Ads

زنبیل والے

اردو ادب کی کلاسیکی داستانیں عجب دل آفرینی اور سحر پذیری کی حامل ہیں۔ الف لیلیٰ ہزار داستان ، داستانِ امیر حمزہ ، طلسم ہوشربا، طلسم نور افشاں، قصہ چہار درویش،آرائشِ محفل قصہ حاتم طائی وغیرہ اپنے پڑھنے والے کو ایک عجیب سحر انگیز خیالی دنیا میں لے جاتی تھیں اور لے جاتی ہیں۔

خیر اب تو مطالعے کے رجحان میں مایوس کن حد تک کمی آجانے کی وجہ سے نئی نسل بس شاید ان داستانوں اور ان کے کرداروں کے ناموں سے ہی کسی قدر واقف ہوگی پڑھنے کا اتفاق تو باید و شاید ہی کسی کسی کو ہوا یا ہوتا ہوگا۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ اردو ادب چاہے ہزار رنگ بدلے ان طلسمی داستانوں کے کھینچے ہوئے دائرے سے باہر نہیں آسکتا۔ ان ہی قدیم داستانوں کو مغربی دنیا کے ذہین نقالوں نے اپنے اپنے انداز میں مشرف با انگریزی کرکے بڑا نام بنایا اور دام بھی کمائے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک انگریزی فلم سیریز ایونجرزکا بڑا چرچہ رہا جوکامکس پر بنائی گئی ہالی وڈ کی ایک فلم سیریز ہے۔ اس کا آخری حصہ پچھلے ماہ اینڈ گیم کے نام سے ریلیز ہوا اور اتنا کامیاب ہوا کہ دنیا بھر میں کمائی کے اعتبار سے ہالی وڈ کی دوسرے نمبر کی فلم قرار پایا۔ میں نے اس سیریز کی چند فلموں کو دیکھا اور احباب سے کہا کہ یہ تو طلسم ہوشربا کو سائنس کا تڑکہ لگا کر اور جدیدیت کا بہروپ دے کر فلمایا گیا ہے تو دوست احباب بڑے خفا ہوئے اور گفتنی و ناگفتنی باتیں کرنے لگے۔ تنگ نظری اور احساس کمتری کے طعنے دینے لگے چنانچہ ہم چپ رہے ہم ہنس دیے منظور تھا پردہ ترا۔

بات ذرا دور نکل گئی تو آمدم برسرِ مطلب جن لوگوں نے طلسم ہوشربا اور داستانِ امیرحمزہ وغیرہ پڑھی ہیں، چاہے اصل زبان یعنی قدیم ودقیق اردو میں یا مرحوم مقبول جہانگیر کی سلیس تلخیص کی صورت میں تو وہ ان داستانوں کے مشہور ترین کردار عمرو عیار سے ضرور واقف ہوں گے۔ عمرو عیار کا کردار ان داستانوں کا دلچسپ ترین اور اہم ترین کردار ہے۔ اس کردار کی کچھ صفات اور خصوصیات ایک اور مشہورِ زمانہ جاسوسی کردار جو ابنِ صفی مرحوم نے تخلیق کیا تھا عمران سیریز والے علی عمران کے کردار میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ گر چہ دونوں کرداروں میں غضب کی مشابہت ہے لیکن دونوں ایک دوسرے سے بیحد مختلف بھی ہیں اور یہ ابن صفی مرحوم کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔ تو جناب !عمرو عیار کے پاس ایک عجیب سی چیز ان داستانوں میں دکھائی گئی جسے زنبیل کہتے ہیں۔

زنبیل ایک ایسی چھوٹی سی تھیلی تھی جس میں دنیا جہان کی چیزیں ،مثلا مال و دولت زر و جواہر ڈالتے چلے جائیں وہ کبھی نہیں بھرتی تھی۔ اور جب عمرو عیار کوجیسی ضرورت ہوتی تو دنیا بھر کی اشیاء اس میں سے نکال لیتا تھا۔ زنبیل کے بارے میں جب پڑھا کرتے تھے تو سوچا کرتے تھے کہ یار مصنف نے ایک خیالی اور طلسمی سی چیز ان داستانوں کی دیگر طلسماتی اشیا کی طرح بنادی ہے۔ عملی دنیا میں ایسی کسی چیزکا ہونا ناممکن ہے یا شاید یہ کوئی استعاراتی سی چیز ہے، لیکن فی زمانہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ہمیں پتہ چل گیا کہ یہ کوئی فرضی چیز نہیں بلکہ اس کا وجود ہے اور یہ عملا وطن عزیز میں زیر استعمال اور رو بہ عمل بھی ہے۔

دیکھیں نا فرض کریں کہ اگر قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے زمانے کے لیے ایک ماہرینِ معاشیات اور ریاضیات کی ایک ہنر مند آڈٹنگ کمیٹٰی بنائی جائے اور انھیں مین فریم یا سپر کمپیوٹرز بھی برائے حساب کتاب دیے جائیں اور کہا جائے کہ بھیا ذرا پکا حساب نکالو اور آڈٹ کرو کہ آغاز سے لیے گئے قرضہ جات ، امداد اور ملکی آمدنی اور ملک وقوم پر لگائی گئی خرچ کی گئی ،کاغذوں میں نہیں بلکہ حقیقی اور دکھائی دینے والی، رقم کا فرق تو ذرا نکالیں تو مجھے یقین ہے کہ اتنا بڑا فرق سامنے آئے گا کہ ایک دفعہ تو میں فریم یا سپر کمپیوٹر بھی زور سے ٹوں ٹوں ضرورکرے گا۔ اب یہ تقریبا اٹھارہ ہندسوں کی رقم کہاں گئی جو فرق میں سامنے آئے گی تو سادہ سا جواب ہے زنبیل میں۔

اب اگر پوچھا جائے کہ وہ زنبیل کہاں ہے اور کس کے پاس ہے تو یہ ہمارا کمال فن ہے کہ بے چارے عمرو عیار کے پاس تو بس ایک ہی زنبیل تھی لیکن ہمارے فرزندانِ قوم تو ایک نہیں کئی کئی زنبیلیں لیے پھر رہے ہیں، تبھی تو یہ ملک جو نعمتوں اور خزائن سے مالامال ہے آج در درکا بھکاری بنا ہوا ہے۔ زنبیلوں والے سارا میلہ لوٹ کر لے گئے اور ابھی بھی تاک میں لگے ہیں کہ کب موقع ملے تاکہ اور مزید زنبیل بھرائی شروع کی جائے۔ ویسے تو چھوٹی بڑی زنبیلیں سب ہی عیاروں کے پاس ہیں لیکن چند طبقات تو اس معاملے یعنی زنبیل بھرائی میں خصوصی مہارت کے حامل ہیں۔

نام کیا لینا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ کون کون سے معشوق ہیں اس پردۂ زنگاری میں۔ اور زنبیل بھرائی میں ان کی مستعدی مہارت اور کمالِ فن اس درجے کا ہے کہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان حضرات والا تبارکو دنیا کے کسی بھی خوشحال ترین ملک میں مثلا امریکا ، یورپی ممالک یا عرب ریاستیں کہیں بھی مطلوبہ ٹولز کے ساتھ چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنی کامل مہارت سے صرف چند برس میں اس ملک کو عالمی بھکاری نہ بنادیں تو کہیے گا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر کمال فن کی انتہا یہ ہے کہ وہ یہ سب کرنے اور اپنی زنبیل بھرنے کے باوجود معزز، بہی خواہان قوم ، درد مند اور مظلوم بھی بنیں رہیں گے۔

کیا بات ہے جی۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ ایک مرتبہ دو آدمیوں نے مل کر کاروبار شروع کیا ایک کے پاس پیسا تھا اور دوسرے کے پاس تجربہ کچھ عرصے کے بعد جب دونوں الگ ہوگئے تو پیسہ لگانے والے کے پاس تجربہ آچکا تھا اور تجربہ کار کے پاس پیسہ۔ تو بلکل اسی طرح جب ہمارے یہ ہنر مندان کسی خوشحال اور معاشی طور پر مظبوط ترین ملک پر چھوڑے جائیں گے اور انھیں تھوڑی سی بھی اسپیس مل جائے گی تو کچھ عرصے بعد وہ ملک کرپشن سے نپٹنے کے اقدامات اور زنبیل بھرائی روکنے کے وسیع تجربے سے لیس ہوچکا ہوگا اور بے چارہ اپنی خوشحالی ہمارے ہنرمندوں کی زنبیل میں ڈال کر بد حال ہو چکا ہوگا۔

وہ ہمی ہیں جو تیرا درد چھپا کر دل میں

کام دنیا کے بدستورکیے جاتے ہیں

تو یہ ہماری ہی ہمت اور حوصلہ اور کسی حد تک سادگی اورمشرقی وضع داری ہے کہ سالوں سے ان سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی،کاروباری اور شعبہ ہائے دیگران سے متعلق زنبیل والوں کو نہ صرف جھیل رہے ہیں بلکہ ان کی زنبیلوں کو اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کو گروی رکھ کر بھر بھی رہے ہیں۔ اچھا زنبیل کی ایک خاصیت تو بتانا بھول ہی گیا طلسمی داستانوں کے مطابق کوئی کتنا بھی بڑا ساحر، جادوگر ،جن،دیو، عفریت، بلا یا زورآور آجائے وہ عمرو عیارکی مرضی کے بغیر زنبیل سے کچھ نکال یا نکلوا نہیں سکتا تھا۔ تو ہمارے حاملینِ زنابیل(زنبیل کی جمع) بھی یہی صفت رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے زورآور بڑے بڑے دعوے کرنے والے مجال ہے کہ زنبیل سے ایک اشرفی بھی نکال سکیں۔ کوشش تو بہت ہو رہی ہے پر دیکھیں کیا گزرے گی قطرے پہ گہر ہونے تک۔

ویسے کچھ خاص امید نہیں ہے کیونکہ یہ زنبیل والے چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے قائل اور اس پر عامل ہیں اور ظاہر ہے کہ جوچیز زنبیل میں چلی گئی تو وہ تو گویا نظروں سے غائب ہی ہوگئی نا اب جو چیز موجود تو ہو پرنظر ہی نہ آئے تو پھر اس کا حصول توکارِ دارد ہی ٹھہرا نا۔ اب یہی راستہ رہ گیا ہے کہ صاحبان، زنبیل کی خوب خوشامد درآمد منت سماجت کی جائے دہائیاں دیں جائیں التجائیں کی جائیں تو شاید وہ رحم کھاکر اپنی زنبیلوں سے کچھ تھوڑا بہت حاتم کی قبر کو لات مار کر عطا کردیں، ورنہ زنبیل والوں سے کچھ مل جانا کچھ نکل آنا تو ایں خیال است و محال است وجنوں کے مصداق ہی ہے۔

The post زنبیل والے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FY7mzR
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment