سب سے پہلے وضاحت تو یہ ضروری ہے کہ اس میں کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی کوئی نہیں ہے اور یہ سفرنامہ کے بجائے واقعی ’’صفرنامہ‘‘ ہی ہے اور یہی نام اس کا اس کے مصنف حضرت ’’ابن بے طوطا‘‘نہ صرف لکھا ہے بلکہ وضاحت بھی فرمائی ہے کہ یہ ’’صفرنامہ‘‘ کیوں ہے اور ’’سفرنامہ‘‘ کیوں نہیں ہے اور وہ یہ کہ یہ ’’صفرنامہ‘‘ اس مشہور ’’ابن بطوطہ‘‘ کا نہیں بلکہ اس کے فرسٹ کزن ’’ابن بے طوطا‘‘ کا لکھا ہوا ہے۔ اب ’’ابن بطوطا‘‘ اور ’’ابن بے طوطا‘‘ میں جو فرق ہے وہ خود ’’ابن بے طوطا‘‘ ہی سے سنیے تو اچھا ہے۔
حضرت ’’ابن بے طوطا‘‘ جو ابن بطوطہ ہرگز نہیں، اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ من مسمی ’’ابن بے طوطا‘‘ ساکن طنجہ بمقام مراکش وہ نہیں ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ ہوں جو آپ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اتنا عرصہ مملکت اللہ داد ناپرساں میں رہ کر میں جان گیا ہوں کہ آپ ناپرساں لوگ ہمیشہ وہ سمجھتے ہیں جو سمجھنے کے لائق نہیں ہوتا اور وہ بالکل بھی نہیں سمجھتے جو سمجھنے کا ہوتا ہے اور وہ کرتے ہیں جو کرنے کا ہرگز نہیں ہوتا جب کہ وہ بالکل بھی نہیں کرتے جو کرنے کا ہوتا ہے، وہ دیکھتے ہیں جو نہیں ہوتا اور وہ بالکل نہیں دیکھتے جو ہوتا ہے۔
چنانچہ وہ جسے آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں ہوں وہ میں نہیں بلکہ وہ میرا فرسٹ کزن ’’ابن با طوطا‘‘ہے اور میں اس کا فرسٹ یعنی دشمن اور چچازاد نمبر ون ابن بے طوطا ہوں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میرے والد محترم اور اس کا والد ’’نامحترم‘‘ ’’سگے‘‘ بھائی تھے اس لیے ’’سگے‘‘ دشمن بھی تھے کیونکہ سگ راسگ می شناسد اور سگ راسگ دشمن باشد۔ وہ دونوں سگے بھائی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ سگ سگ اور سگے سگے رہتے تھے، اس لیے دونوں ہی ایک جیسے ’’سگے‘‘ تھے، کم از کم ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ سگ سگ اور سگے سگے رہتے تھے، ان دونوں سگے بھائیوں اور سگے دشمنوں میں کوئی فرق نہیں تھا، دونوں ہی ایک دوسرے پر بھونکتے بھی رہتے تھے اور موقع ملنے پر کاٹتے بھی رہتے تھے۔
اگر کوئی فرق تھا تو صرف اتنا تھا کہ میرے چچا نے ایک ’’طوطا‘‘ پالا ہوا تھا کسی شغل یا شوق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے طوطا چشمی سیکھنے کے لیے۔ اور اپنے ’’منہ میاں مٹھو‘‘ بننے کی پریکٹس کرنے کے لیے حالانکہ بعد میں وہ طوطا محض اس لیے بھاگ گیا تھا کہ ان دونوں کاموں میں میرا چچا اس سے بہت زیادہ نکلا تھا چنانچہ طوطے نے احساس کمتری کے مارے منہ چھپانا بہتر سمجھا۔ ویسے میرے چچا کو اصولی اور خاندانی طور پر طوطے کے بجائے ’’سگ‘‘ پالنا چاہیے تھا جیسا کہ میرے باپ نے اپنے ’’منہ میں‘‘ پالا ہوا تھا اور ہر کسی پر بلکہ خاص طور پر مجھ پر ہر وقت چھوڑتا رہتا تھا، خیر یہ تو ہمارا گھریلو معاملہ تھا اگر وہ میرا سگا باپ تھا تو میں بھی اس کا سگا بیٹا تھا اور سگوں کی آپس میں ہمیشہ ’’سگی‘‘ ہی رہتی ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ ’’سگا‘‘ رشتہ بہت ہی سگا ہوتا ہے۔
اگر سگ چاہیں بھی تو ناسگ نہیں ہو سکتے، ہمیشہ سگے ہی رہیں گے۔ اس موضوع پر ہمارے طنجہ میں کہاوت بھی ہے کہ آپ دوست کو پسند کے بنا سکتے ہیں لیکن ’’سگے‘‘ کتنے ہی سگے کیوں نہ ہوں آپ نہ پسند کے بنا سکتے ہیں اور نہ رکھ سکتے ہیں نہ ان سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہوتا، خود کو کٹوائے بغیر۔ خیر تو طنجہ ہی کے طنجوس ہوتے ہیں جس طرح آپ ناپرسانی ہمیشہ ناپرسانی تھے ناپرسانی ہیں اور ناپرسانی ہی رہیں گے چنانچہ انھوں نے میرے چچے کو ’’باطوطا‘‘ کا نام دے ڈالا تھا۔ کیونکہ ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ طنجوسی بھی آپ ناپرسانیوں کی طرح ہر نہ ’’کرنے والا کام‘‘ ثواب دارین سمجھ کر کرتے ہیں اور کرنے والے کام کو گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔
جب میرا چچا باطوطہ اور پھر آہستہ آہستہ ’’بطوطا‘‘ کے نام سے معروف ہوا تو میرا باپ خود بخود ’’بے طوطا‘‘ مشہور ہوا اور نہ صرف زبانوں بلکہ کاغذات میں بھی درستگی کر لی گئی اور پھر مزید بدقسمتی سے یہ دونوں نام ہم دونوں پر بھی’’ابن‘‘ کی دم کے ساتھ چپک گئے۔ باقی تو کوئی خاص فرق نہیں تھا لیکن میرے اس بدبخت تیرہ بخت اور ناہنجار و نابکار کزن ابن بطوطہ نے ایک سفرنامہ لکھ مارا تھا حالانکہ اس نے جو سفر کیا تھا وہ کسی شوق کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ نیستی کے مارے کیا تھا کیونکہ اس کا باپ صرف طوطے ہی نہیں پالتا تھا بلکہ ’’مینائیں‘‘ بھی پالتا تھا جن کے ساتھ وہ ہمارے علاقے کا مشہور کھیل نکاح نکاح طلاق طلاق کھیلتا تھا۔
یہ کھیل اپنے ہاں اتنا مشہور ہے جتنا ناپرسانیوں میں کرکٹ مقبول ہے چونکہ میرا نامحترم چچا اس کھیل میں ایک ہیرو کا درجہ رکھتا تھا اور ایک مشہور آل راونڈر تھا اس کی نگاہ اور نکاح میں عورت کے لیے صرف ایک ہی معیار تھا وہی معیار جو غالب کا آموں کے بارے میں تھا۔
چنانچہ اپنا سب کچھ اس نکاح نکاح اور طلاق طلاق کے کھیل اڑا کر آخر میں جب وہ اپنے پیچھے بیواوں اور یتیموں کا ایک پورا اسکواڈ چھوڑ گیا تو اس کے تن بدن پر صرف دوچار گرہ گریبان اور صرف ایک آزاربند رہ گیا تھا۔ اس حالت میں میرے چچا زاد ’’ابن باطوطا‘‘ نے اس کہاوت پر عمل کرنا ضروری سمجھا کہ بہ وقت ضرورت ’’فرار‘‘ بھی آدھی بہادری ہے۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کا اس طرح بھاگ جانا میرے لیے اتنی بڑی مصیبت لائے گا۔ کیونکہ اس نے ایک عدد سفرنامہ لانچ کر دیا جو بہت زیادہ مقبول ہوا کیونکہ انتہائی حدتک فضول اور نامعقول تھا لیکن طنجوسی تو طنجوسی ہوتے ہیں۔
انھوں نے طنجہ کی مشہور کہاوت مجھے مارنا شروع کی کہ گدھا اگر گدھے سے کم ہو تو اس کے کان کاٹنا چاہیے سینگ تو وہ پہلے ہی کٹوا چکا ہوتا ہے، کتا اگرکتے سے کم ہو تو اس کی دم کاٹ کر بارہ سال کے لیے نلکی میں رکھنی چاہیے اور اگر سگا اپنے سگے سے سگی میں کم ہو تو اس کا بھٹا سا سر اڑا کر بھٹی میں بھوننا چاہیے اور خود اسی کو کھلانا چاہیے۔ چنانچہ اپنے سر کو کٹانے سے بچانے کے لیے اس نے یہ تدبیر دل پزیر کی کہ میں بھی اس کے ’’سفرنامے‘‘ کے منہ پر اپنا ’’صفرنامہ‘‘ مارکر رہوں گا۔ صفرنامہ اس لیے کہ ’’سفرنامہ‘‘ تو وہ خدا مارا پہلے ہی لکھ چکا تھا اور مجھے اس کے سفرنامے کو صفر کرنا تھا۔ گویا میرا یہ صفرنامہ خالص بدنیتی ،حسد دشمنی اور تربور ولی کے جذبے سے لکھا گیاہے۔
جس میں مملکت اللہ داد ناپرساں کا بیان نہایت عیان بلکہ عریاں طریقے سے کیا گیا اور ایسے بہت سارے راز فاش فاش کیے گئے ہیں کہ مملکت ناپرساں کے سارے ’’سفرنامہ نگار‘‘ جو لگ بھگ نو لاکھ نو ہزار نو سو نناوے بتائے جاتے ہیں، حیران ہوکر رہ جائیں گے۔ اللہ بھلا کرے قلم فاونڈیشن والوں کا کہ انھوں نے میرے اس ’’صفرنامے‘‘ کو بہت خوبصورت طریقے پر چھپوا دیا ہے۔ خدا ان کو اجر کثیر دے اور میرے صفرنامے کو تشہیر عطا فرمائے۔ کیونکہ مارکیٹ میں ان دنوں سفرناموں کی تو بہتات ہے لیکن ’’صفرنامہ‘‘ صرف اس خاکسار کا ہے۔ خیراندیش ’’ابن بے طوطا‘‘ساکن طنجہ بمقام مراکش عرف مراکو۔
The post صفرنامہ ناپرساں عالی شان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36lIy0h
0 comments:
Post a Comment