Ads

ایک لاوارث ایشو

دنیا میں مختلف مذاہب ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والے کروڑوں میں ہیں۔ مذاہب عموماً عقائد کا ایک مجموعہ ہوتے ہیں اور عقائد انسان کی روحانی ضرورت ہوتے ہیں لیکن عقائد بھی کچھ نہ کچھ مادی جواز رکھتے ہیں اور انسانوں کی ذہنی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔

دنیا کے بڑے مذاہب میں ہندو دھرم بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے ہندو دھرم کے اعتقادات کو مزاح کے شاہکار بنا دیا گیا ہے۔ آج کی دنیا میڈیا کی دنیا ہے اور میڈیا انسان کے ذہن اور اعتقادات بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے ہم میڈیا کی طاقت ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کی نفسیات کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

آج ہمارے کالم کا موضوع وہ دلچسپ خبر ہے جس کے مطابق بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پچھلے جنم میں سرسید احمد خان تھے۔ یہ دعویٰ بھارتی میڈیا نے کیا ہے جو ساری دنیا میں مذاق بن گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ دیوی دیوتاؤں کی تاریخ بن گیا ہے۔

یہ بات اگر محض ایک چلتی پھرتی خبر ہوتی تو اس پر ہنس کر خاموش رہا جاسکتا تھا لیکن اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے ایک مکمل رپورٹ بھی تیار کرلی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سرسید احمد خان اپنے دوسرے جنم میں نریندر مودی بن کر آئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس رائے یا عقیدے میں امریکا کی رائے بھی شامل ہے۔

امریکی شہر سان فرانسسکو میں ایک ریسرچ سینٹر قائم ہے جو انسان کے مرنے کے بعد روح کے دوسرے جسم میں منتقل ہونے سے متعلق ریسرچ کرتا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق اس ریسرچ سینٹر نے دنیا بھر کے دو سو ملین لوگوں پر ریسرچ کی ہے اور پتا لگایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پچھلے جنم میں کیا تھے اور کون تھے۔ جہل کسی خاص ملک و ملت سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ معاشرے کی دین ہے جو کم علمی کا نتیجہ ہوتی ہے ہمارے ملک میں بھی باباؤں ، عاملوں ،کاملوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو اس قسم کی خرافات اگلتی رہتی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد ان ملاؤں ، باباؤں کی باتوں پر یقین کرتی ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی اپنے پہلے جنم میں سرسید احمد خان تھے اور سرسید احمد خان ایک صاحب علم اور ترقی پسند انسان تھے اگر ان کا یہ دوسرا جنم ہے تو یہ جنم نریندر مودی کی شکل میں کیوں ہوا جو ایک انتہائی کٹر مذہب پرست ہے۔

ہندو دھرم میں بڑی عجیب و غریب رسمیں ہیں جو انسانی عقل سے بالا تر ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ ان رسموں پر ہزاروں نہیں لاکھوں عوام عمل کرتے ہیں اور پورے اعتقاد سے عمل کرتے ہیں مثلاً بھارت کا ایک دریا ہے جس کا نام گنگا ہے اس دریا کے حوالے سے یہ عقیدہ بہت مقبول ہے کہ اس دریا یعنی گنگا میں نہانے والوں کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ آج ہمارا مقصد نریندر مودی کے حوالے سے سرسید احمد خان کے ذکر پر اظہار خیال نہیں تھا کیونکہ اس قسم کی غیر عقلی خبریں روزانہ اخباروں میں چھپتی ہیں۔

کسی بھی منفی یا مضحکہ خیز خبر کے اندر سے مثبت اور انسانوں کی مجموعی بھلائی کے پہلو تلاش کرنا ایک دانش مندانہ اور انسان دوست رویہ ہے ۔ نریندر مودی ماضی میں ایک مشہور قاتل رہا ہے، آج بھی گجرات کے حوالے سے جب مودی کو دنیا یاد کرتی ہے تو لعنت ملامت ہی کرتی ہے۔ دنیا میں ایسے مذاہب بھی ہیں جو انسانوں کو بھائی چارے کا سبق دیتے ہیں اس حوالے سے انسانوں کو کچھ بنیادی حقائق پر غور کرنا اور سمجھنا چاہیے۔

انسان کی پیدائش میں اس کا کوئی دخل ہوتا ہے نہ اس کی مرضی شامل ہوتی ہے وہ جس گھر میں جس خاندان میں پیدا ہوتا ہے جیسے جیسے اسے ہوش آتا جاتا ہے وہ اس گھر اس گھر کے رسم و رواج اپناتا جاتا ہے اور اسی ماحول میں پل بڑھ کر وہ اپنے گھر اپنے خاندان کا حصہ بن جاتا ہے اگر وہ کسی ہندو گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو وہ ہندو بن جاتا ہے اور ہندوؤں کے رسم و رواج کو اپنا لیتا ہے اگر وہ کسی عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو وہ عیسائی مذہب اور عیسائی رسم و رواج کو اپنا لیتا ہے۔

اسی طرح اگر وہ کسی سکھ گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو اس میں وہ تمام خوبیاں اور خرابیاں جمع ہوجاتی ہیں جو سکھوں کے معاشرے میں موجود ہیں۔ انسان اپنی پیدائش کے ساتھ یہ اچھائیاں اور برائیاں نہیں لاتا وہ اپنی پیدائش میں ایک معصوم اور بے فرقہ انسان ہوتا ہے، اس کے معاشرے اس کے مذہب میں جو اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں جیسے جیسے بچہ بڑا ہونے لگتا ہے وہ ساری خوبیاں اور خرابیاں اس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔

آج وہی معصوم انسان مختلف حوالوں سے تقسیم ہوکر ایک دوسرے کو قتل کر رہا ہے۔ ایک دوسرے سے نفرت کر رہا ہے جس کی بڑی اور واحد وجہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہے۔ آج کا اخبار میرے سامنے رکھا ہے جب میں نے اس پر نظر ڈالی تو انسانی تقسیم کے وہ بھیانک نتائج کا خوف میرے ذہن پر طاری تھا۔

ایک خبر کے مطابق ’’ایران کا طے شدہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کا اعلان، سعودی اور امریکی فضائیہ کی جنگی مشقیں۔‘‘ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کیے ہوئے معاہدے کے تحت ایران ایک وقت میں 300 کلو گرام تک افزودہ یورینیم رکھ سکتا ہے۔ ایران کا اس حوالے سے اعلان کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اس خلاف ورزی کو روکنے کے لیے دھمکی کے طور پر سعودی اور امریکی فضائیہ کی جنگی مشقیں ہو رہی ہیں دوسری خبر کی سرخی کچھ یوں ہے ’’بھارتی ظلم تھم نہ سکا مزید دو کشمیری شہید، گاڑی پر فائرنگ ایک میجر تین اہلکار زخمی۔‘‘

یہ چند خبریں ہیں یورینیم دراصل وہ جز ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ساری خبریں انسانوں کی تقسیم کے المناک نتائج ہیں۔ ابن آدم کو درجنوں بلکہ سیکڑوں حصوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا دشمن بنادیا گیا ہے۔ یہ دشمنی گھرانوں سے محلوں تک محلوں سے شہروں تک ملکوں سے ملکوں تک پھیل گئی ہے۔ اس کو روکنے کی کوشش بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرکے ہی کی جاسکتی ہے لیکن بین المذاہب ہم آہنگی ایک لاوارث ایشو ہے۔

The post ایک لاوارث ایشو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2ZLMGCO
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment