وہ مختلف سماجی تنظیموں ’این جی اوز‘ لوکل کونسل اور سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر انسانی وسائل کی نشو ونما، قرضے اور بچت قدرتی وسائل میں تیکنیکی مدد اور غریبوں کی بنیادی اور جسمانی مدد کے لیے کوشاں ہیں۔ ’بی آر ایس پی‘ (بلوچستان رولر سپورٹ پروگرام) نے چھوٹے پیمانے پر غریبوں کی بنیادی ضروریات کو دیکھتے ہوئے جدوجہد کی جس کے سبب فصلوں کی پیداوار میں اضافہ اور مزدوروں کے ذریعہ معاش میں بہتری اور اقتصادی مسائل، قحط اور بیماریوں کے مسائل میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔
یہ ذکر ہے ’بلوچستان رولر سپورٹ پروگرام‘ (بی آر ایس پی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نادر گل بڑیچ کا، جنہیں بلوچستان کے مختلف مسائل کا بخوبی ادراک ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں اپنی خدمات کے بعد ’بی آر ایس پی‘ کے چیف ایگزیکٹو تعینات ہوئے اور اپنے پیش رؤوں اختر حمید خان اور شعیب سلطان کے فلسفے پر چلتے ہوئے انہوں نے ’بی آر ایس پی‘ کو صوبے کا ایک متاثر کن ادارہ بنایا۔
ان کی سرپرستی میں ’بی آر ایس پی‘ صوبے کے ایک ضلع سے کام 27 اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ’بی آر ایس پی‘ نے صوبے کے 25 لاکھ گھرانوں کو مستفید کیا۔ 1983ء سے یہ ادارہ ’پاک جرمن سلیف ہیلپ پروجیکٹ‘ کے نام سے کام کر رہا تھا، تاہم 1991ء میں اس ادارے کو ’بلوچستان رولر سپورٹ پروگرام‘ میں تبدیل کر دیا گیا، اس حوالے سے نادر گل کہتے ہیں کہ بلوچستان کے 27 اضلاع کی دیہی ترقی کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ دیہی ترقی میں ’بی آر ایس پی‘ کا اہم کردار ہے اور ہم نے حکومتی اداروں کی معاونت بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں بے شمار حکومتی منصوبے کام یاب ہوئے۔
نادر گل کہتے ہیں کہ بنیادی طورپر اس ادارے کے کام کے طریقہ کار لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق منظم کرنا، اپنی مدد آپ کے تحت تنظیمیں قائم کرنا اور مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنا ہے، بنیادی سہولتوں کی عدم دست یابی کے سبب بلوچستان افریقا کے کسی انتہائی پس ماندہ علاقے کا منظر پیش کرتا ہے، یہاں جانور اور انسان ایک ہی تالاب پر پانی پیتے نظر آتے ہیں۔
ایسے میں ہم اس صوبے کے عوام کے حالات زندگی بدلنے کے لیے مرکزی اور لوگوں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں حکومتی اورغیر حکومتی اداروں سے منسلک کرنے کے لیے مدد کرتے ہیں، تاکہ ان اداروں کی جانب سے پہنچائی جانے والی سہولتیں نچلے طبقے تک پہنچ سکیں۔ انہیں معاشی حالات بہتر کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔
بنیادی طورپر ’بی آر ایس پی‘ کا کام اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنا، صلاحیت واستعداد بڑھانا اور مسائل انہی کے ذریعے حل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ انہیں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے جوڑنا، تاکہ ان اداروں کے ثمرات نچلے لوگوں تک پہنچ سکیں، اپنی مدد آپ کے تحت قائم اداروں کا مقصد لوگوں کی غربت میں کمی لانا ہے، انہیں بچت کا ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کے سرمائے میں اضافہ گھر اور گاؤں کی سطح پر منظم منصوبہ بندی کرانا شامل ہے، تاکہ غربت کی شرح میں کمی لائی جا سکے۔
’بی آر ایس پی‘ کے تحت سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے تعاون کے حوالے سے نادر گل بتاتے ہیں کہ مختلف محکموں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے اور ان کے عملی کام میں بھی مدد کی جاتی ہے۔ ہم اس حوالے سے اب تک بے شمار اسکیمیں مکمل کر چکے ہیں۔
نادر گل کا کہنا ہے کہ ’بی آر ایس پی‘ نے بلوچستان میں ترقیاتی امدادی منصوبوں کو عالمی اداروں کے تعاون سے مکمل کیا اور حکومت بلوچستان کے ساتھ بھی کئی منصوبوں میں شراکت داری کی۔ ہم نے اب تک صوبے بھر میں 18 سو پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔ پہلے ہم 15 سے 25 ہزار گھرانوں پر مشتمل ایک آرگنائزیشن بناتے ہیں اور اس کے ساتھ یونین کونسل کے تمام دیہات پر مشتمل لوکل اسپورٹس آرگنائزیشن قائم کی جاتی ہے، یہ مسائل کی نشان دہی اور پھر ان کے حل کے لیے درکار وسائل کی تلاش کے طریقے سکھاتا ہے۔
نادر گل بڑیچ بتاتے ہیں مجھے 1995ء میں PHE (پبلک ہیلتھ اینجینئرنگ) میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی پوسٹ کی آفر ہوئی، یوں دو سال تک PHE میں کام کیا، پھر ایک سال کی رخصت لے کر ’انٹرنیشنل یونین فور کنزرویشن آف نیچر‘ (آئی سی یو ایل) آگئے اور پھر PHE سے استعفا دے کر پانچ سال تک ’آئی سی یو ایل‘ میں صوبائی سربراہ کی حیثیت سے کام کیا، اس دوران دو سال اسلام آباد میں رہا، پھر اقوام متحدہ نے باہر کے ممالک کی آفر کی، جسے میں نے قبول نہیں کیا، میں نے کہا کہ پاکستان میں رہ کر اپنے لوگوں کی خدمت کروں گا، پھر 2007ء میں ’بی آر ایس پی‘ (بلوچستان رولر سپورٹ پروگرام) کا حصہ بن گیا، دن رات محنت کر کے اسے صوبے کا ایک بڑا ادارہ بنا دیا۔
مجھے غریبوں کی مدد کر کے دلی خوشی ہوتی ہے، بلوچستان میں کم و بیش سات لاکھ گھرانے انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، میں ایسے لوگوں کی مدد کے لیے کوشاں ہوں۔ نادر گل کی شادی کاسی قبیلے میں ہوئی، دو بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ بڑا بیٹا ایف سی کالج لاہور اور چھوٹا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، بیٹی اسلام آباد میں ہے۔ مجھے احساس ہے کہ میں ملازمتی مصروفیات کے سبب اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا۔ ملازمت کی وجہ سے زیادہ تر ہوٹلوں کے کھانے کھائے، لیکن گھر کے کھانے اچھے لگتے ہیں، شریک حیات اچھے کھانے بناتی ہیں۔
بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے نادر گل نے بتایا کہ’ بی آر ایس پی‘ نے صوبے میں تعلیم، صحت، ماحولیات، قدرتی وسائل کی انتظام کاری اور تحفظ وبہتر استعمال، شجرکاری اور دیگر شعبوں میں بہت کام کیا ہے۔ ایسی تمام تنظیمیں اپنے آپ کو سوشل ویلفیر میں باقاعدہ رجسٹرڈ کراتی ہیں اور ان کا الگ الگ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے۔ ’بی آر ایس پی‘ نے27 اضلاع میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ کام کیا ہے، جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔ ’بی آر ایس پی‘ کا ایک اور اہم ترین شعبہ ’ہیومن ریسوریس ڈویلپمنٹ‘ ہے، جو صوبے کے مختلف علاقوں میں غربت سروے کرتی ہے، جس میں غریب ترین لوگوں کی نشان دہی ہوتی ہے بعد میں انہیں اپنا کاروبار کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے پر بلاسود قرضے دیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اس عمل سے اب تک 27 ہزار لوگ ہنر مند ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر سات ہزار 640 افراد کو قرض دیا جا چکا ہے۔
’بی آر ایس پی‘ ژوب قمر دین کاریز قلعہ سیف اﷲ مرغہ فقیر زئی کے مقام پر آل سیزن مارکیٹ بنائی جا رہی ہے، جس میں لوگوں کو دکانیں دی جائیں گی۔ چمن میں 30 دکانوں پر مشتمل ٹریڈ سینٹر بھی بنایا گیا ہے، یہ مرکز پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے حوالے کیا گیا ہے، جس کے قیام کا مقصد پاک افغان تجارت کو فروغ دینا ہے۔ چمن میں خواتین کو ہنر مند بنانے کے لیے بھی ایک مرکز قائم کیا گیا، چھوٹی سطح کی کمیونٹی کے لیے اسکیمیں بھی دی گئی ہیں، جن سے ایک لاکھ 15 ہزار 500 گھرانے استفادہ کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سیلاب سے متاثرہ 10 ہزار افراد کو شیلٹر دیے گئے۔ راشن پروگرام سے 5 لاکھ 10 ہزار افراد مستفید ہو رہے ہیں، اب تک 11 سو 23 واٹر اسکیموں کے ذریعے 10 لاکھ افراد کو پینے کا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ 621 اسکول ومدارس اور 752 ڈسپنسریاں، اور بنیادی صحت کے مراکز قائم کیے گئے۔ چار ہزار معذور افراد میں ’پہیا کرسی‘ اور دیگر سامان تقسیم کیا گیا۔
’بی آر ایس پی‘ نے گورنمنٹ سسٹم کو مضبوطی اختیارات و فرائض کے لیے کونسلرز کی ذمہ داریوں پر دو اضلاع میں تربیتی سینٹر بھی قائم کیے ہیں اور سات ہزار سے زائد بلدیاتی نمائندوں کو تربیت فراہم کی ہے۔ حکومت ’بی آر ایس پی‘ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ہمیں حکومت بلوچستان کی جانب سے 50 کروڑ روپے گرانٹ ملتی ہے، دوسری امداد اس کے علاوہ ہے، ہمارے یہاں تمام نظام کمپیوٹرائزڈ ہے، جس کے ذریعے ہر چیز کو منظم رکھا جاتا ہے۔
نادر گل بڑیچ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی محنت مشقت میں گزری، اُن کے والد محمد صادق کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا، لیکن ان کی طویل علالت کے سبب ان کا گھرانہ معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا۔ دوران تعلیم ہی چھوٹی موٹی ملازمتوں کا سلسلہ رہا ، تعلیم بھی جاری رکھی اور 1993ء میں ماسٹرز کیا، پھر پلاننگ ایسوسی ایشن میں 1993ء میں ملازمت مل گئی، سات بہن بھائیوں میں ان سے بڑی ایک بہن ہیں، چناں چہ انہوں نے بڑے ہونے کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ آج ان کی بڑی بہن کو آپریٹو سوسائٹی میں ’ڈپٹی رجسٹرار‘، جب کہ چھوٹی بہن ڈاکٹر ہیں، ایک بھائی ’یو این‘ سے منسلک ہیں، جب کہ دوسرے الیکٹریکل انجینئر ہیں۔
The post اپنے ملک میں کام کرنے کی خاطر اقوام متحدہ کی پیش کش ٹھکرا دی، نادر گل appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Xg81T9
0 comments:
Post a Comment