد دیکھ کر خوش ہونا تھا، وہ ہر غم اور خوشی سے بے نیاز تھیں اور ہم جو ہوش و حواس میں تھے، ان کے لیے دعا گو اور دل میں خوفزدہ بھی۔
ان برآمدوں اور انتظار گاہوں میں سب ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے خاموش بیٹھ کر زیر لب کچھ نہ کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک ایک کر کے ’’ انتہائی نگہداشت کے یونٹ‘‘ کے اندر جاتے اور واپس آ کر باقیوںکو بتاتے کہ اب والدہ کی طبیعت کیسی ہے اور راہ میں آنیوالے باقی مریضوں کی بابت بھی کچھ نہ کچھ نوید یا وعید ہمارے پاس ہوتی تھی۔ ہم میں سے جو بھی اندر جاتا، وہ واپسی پر یہ بھی آ کر ضرور بتاتا کہ اندر موجود ڈاکٹروں اور نرسوں نے پھر ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ ہم بار بار اور بہت زیادہ اندر جاتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ نرس سے بات کرونگی کہ جو لوگ اتنی دور دور سے دکھ اور تکلیف کی کیفیت میں آئے ہیں، کم از کم ان کو اندر جانے سے نہ روکیں۔
اگلے روز میں گئی تو اپنی باری پر اندر جا کرحسب معمول جائزہ لیا، چند مریضوں کا اضافہ ہو چکا تھا، وہ آنٹی نظر نہیں آئیں۔ والدہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے میں نے نرس سے ان آنٹی کی بابت دریافت کیا، دل میں یقین تھا کہ انھیں حالت بہتر ہونے پر وارڈ میں منتقل کیا جا چکا ہو گا ۔ اس کے انکشاف نے میرے قدموں میںسے رہی سہی طاقت بھی کھینچ لی… ’’مگر کیوں، کیسے؟؟ وہ تو کل بہت بہتر لگ رہی تھیں؟ ‘‘’’ آپ سب لوگوں کی وجہ سے… ‘‘ اس نے کہا، ’’یہاں زندگی اور موت کے مابین جنگ چل رہی ہے میڈم، ہر لمحہ صورتحال بدلتی رہتی ہے۔ چند لمحوں میں بگڑی ہوئی صورتحال سنور جاتی ہے تو چند لمحوں میں بہتر ہوتا ہوا مریض موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے! ‘‘ اس نے بتایا۔
ایک دن پہلے ہی تو ہم نے مایوسی کی اس انتہا کو چھوا تھا جس میں ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ کوئی بھی نرس باہر آکر ہمیں کوئی بری خبر دے سکتی ہے۔ چند منٹ پہلے والدہ باتیں کر رہی تھیں اور اس کے دوران ہی انھیں ایک اور سٹروک ہوا جسکے بعد ان کے جسم کا ردعمل زیرو ہو گیا، ڈاکٹروں اور نرسوں کی دوڑیں لگ گئیں اور ہم مایوسی کی اس اتھاہ تاریکی میں روشنی کی کرن کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کی حالت سنبھلی اور ہمارا اندر جانا مکمل طور پر بین کر دیا گیا تھا۔
’’ آپ سب لوگ… آپ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح آپ غفلت میں ایک بہتر ہوتے ہوئے مریض کو موت کے منہ میں پہنچا دیتے ہیں !! ‘‘ لو جی ، آج تک اس ملک میںقائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کی گئی قاتلانہ سازشوں، لیاقت علی خان کے قتل اور ان کے قاتل کے قتل، بہاولپور میں ضیاالحق سمیت فوج کی اعلی قیادت کا اجتماعی قتل، بینظیر کا قتل… سب کچھ بے تحقیق اور بے ثمر گیا اور اس نے اتنی آسانی سے مجھے قاتل کہہ دیا، بلکہ غافل قاتل کہ جو قتل کرے اور اسے علم بھی نہ ہو۔گھر واپسی کے سفر میں، میں مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس نے اتنا بڑا الزام لگا دیا اور میرے پاس اسے کہنے کو کچھ نہ تھا۔ خود ہی سوچنے لگی کہ صبح سے میرا معمول کیا تھا۔
میں نے صبح اپنے کمرے کی صفائی کے ساتھ ساتھ کھانا بنایا تھا، مشین لگا کر میلے کپڑے بھی دھوئے تھے۔ اس کے بعد شاور لینے سے پہلے غسل خانہ بھی صاف کیا اور ظاہر ہے کہ شاور لینے کے بعد تو میں اتنی مصفا ہو چکی تھی کہ اسپتال جا سکتی تھی۔ تیار ہو کر جوتے پہننے لگی تو وہ ذرا گندے دکھے، گیلا سوکھاکپڑا لے کر انھیں صاف کیا، ہاتھ کھنگال کر نکلی ہی تھی کہ منے صاحب سامنے کھڑے نظر آئے… اپنا ڈائپر تبدیل کروانے کے لیے وہی خوشامدانہ مسکراہٹ منہ پر سجائے، اسے فارغ کیا۔ پچھلے روز جو کپڑے پہنے تھے وہ صاف ہی تھے، انھیں استری کیا ، لباس تبدیل کیا، بال بنائے اور میں اسپتال جانے کے لیے تیار۔ اپنا کمرہ لاک کیا، لاؤنج میں بچوں نے کھلونوں کا میلہ لگا رکھا تھا، غصے میں ، جلدی جلدی انھیں سمیٹا اور گاڑی کی طرف لپکی، بارش کے چھینٹوں سے ونڈ اسکرین گدلی سی لگ رہی تھی، ملازم کو بتاتی تو مزید وقت لگ جاتا اس لیے اسے خود ہی صاف کیا۔
گاڑی سے نکل کر اسپتال کے اندر جانے میں تو پسینے میں بھیگ گئی ، بارش کے چند چھنٹے پڑنے کے بعد جب سورج چمکتا ہے تو یوں بھی زمین کی بھڑاس اپنی گرمی میں شامل کر لیتا ہے۔ ہاتھوں کی ہتھیلیوں تک پسینہ آ رہا تھا۔اسپتال پہنچنے کے بعد اندر اے سی کی خنکی سے پسینہ تو جلد ہی سوکھ گیا۔ میں نے اندر جانے سے پہلے باہر کرسی پر بیٹھ کر اپنے پیروں پر نیلے مومی کور چڑھائے، وہاں موجود بوتل میں Sanitiser کی زیادہ سی مقدار اپنے ہاتھوں پر رگڑی۔
ظاہر ہے کہ یہاں تک آنے میں کتنے ہی دروازوں کے ہینڈل چھوئے تھے، اس سے پہلے گاڑی کا سٹیئرنگ، اپنے ماتھے سے پسینے صاف کیے تھے۔ اس سارے کے دوران میرے ہاتھ میں میرا فون مسلسل رہا تھا کہ جسکے بغیر اب زندگی ادھوری لگتی ہے، باورچی خانے سے لے کر غسل خانے تک… اسپتال کے ان برآمدوں میں بھی اور اندر جاتے ہوئے بھی وہ ساتھ ہی رہتا ہے۔ یہ sanitiser کیا ان سارے جراثیم کو مار دیتا ہے، مار کر ہمارے ہاتھوں سے اتار دیتا ہے؟ میںنے اس لمحے خود سے سوال کیا۔
اندر مریضوں کی بہتری کے لیے وہ درجہ حرارت رکھا جاتا ہے کہ جس سے عام بندہ کانپ جاتا ہے، اتنی ٹھنڈ کہ جی چاہتا ہے اس گرمی کے موسم میں بھی کوٹ پہنا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ اندر جاتے ہی چھینکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، کبھی کھانسی بھی آجاتی ہے ۔ اپنے مریض کے علاوہ باقی مریضوں کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ہم اپنی کھانسی اور چھینکوں کے ساتھ کیا نقصان کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کرلیں ۔ کھانسی کے ساتھ ہم لگ بھگ تین ہزار چھوٹے چھوٹے قطرے، پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا میں چھوڑتے ہیں اور چھینک کے ساتھ لگ بھگ ایک لاکھ قطرے ، سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوامیں پھیلاتے ہیں ۔
کھانسی یا چھینک کا بطور خود کوئی نقصان ہو یا نہ ہو مگر ہم سب اپنے جسموں میں کسی نہ کسی بیماری کے جراثیم لیے پھر رہے ہوتے ہیں، کسی بیماری سے چند دن پہلے صحت یاب ہوئے ہوتے ہیں یا عنقریب مبتلا ہونیوالے ہوتے ہیں ۔ ہمارے گھر میں کوئی ایسا شخص جو کسی بیماری میں مبتلا ہو گا اور ہمارا اس کے ساتھ قریبی واسطہ ہو گا اور ہم اس کی بیماری کے جراثیم بھی ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ہوا سے ہمارے کپڑوں اور فرشوں سے جوتوں کے ساتھ کئی طرح کے جراثیم چپک جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر اس وقت وہ ہونگے جو ہم اسپتال میں کسی مریض کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنے ساتھ لے لیتے ہیں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ان مریضوں تک پہنچاتے ہیں جو اس وقت کمزور ترین قوت مدافعت کے ساتھ اپنی بیماری کے خلاف بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں اس اسپتال میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہمارا اور ہمارے اہل خاندان کا اپنی والدہ کو دیکھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم انھیں مضبوط قوت مدافعت فراہم کریں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم بیرونی دنیا سے جراثیم اپنے ساتھ اٹھا کر، اس مضبوط حفاظتی حصار والے علاقے میں نہ پہنچائیں ۔ ان کی صحت اور زندگی کے لیے ہمارا ان سے دور رہنا، ان کے قریب رہنے سے بہتر ہے ۔ جہاں ہمارے مریض موجود ہوتے ہیں، وہ اس وقت بہترین نگہداشت پا رہے ہوتے ہیں اور صحت کے لحاظ سے بھی ان کا ہم سے زیادہ خیال رکھا جا رہا ہوتا ہے، ہم ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں اگر ہم انھیں ، باقی مریضوں اور اسپتال کے عملے کو بار بار تنگ کریں اور انھیں چڑائیں ۔ آخرکار ان کا کچھ نہیں جاتا، ہمارا اپنا مریض زیادہ خطرے میں ہوتا ہے، ہمارے تنگ کرنے سے عملے کے لوگ چڑیں گے تو نقصان کس کا ہو گا؟؟
یہ سب باتیں ہم سنتے، کتابوں میں پڑھتے اور سیکھتے ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو اس وقت ہم سیکھے ہوئے سارے اسباق بھول جاتے ہیں ۔ آپ سے التماس ہے کہ میری والدہ ماجدہ کی کلی صحت کے لیے ایک بار آیت کریمہ پڑھ کر دعا فرما دیں ۔ شکریہ!!
The post غافل قاتل… appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xlSUgq
0 comments:
Post a Comment