پرویزحمید صاحب بھی قافلۂ اجل کے ہمسفر بن چکے ہیں، وہ ان محنت کش صحافیوں میں سے تھے، جو زندگی بھر لکھتے رہتے ہیں اور ایک روز سنگل کالمی خبر میں سما کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
روزانہ وہ اپنے اسکوٹر پر گھر سے نکلتے اور رات گئے شہر کی ساری رنگا رنگ محفلیں بھگتا کر ہی واپس پہنچتے۔ سمن آباد، گلبرگ، کوئنز روڈ، مال روڈ پر اورکبھی اس حال میں کہ سڑک سے ہٹ کر اسکوٹرکو کک پرکک مار رہے ہیں، وہ اسٹارٹ نہیں ہو رہا۔ پرویز حمید صاحب سے پہلی ملاقات سمن آباد لاہور میں ہفت روزہ ’’ندا‘‘ کے دفتر میں ہوئی؛ گورا چٹا رنگ، گول مٹول صفا چٹ چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، درمیانہ قد، ڈیل ڈول پہلوانوں جیسا، بال سفید مگردرمیان سے سر ’’فارغ البال‘‘ سردیوں میں سر پرچترالی ٹوپی ان کا ٹریڈ مارک تھی۔
بھٹو صاحب اور فیضؔ صاحب کے بڑے مداح تھے۔ ان کی وساطت سے پیپلزپارٹی سے وابستہ جن شخصیات سے راہ ورسم پیدا ہوگئی، ان میں محمد حنیف رامے بھی تھے۔ پرویز حمید صاحب کی ان سے خاصی بے تکلفی تھی۔ پھر ایک روز وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے، جو دفتر کے عقبی گلی میں تھا۔ انھوں نے مجھے اپنے بچوں ارشد، عادل اور بیٹی سے ملوایا، جو سب کے سب ان دنوں اسکول میں پڑھتے تھے اور پھر بڑی شفقت سے مجھے کہا، ’’ آج سے یہ تینوں آپ کے شاگرد ہیں۔‘‘ گھر آنا جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کے بچے بھی انھی کی طرح ہنس مکھ، خوش اخلاق اورملنسار ہیں۔
روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے دفتر میں بھی ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ پرویزحمید صاحب نے اپنی وضعداری برقرار رکھی۔کوئی دفتر کے مالی حالات کے بارے میں پوچھتا تو مسکراتے اور کہتے، ’’بندہ پرور، آپ کے سامنے ہی ہیں سارے حالات۔‘‘ ’’بندہ پرور‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا، مساوات کا دفتر ان دنوں پنجاب اسمبلی کے عقب میں ایک پیلی سی بلڈنگ میں ہوتا تھا۔ ایک روز ان سے ملنے کے لیے پہنچا۔ وہ نیوز روم میں بیٹھے تھے کہ چار پانچ نوجوان سب ایڈیٹر سے اندر آئے اور آتے ہی ان کے سامنے پھٹ پڑے، کہ فلاں شعبہ کو تنخواہ مل چکی، ہمیں اکاونٹنٹ ٹرخا رہا ہے، پرویزحمید نے پہلی مرتبہ نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اورکہا، ’’بندہ پرور تنخواہ تو ابھی مجھے بھی نہیں ملی، پرویز حمید صاحب نے تمام بڑے صحافتی اداروں میں کام کیا، لیکن دفتروں کی اندرونی سیاست سے خود کو ہمیشہ الگ رکھا، ادھر دفتر کا وقت ختم ہوا، ادھر ان کاا سکوٹر اسٹارٹ ہوا اور وہ سڑک کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔
پرویزحمید صاحب کی فعال صحافت کا آخری دور مجید نظامی صاحب کی زیر ادارت ’’نوائے وقت‘‘ میں گزارا، جہاں میں بھی تھا۔ ان کی شگفتہ مزاجی کی وجہ سے ماحول خوشگوار رہتا تھا۔ صرف سیاست نہیں، شوبز میں بھی ان کے تعلقات کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ محمد علی زیباکی جوڑی سے ان کو دلی لگاو تھا۔ ایک روز ان سے انٹرویو کے لیے ہم ویسپا پرکوئنز روڈ سے گلبرگ لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ سخت گرمی کے دن تھے۔ راستے میں پرویز حمید صاحب نے ایک دوبار اپنے سرکو ہلکا سا جھٹکا دیا، تو مجھے احساس ہوا کہ غنودگی کے ساتھ ان کی آنکھ مچولی شروع ہو چکی ہے۔ سڑک پر مجھے ایک جگہ کافی مقدار میں موبل آئل گرا ہوا نظر آیا۔
میرے سر میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ میں نے چیخ کر کہا، پرویز صاحب، آگے دیکھیں؛ لیکن دیر ہو چکی تھی۔ یہ عین وہی لمحہ تھا، جب انھوں نے سر کو جھٹکا تھا۔میری چیخ پرانھوں نے اچانک جو بریک لگائی تو اسکوٹر اس وقت موبل آئل کے بالکل اوپر تھا۔ بریک لگتے ہی اسکوٹر ہمارے نیچے سے نکل کر پھسلتا ہوا فٹ پاتھ کی طرف جا رہا تھا، اور اس کے پیچھے پیچھے میں اور پرویز حمید صاحب بھی رواں دواں تھے۔ ’’بندہ پرور بریک تو لگائی تھی‘‘ پرویز حمید صاحب نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی، چونکہ خراشیں ان کو بھی کافی آئی تھیں۔
میرا خیال تھا، اب انٹرویو کے لیے جانا مشکل ہے؛ مگر انھوں نے کپڑے جھاڑے، اسکوٹر کو اٹھایا، اور کک لگاتے ہوئے کہا، ’’چلتے ہیں، علی بھائی کا گھر اب زیادہ دور نہیں۔‘‘ اور کچھ ہی دیر میں ہم علی بھائی کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ انھیں معلوم ہوا کہ ابھی ہم ایک حادثہ سے بال بال بچے ہیں، تووہ ہم سے بھی زیادہ پریشان ہو گئے، کہنے لگے، حمید صاحب، یہ آپ نے کیا کیا، آج رہنے دیتے، اس حالت میں خواہ مخواہ تکلیف کی۔‘‘
پرویز حمید صاحب کے چہرے پر وہی ان کی ملائمت آمیز مسکراہٹ ابھری، لیکن وہ کچھ بولے نہیں اور علی بھائی کی طرف دیکھتے رہے۔ علی بھائی کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، بولے، ’’زمانہ بدل گیا، آپ بالکل نہیں بدلے حمید صاحب۔‘‘ نوائے وقت میں پرویز حمید صاحب کے ساتھ جو وقت گزرا، اس کی کھٹی میٹھی یادوں ایسی ہیں کہ ایک دو یا چند کالموں میں نہیں سما سکتیں، یہ تو کبھی اپنی یادداشتوں میں ہی لکھوں گا۔
بہرحال یہ وقت بھی دبے پاوں گزر گیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ چھوڑا تو پرویز حمید صاحب کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ اس وقت لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اب یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکا۔اس کے بعد ان کو آخر ی بار ہی دیکھا۔ پریس کلب میں پولنگ ہو رہی تھی۔ ووٹ ڈال کر نکلا تو دیکھا کہ باہر ایک کرسی پر اکیلے بیٹھے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کافی بیمار رہے ہیں۔ چہرے پر نقاہت کے آثار اب بھی موجود تھے۔ ادھر ادھر گھوم پھر کر دوبارہ ان کو دیکھنے کو جی چاہا، واپس آیا تو ان کی کرسی خالی تھی۔ پھر فیس بک کے ذریعہ پتہ چلا کہ وہ اسپتال میں داخل ہیںاورکافی بیمار ہیں۔ میں نے ارشد کو فون کیا۔ کہنے لگا، ابو کی حالت سخت خراب ہے، لیکن ہوش میں آنے پر دوست احباب کو پہچان لیتے ہیں۔ آپ آ جائیں۔
سوچا کہ ان کی طبیعت کچھ سنبھل جائے تو حاضر ہوں گا؛ ادھر ان کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ چند روز بعدارشدکاایس ایم ایس ملا کہ ’’ انکل ابو رخصت ہو گئے ہیں۔‘‘ دل کو ایک دھکا سا لگا۔ ارشد کہنے لگا،’’میں نے ابوکو آپ کے آنے کے بارے میں بتایا تھا۔ چند روز میں آپ نہیں پہنچ پائے توانھوں نے پوچھا بھی کہ اصغر آیا نہیں۔ میں نے کہا، آ جا ئیں گے‘‘ ؛مگر اس جہان فانی میں ان سے ملنااب قسمت میں نہ تھا۔ لاہور کے قبرستان میانی صاحب کے ایک گوشے میں ان کی لحد پر مٹی ڈالتے ہوئے میں سوچ رہا تھا،
منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو
ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے
The post درویش صحافت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YlFtcg
0 comments:
Post a Comment