Ads

شادی گھاٹے کا سودا نہیں

امراض قلب کے انتہائی نگہداشت کے مرکز میں سہیل صاحب موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھے۔

امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر ان کے چاروں طرف جمع تھے، لیکن ان کے دل کی دھڑکن تھی کہ ڈوبتی ہی جا رہی تھی اور بلڈ پریشر گرتا چلا جا رہا تھا، نرس نے آواز لگائی بلڈ پریشر تیس اور چالیس ہوگیا ہے۔۔

یہ آواز کمرے کے باہر بھی سنائی دی، کمرے کے باہر ان کی اولاد اور خاندان کے بہت سے مرد اور عورتوں کے درمیان ان کی بیوی شفقت بیگم مصلے پر سجدے میں پڑی گڑگڑاکر دعائیں کر رہی تھیں۔ میرے خدایا، سہیل صاحب کو بچالے۔ آنسو مسلسل بہہ رہے تھے، چہرہ پیلا پڑچکا تھا۔ ایک گھنٹے بعد نرس نے آکر اطلاع دی کہ اب سہیل صاحب کی حالت بہتر ہے۔ رات کو یہ اجازت بھی دے دی گئی کہ انتظار گاہ میں ایک شخص رات کو ٹھیر سکتا ہے۔

بیٹیاں، بیٹے، بہوئیں ، داماد، پوتے ، نواسے سب جمع تھے اور ہر شخص کہہ رہا تھا ہم رات کو اسپتال میں رک جائیں گے، لیکن شفقت بیگم راضی نہ ہوئیں۔ ’میں خود ہی رات کو ٹھیروں گی ورنہ میری رات بہت مشکل سے کٹے گی۔‘ انہوں نے سب بچوں کو ایک ہی جملے میں خاموش کرا دیا۔ سارے بچے اور دوسرے لوگ گھر چلے گئے اور شفقت بیگم انتظار گاہ کی سیٹ پر نیم دراز ہوگئیں۔

خیالات کا طوفان شفقت بیگم کے دماغ میں تیزی سے ابھر رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ ان کے شوہر کا اور ان کا چالیس برس کا ساتھ ہے ۔ ہم نے کتنے اچھے دن ساتھ گزارے ہیں۔ مشکل وقتوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ بچوں کی پرورش کی، انہیں پڑھایا لکھایا اور شادیاں کی ہیں۔

آپس میں لڑائی جھگڑے بھی ہوئے ہیں، لیکن ان کو خود ہی نمٹایا۔ اب کیا اس طرح ایک لمحے میں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے؟ کیا یہ طویل ساتھ چھوٹ جائے گا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی، میرے خدایا سہیل صاحب کو تھوڑی سی زندگی اور دے دے۔ ہم کچھ وقت سکون کے ساتھ گزار لیں۔ اب ہم پھر شادی کے شروع دنوں کی طرح ایک دوسرے کا بہت خیال رکھیں گے۔

ہم دونوں کا تو جیسے تعلق ہی ختم ہوگیا تھا۔ دونوں کی ساری ضرورتیں ، سارے کام بہوئیں، بیٹے اور بیٹیاں کرتے، ہماری تو دن میں ایک دفعہ بھی کسی معاملے پر بات نہیں ہوتی۔ وہ شاید اپنی بیماری کی وجہ سے چڑچڑے ہو گئے ہیں۔

میں بھی تو اب کم زور ہوگئی ہوں، وہ طاقت نہیں رہی کہ دوڑ دوڑ کر ان کے سارے کام کروں۔ دوسروں کو کرتے دیکھتی ہوں تو دل جلتا ہے، میں نے بھی تو خدمت کرنا چھوڑ دی۔ مجھے بچوں کے دکھ سکھ میں ہر کسی کے گھر رہنے جانا پڑتا ہے، مگر سہیل صاحب اپنی جگہ سے ہلنا بھی پسند نہیں کرتے۔ مجھے بھی کئی کئی دن گھر سے باہر رہ کر یہ خیال نہیں آتا کہ گھر میں کوئی میرا انتظار کر رہا ہوگا۔

شفقت بیگم کی شادی شدہ زندگی کی کہانی تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے، لیکن بعض جگہ میاں بیوی کے درمیان ہر وقت تناؤ اور لڑائی جھگڑا ذرا زیادہ ہی رہتا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے، جس میں مشکل اور پریشانی کے اوقات کی تو بات ہی کیا ہے۔ عام دنوں میں بلکہ روز مرہ میں بھی ایک دوسرے کے سہارے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔

لہٰذا اظہار بھی بہت ضروری ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر، لیکن ازدواجی زندگی میں شاید یہ ثابت کرنا زیادہ ضروری ہے کہ گھر کی دال بھی مرغی کے برابر ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے نیویارک یونیورسٹی میں شادی کو قائم رکھنے کے طریقوں پر تحقیق کی۔ وہ کہتے ہیں ’شوہر اور بیوی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ روزمرہ زندگی کو زیادہ خوش رہ کر گزارنے پر توجہ دیں۔

روزانہ ایک دوسرے کی کسی نہ کسی بات پر تعریف کریں اور اپنی محبت اور اعتماد کا یقین دلائیں۔‘ جب کہ ہمارے یہاں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ اکثر شادی شدہ جوڑے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، بلکہ طعن و تشنے اورطنز آمیز گفتگو زندگی کاحصہ بننے لگتی ہے۔ جس سے فاصلے اور بڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کی موجودگی خوشی اور سکون کا باعث بننے کی بہ جائے بوریت اور بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔

شادی شدہ زندگی کی بہتری کا دارومدار باہمی قربت، رفاقت اور گہری دوستی پر ہے۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ اسی صورت میں پھل پھول سکتا ہے، جب وہ دونوں اچھے اور گہرے دوست ہوں۔ دل کی ہر بات ایک دوسرے کو بتاتے ہوں اور ہمدردی حاصل کرتے ہوں۔

ہمارے یہاں اکثر میاں بیوی کا رشتہ آقا اور کنیز کی حیثیت سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ درست ہے کہ میاں بیوی کے رشتے میں ہر وقت برابری کا عنصر نہیں ہو سکتا اور انصاف کا پلڑا مختلف اوقات میں کبھی ادھر کبھی ادھر جھکتا رہتا ہے، لیکن ایک دوسرے پر بھروسا اور اعتماد ہو تو یہ ناہم واری بڑھنے نہیں پاتی۔

شادی کے شروع دنوں میں فریقین کا ایک دوسرے سے سمجھوتا کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ نئی زندگی کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کو زیادہ مشکل پیش آتی ہے، کیوں کہ وہ دوسرے گھر بیاہ کر جاتی ہیں۔ ماہرین عمرانیات کے خیال میں ازدواجی زندگی کا پہلا سال مشکل ہوتا ہے۔ پھر زندگی میں کچھ ٹھیراؤ پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کی مشکلات بڑھنا شروع ہوتی ہیں۔ جب بچے پیدا ہوتے ہیں، پھر ان کی تعلیم شروع ہوتی ہے۔

اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو ذمہ داریاں بڑھتی ہیں۔ اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کی قربت اور سہارے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد عام طور پر جس وقت بچے جوان ہوتے ہیں تو ان کی تعلیم اور شادیوں کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اکثر شوہر کی ملازمت بھی ختم ہونے کے قریب آجاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی سنا گیا ہے کہ اتنی لمبی رفاقت کے بعد میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی حالاں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب قربت کی شاید سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

شوہر اور بیوی کا رشتہ ہمارے یہاں اکثر دوسرے لوگ جوڑ دیتے ہیں اور ان دونوں پر یہ ذمہ داری ڈال دیتے ہیں کہ زندگی بھر ایک ساتھ رہیں اور خوب صورتی سے نبھانے کی کوشش کرتے رہیں۔

چند خوش قسمت ایسے بھی ہیں جو یہ رشتہ خود جوڑ لیتے ہیں یا ان کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے، لیکن عشق کا نشہ چند دنوں میں ہرن ہو جاتا ہے۔ جب زندگی کو قریب سے دیکھنے کا وقت آتا ہے تو عاشق اور غیر عاشق سب ایک ہی کشتی میں سوار نظر آتے ہیں۔ رشتہ ازدواج کو جوڑے رکھنے کے لیے چند باتیں بہت ضروری ہیں۔

کوئی شادی شدہ جوڑا ایسا نہیں جس کے درمیان کسی مسئلے پر بحث مباحثہ یا لڑائی جھگڑا نہ ہوتا ہو۔ وہ چاہے پیسوں کی کمی کی بنا پر ہو، بچوں کے معاملات پر ہو، سسرال کا مسئلہ ہو، اپنے جذباتی مسائل ہوں یا مزاجی کیفیت کی بنا پر ہو، لیکن ہر دفعہ جب بھی جھگڑا ہو دونوں میاں بیوی کو یہ بات ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ ایک حد سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ رسی ٹوٹ جائے۔ پھر کوشش یہ بھی کرنا چاہیے کہ جلد ازجلد مسئلہ حل کیا جائے۔

لمبے عرصے تک قائم رہنے والا جھگڑا نئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ’میاں بیوی کی تھوڑے عرصے کی ناچاقی سے، جو جذباتی نقصان ہوتا ہے وہ اس خوشی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو لمبے عرصے کی خوش گوار زندگی سے پیدا ہو سکتی ہے‘ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ناخوش گوار ماحول جلد سے جلد خوش گوار ماحول میں تبدیل ہو جائے۔

ایک جھگڑے میں پوری زندگی کے شکوے شکایتیں زیر بحث نہیں لانا چاہئیں۔ بات وہیں تک رکھیں جہاں سے وہ شروع ہوئی تھی۔ اپنا نقطۂ نظر منوانے کی کوشش کی بہ جائے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کی بات بھی سنیں۔ ہمارے یہاں میاں بیوی کی لڑائی میں عام طور پر یا تو شوہر چیخ چیخ کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں یا اگر بیوی کو موقع مل جائے تو وہ شادی کے روز اول سے اب تک کی شکایتوں کے ڈھیر لگانے لگتی ہے اور پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔

چار، چھ دن تک آپس میں بات چیت بالکل بند ہو جاتی ہے۔ پھر کسی بہانے یا مجبوری کے تحت آپس میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، لیکن دلوں کا غبار اپنی جگہ رہتا ہے اور ذرا سی بات پر دوبارہ یہ غبار آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

بچوں کے سامنے بھی آپس میں تناؤ اور کشاکش یا لڑائی جھگڑے کی بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ بچوں کے ذہنوں پر اس کا بے حد برا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ان کے یقین کی دنیا الٹ پلٹ ہونے لگتی ہے۔

شادی بہت خوب صورت بندھن ہے، لیکن شادی کے بندھن میں بندھتے ہی یہ ڈراما، خواب سے حقیقت میں بدل جاتا ہے اور دونوں طرف سے اس حقیقت کو پہچاننے میں مشکلات و مسائل، ساری زندگی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ان مسائل کو ذمہ داری اور ذہانت سے حل کر لیا جائے، تو آخری عمر بہتر انداز میں گزارنے کے لیے شوہر یا بیوی سے اچھا اور قریب ترین دوست کون بن سکتا ہے۔ ہر شادی شدہ جوڑے کو قربت ، رفاقت ، اعتماد و بھروسا تمام چیزیں حاصل کرنے کا موقع تو کسی حد تک ملتا ہے۔

اصل بات تو یہ ہے کہ اس موقع سے کس نے کتنا فائدہ اٹھایا اور کون ان سب کے باوجود نقصان میں رہا۔ شاید اسی نقصان کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ’کنواری ارمان بیاہی پشیمان۔‘ اگر اس پشیمانی کے حل کے لیے دونوں کوشش کریں تو مسائل کو بہتر طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کے مسائل لاکھ ایک طرح کے سہی لیکن بقول رئیس امروہوی:

یارب غم عشق کیا بلا ہے

ہر شخص کا تجربہ نیا ہے

The post شادی گھاٹے کا سودا نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2pcf1FN
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment