Ads

لاڑکانو امر شخصیتوں

اس ملک میں لکھنا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا کتاب چھپوانا دشوار ہے، سندھ میں بے شمار ادیب، شاعر اورمحقق ہیں جن کی کتابیں شایع نہیں ہوسکی ہیں کیونکہ وہ اس کی مالی استطاعت نہیں رکھتے ۔ جس کی وجہ سے ہم کئی اہم تاریخی، ثقافتی، سماجی علمی اور ادبی کتابیں پڑھنے سے رہ گئے ہیں۔

مجھے اس وقت غصہ بھی آتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی لاجواب اور قیمتی کتابیں پکوڑے بیچنے والوں کے پاس ملتی ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ انھیں ملی ہوئی سندیں اور ایوارڈ بھی کباڑی کے پاس بکتے رہتے ہیں ۔

میرے دوست عبدالستار بھٹی جن کا ادبی نام ستار بھٹی تھا، انھوں نے پوری زندگی جدوجہد میں گزاری اور غربت کی چکی میں پستے پستے آخرکار خوشحالی کی زندگی گزارنے لگے۔ انھیں شوق تھا کہ وہ اپنے پیدائشی شہر لاڑکانہ کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی کردار تحریر کے ذریعے عوام تک پہنچائیں، کیونکہ لوگ انھیں اور ان کی خدمات کو ایک ماضی کا قصہ سمجھ کر بھلا چکے تھے۔ معلومات حاصل کرنے میں انھیں جو تکالیف اور پریشانیاں ہوئیں ، ان کا ذکر وہ اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں۔

وہ میرے بچپن کے دوست تھے، ہم لاڑکانہ شہر میں ایک ہی اسکول میں ساتھ پڑھے تھے اورکئی سیاسی، سماجی اور علمی سرگرمیوں میں ساتھ رہے۔ سرکاری نوکری ملنے کے بعد وہ اور میں الگ الگ مصروف ہوگئے مگر جب بھی ملتے تو ادبی، سماجی اور علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے۔ جب ان کے بچے جوان ہونے لگے تو انھوں نے کتاب لکھنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کردی اور پھر وہ لاڑکانہ جاکر لوگوں سے مل کر، شخصیات کے قریبی رشتے داروں کے پیچھے بھاگے، معلومات اکٹھی کرتے رہے جس میں انھیں بڑی مایوسی ہوئی کیونکہ وہ فون پر رابطہ کرتے رہے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے، خط لکھنے کے ذریعے اپنا کام کرتے رہے اور آخر کار وہ لائبریریوں اور سندھیالوجی کی طرف چل پڑے جہاں پر لکھی ہوئی کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔

ان کی پہلی کتاب تھی ’’ لاڑکانہ لیڈروں کی دھرتی‘‘ جسے انھوں نے پہلے سندھی میں اور پھر اردو میں چھپوایا۔ یہ کتاب 1998ء میں شایع ہوئی جو 254 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو لاڑکانو ریسرچ اکیڈمی کی طرف سے شایع کیا گیا تھا اور قیمت 150 روپے رکھی گئی۔ کتاب کا انتساب انھوں نے اپنی ماں نصیب خاتون کے نام کیا۔

اس کتاب میں تقریباً 11 بڑی شخصیات کا ذکر ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، ممتاز علی بھٹو، کامریڈ سوبھوگیان چندانی، پیر حسام الدین راشدی، علی محمد راشدی، خان بہادر، محمد ایوب کھوڑو، سر شاہنواز بھٹو، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، بیرسٹر جان محمد جونیجو اور سندھ ہاری تحریک کے بانی کامریڈ عبدالقادر میوا خان کھوکھر شامل ہیں۔

اس کتاب کو لکھنے کے لیے انھیں کئی مہینے اور دن گھر سے باہر رہنا پڑا اور کئی راتیں جاگ کر لکھنا پڑا، زندگی کے آخری لمحے تک وہ مجھ سے ایک گلہ کرتے رہے کہ انھوں نے لوگوں کے لیے کیا نہیں کیا اپنی جیب سے خرچہ کرکے پروگرام کیے، ایوارڈ دیے مگر انھیں کسی بھی ادارے نے کبھی کوئی ایوارڈ نہیں دیا جب کہ کچھ پرائیویٹ لیول پر ایسوسی ایشن نے ان کی پذیرائی کی مگر حکومت کی طرف سے ان کی کوئی کتاب شایع نہیں کی گئی اور نہ ہی انھیں کوئی تعریفی اسناد دی گئیں۔

’’ لاڑکانو امر شخصیتوں‘‘ بھٹی کی دوسری کتاب تھی جو 2000ء میں شایع ہوئی جس کی قیمت 300 روپے رکھی گئی اور اسے لاڑکانو ریسرچ اکیڈمی ہی نے چھپوایا۔ اس کتاب کو انھوں نے اپنے والد قمرالدین ڈیرو کے نام منسوب کیا۔ اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ ستار بھٹی کے نام سے لکھتے تھے، جب کہ ان کے والد کا تعلق ڈیرو قوم سے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ستار کے ماموں نے اسکول میں داخلے کے وقت اپنے نام اور اپنی ذات سے داخل کروایا۔ بھٹی کے والد بڑے محنتی انسان تھے وہ صبح سے رات دیر تک ایک لانڈری پر کپڑے استری کرتے تھے جس کا معاوضہ انھیں بہت ہی کم تھا، جس سے گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا ہوتا اور فیملی کے افراد کوکبھی کبھی بھوک برداشت کرنی پڑتی۔

کتاب کا پیش لفظ انھوں نے خود ہی لکھا تھا ، کتاب کے لیے تصاویر اور معلومات کے لیے انھیں کئی گھنٹے لوگوں کے دروازے پر کھڑا ہونا پڑا تھا، شخصیات کی اولاد رشتے دار تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ خط کا جواب، ایس ایم ایس کا جواب، فون کا جواب نہیں ملتا تھا مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر انتہائی اہم کتاب لکھ ڈالی جو ہمارے لیے اور آنے والے نوجوانوں کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں شامل کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کی معلومات کہیں بھی نہیں ملتی۔ اس کتاب کو لکھ کر انھوں نے تاریخ کو محفوظ کرلیا ہے۔

اس کتاب میں شامل 123 شخصیات کا تعلق لاڑکانہ سے ہے جس میں کئی لاڑکانہ میں پیدا ہوئے اور کئی دوسرے شہروں سے آ کر یہاں بسے اور لاڑکانہ کی زرخیز مٹی میں رہ کر اس کا پانی پی کر اپنی صلاحیتوں سے اپنے اپنے شعبوں اور پروفیشن میں گرانقدر خدمات انجام دیں، اپنے ٹیلنٹ کا استعمال کرکے نام کمایا۔ان شخصیات میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہندو ہیں اور وہ ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے اورکچھ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان سے پاکستان آئے اور اردو بولنے والے ہیں، مگر ان کی لاڑکانہ، سندھ اور پاکستان سے محبت قابل رشک ہے۔

لاڑکانو امر شخصیتوں 450 صفحات پر مشتمل ہے جس میں بھٹی نے اپنی فیملی کا بھی تھوڑا سا تعارف دیا ہے۔ اس کتاب اور دوسری کتابوں کو مرتب اور چھپوانے میں مجھ سے ہمیشہ مشورے لیتے رہتے تھے اور جب وہ لاڑکانہ جاتے تو وہاں اپنے اور میرے دوست منظور لاڑک کے ساتھ جگہ جگہ گھومتے رہتے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے گرمی اور سردی میں کبھی بھی تھک کر نہیں بیٹھے۔ اس کے علاوہ ان کے مددگاروں میں ان کی شریک حیات حمیدہ بھٹی بھی رہی ہیں۔

یہ کتاب اور لاڑکانو لیڈرن جی دھرتی خاص طورپر ایک اہم تاریخی دستاویز ہے جس کو حکومت یا ضلع انتظامیہ دوبارہ شایع کروائے اور سندھ کی ہر لائبریری میں رکھے جسے پڑھ کر لاڑکانہ کی شخصیات پر پی ایچ ڈی کرنے والے ترجیح دیں گے۔ ان کتابوں کو سرکاری طور پر سرپرستی حاصل ہونی چاہیے اور بھٹی کے لیے حکومت سندھ اور لاڑکانہ انتظامیہ کی طرف سے بعد ازمرک انعام دینے کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں پی پی پی کے بلاول بھٹو کو دلچسپی لینی چاہیے۔

کتاب میں موجود کچھ شخصیات کا ذکر کرنا ضروری ہے جس میں نواب غیبی خان چانڈیو، نواب نبی بخش بھٹو، کامریڈ جمال الدین بخاری، بشیر خان قریشی، جان محمد عباسی، حاجی غلام حسین انڑ، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، بیگم نصرت بھٹو، بیگم ڈاکٹر اشرف عباسی، قاضی فضل اللہ، اختر علی جی قاضی، جسٹس دیدار حسین شاہ، مہتاب اکبر راشدی، محسن بھوپالی، جمال ابڑو، مسلم شمیم، کامریڈ شانتا بخاری، عابدہ پروین، صلاح الدین تنیو، ڈاکٹر ایاز حسین قادری، ذوالفقار قادری، قربان علی بگٹی وغیرہ شامل ہیں۔

میں سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ اور بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھٹی کی تیار کتاب ’’فن و ادب کے افق پر‘‘ کو چھپوا کر اردو پڑھنے والوں کو ایک اچھی کتاب سے نوازیں اور بھٹی کے لیے ایوارڈ کا اعلان کریں تاکہ اس کی محنت کو سراہا جاسکے ۔

The post لاڑکانو امر شخصیتوں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZWsUnY
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment