Ads

غریب ممالک اور ماحولیاتی آلودگی کے منفی اثرات

اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے دنیا بھر کے لیے سخت خطرہ لاحق ہو چکا ہے مگر زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مالدار قومیں اپنا راستہ نکال رہی ہیں جب کہ ماحولیاتی آلودگی کا سارے کا سارا ملبہ غریب اور نادار قوموں پر ڈالا جا رہا ہے۔

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل کے انتہا درجہ کی غربت و ناداری پر نگاہ رکھنے والے خصوصی نمایندے فلپ آلسٹن نے پیش کی جن کا کہنا تھا کہ اس انتہائی اہم مسئلہ کے حل کا انحصار صنعتی اور کاروباری اداروں پر ہے جن پر لازم ہے کہ حد سے زیادہ غریب اور نادار لوگوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے جو کہ بظاہر نہیں رکھا جا رہا۔

اس حقیقت میں اب کوئی راز نہیں رہا کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ وہ بڑی بڑی صنعتیں ہیں جو زہریلی گیسیں ضرورت سے بہت زیادہ مقدار میں خارج کرتی ہیں جس کے نتیجے میں دنیا کے درجہ حرارت میں حد سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ برف کے بڑے بڑے ذخیرے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس طرح سمندروں کی سطح میں بھی غیر معمولی طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔

اس طرح سمندروں کے کنارے پر بہت سے ممالک کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ فرانس میں اس حوالے سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں کم سے کم 2 فیصد کمی کی جانی چاہیے تا کہ دنیا کو کسی بڑی تباہی سے بچایا جا سکے لیکن امریکا اس کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر اس سے علیحدہ ہو گیا کیونکہ عالمی درجہ حرارت میں دو درجے کی کمی کے لیے امریکا کو اپنے بہت سے نہایت اہم کارخانے بند کرنا پڑتے جب کہ امریکا اتنا بڑا خسارہ برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے اتنی اہم کانفرنس ناکام بنا دی۔

اقوام متحدہ کے نمایندے فلپ آلسٹن نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ عالمی حدت کم کرنے کی تمام تر ذمے داری نجی سیکٹر پر عائد کر دی گئی حالانکہ اتنے بڑے اور اتنے اہم کام کی ذمے داری دنیا کے بڑے ممالک کے سر رکھی جانی چاہیے تا کہ وہ اس ذمے داری کو بطریق احسن نبھا سکیں کیونکہ نجی سیکٹر کو اس طرح کا ذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا جس طرح سرکاری اور حکومتی سیکٹر پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور عالمی حدت میں اضافے کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور نادار ممالک کا ہو رہا ہے جب کہ امیر اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے پاس اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے ذرایع بھی بہت وافر ہیں اس لیے وہ ماحولیاتی آلودگی کے مضر اثرات سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ جنوبی افریقہ کے نظام کا حوالہ دیتے ہیں جہاں تمام سہولتیں سفید فام اقلیت کے لیے تھیں جب کہ سیاہ فام اکثریت ہر سہولت سے محروم تھی مگر نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اس کی طویل قید و بند کے نتیجے میں کامیاب ہو گئی اور وہاں اقتدار سیاہ فاموں کو نصیب ہو گیا۔

The post غریب ممالک اور ماحولیاتی آلودگی کے منفی اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YfTp7D
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment