Ads

بھارت کو افغان حکومت کے راستے پر چلنا چاہیے

پاکستان اور افغانستان دونوں پڑوسی کے علاوہ ہم مذہب بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ سیاسی اختلافات رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خارجی تعلقات میں افغانستان کا بھارت کی طرف جھکاؤ ہے۔

بدقسمتی سے بھارت کا حکمران طبقہ اپنے روایتی اور اقتصادی مفادات کے حوالے سے بھارت کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے بلکہ دنیا جن حوالوں، گروپوں میں بٹی ہوئی ہے، افغانستان کا حکمران طبقہ ہمیشہ پاکستان مخالف گروپ سے زیادہ قریب ہے۔ افغانستان بنیادی طور پر ایک قبائلی ملک ہے ، دوستی اور دشمنی کے حوالے سے افغانستان کی سیاست ہمیشہ سے پاکستان دشمنی پر استوار ہے۔ داؤد کے دور حکومت کے بعد افغانستان میں ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں کی تفریق بھی شدید رہی نور محمد تراکئی کا شمار اس ترقی پسند حلقے سے رہا ہے جو روس سے سیاسی قربت رکھتا ہے۔

اس حوالے سے افغانستان میں بڑی شدید گروہ بندی رہی ہے۔ نور محمد تراکئی کا تعلق روس نواز حلقے سے ہے اس اختلاف کی شدت کا عالم یہ رہا ہے کہ افغان سرزمین اپنے ہی بیٹوں کے خون سے سرخ ہوتی رہی ،اس خون میں نور محمد تراکئی کا خون بھی شامل ہے اس گروپ بندی میں پاکستان کا کردار عموماً غیر جانبدارانہ رہا ہے لیکن افغانستان کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ چونکہ روس نواز گروپ سے رہا ہے اور بھارت اس گروپ کا ایک اہم ملک ہے لہٰذا پاکستان کے افغانستان سے تعلقات عموماً کشیدہ رہے ہیں۔

عمران خان کی کوشش رہی ہے کہ وہ پڑوسی ملکوں سے دوستی رکھے۔اس حوالے سے افغان صدر  ڈاکٹر عبدالغنی کا دورہ پاکستان ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس مشترکہ اعلامیے سے ہوسکتا ہے جو دونوں ملکوں کے سربراہوں عمران خان اور ڈاکٹر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ باہمی اعتماد اور ہم آہنگی پر مبنی تعلقات کو خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ٹرانزٹ ٹریڈ رابطے بڑھائے جائیں گے اور توانائی منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔

دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دہائیوں پرانے تنازعات کے حل کے لیے انٹرا افغان مذاکرات کے علاوہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ماضی کو بھلا کر مشترکہ ایجنڈے پر مل کر آگے بڑھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے افغان امن عمل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کو خطے میں امن و استحکام اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کریں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مسائل کا حل صرف پرامن مذاکرات ہیں اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے مذاکراتی عمل کا پورا ساتھ دیا۔ پاکستان افغانستان کی آزادی خود مختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔

افغان عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ روس کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی فروغ پاتی رہی اور افغانستان اور پاکستان اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ امریکا بہادر کی روایتی خودغرضی افغانستان میں بھی بروئے کار آئی جب روس افغانستان سے چلا گیا تو امریکا نے ’’مجاہدین‘‘ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اپنی منزل سے ناآشنا مجاہدین گم کردہ منزل بن کر بے سروپا عمل میں مصروف ہوگئے۔ اس نامعلوم منزل اور راستوں کی دشواریوں میں مجاہدین ایسے گم کردہ راہ بن گئے کہ دوست اور دشمن میں تمیز کھو بیٹھے۔ ضیا الحق کی حماقتوں کے شکار ان مجاہدین نے خود پاکستان کے لاکھوں بے گناہ عوام کو دہشت گردی کی بھٹی میں جلادیا۔

ہندوستان پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے دہشت گرد پیدا کیے اگر اس الزام کو تسلیم کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں پاکستانی کس کے ستم کا شکار ہوئے۔ یہاں اس دلچسپ حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے فروغ اور حمایت کا الزام لگاتا ہے لیکن خود بھارت دہشت گردی سے محفوظ ہے۔ جب کہ افغانستان اور پاکستان دونوں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور آج تک ہو رہے ہیں کیا بھارتی حکمران طبقے کے پاس اس المیے کا کوئی جواب ہے؟

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پاکستانی عوام کو مہنگائی میں مبتلا کرکے جو اہم اور بنیادی کام کر رہے ہیں وہ نہ صرف پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام لائے گا بلکہ خلوص کے ساتھ دونوں ملک خطے میں امن اور خطے کے عوام کی خوشحالی کا مشن پورا کریں تو بلاشبہ یہ خطہ جنگوں دہشت گردیوں اور عدم استحکام سے نجات حاصل کرلے گا۔ اپنی سربراہی ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان اور ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ اور دو طرفہ تجارت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطوں کا فروغ ضروری ہے دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تجارت ٹرانزٹ ٹریڈ رابطوں میں اضافے کے لیے مشترکہ کوششوں کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی نے تجارت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ اقتصادی کمیشن کی خدمات حاصل کرنے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے خطے کی مجموعی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان عشروں سے کشیدہ صورتحال اور تنازعات حل طلب ہیں۔ عمران حکومت نے اس سکوت کو توڑتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے دور کرنے کا عہد کیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی عرصے سے ڈیڈلاک کی کیفیت برقرار ہے۔ کیا ان دو پسماندہ ملکوں کو اس ڈیڈلاک سے نکلنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت کو افغانستان کے راستے پر چلنا چاہیے۔

The post بھارت کو افغان حکومت کے راستے پر چلنا چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2S0Ej3n
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment