سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے سمجھدار لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے اردگرد خطے کے حالات تشویش ناک ہیں۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت نے تمام کشمیری رہنماؤں سمیت ہزاروں نوجوانوں کو قید کرکے وہاں کرفیو نافذ کردیا ہے موبائل فون اور انٹرنیٹ بند ہے۔ 9 لاکھ فوج کے ذریعے ایک طرح سے آپریشن جاری ہے، پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے۔
جنگ کے طریقہ کار میں نئی تبدیلیاں آچکی ہیں جس کے تحت ملکوں کو نقصان پہنچانے اور انھیں کمزورکرنے کے لیے باقاعدہ جنگ کے بجائے معاشی سفارتی اور ابلاغ عامہ کو استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ملک میں اندرونی انتشار پیدا کیا جاتا ہے تاکہ ملک کو اندر سے کمزورکرکے کھوکھلا کر دیا جائے۔ پاکستان کی سرحدوں پر گولے برسائے جا رہے ہیں۔ میڈیا مہم کے ذریعے اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
اس کی تجارت جو بیرون ملک ہو رہی ہے، اسے محدود کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مختلف اہم ممالک سے اس کے تعلقات میں بگاڑ کی کوشش ہو رہی ہے یہ بیرونی حملہ ہے جوکہ جدید طرز کی جنگ ہے۔ اس کا سلسلہ کم شدت کے ساتھ طویل عرصے سے جاری تھا۔ اس میں اب بہت تیزی اور شدت آچکی ہے۔ جس کا ایک اور حصہ اندرونی خلفشار اور انتشار پیدا کرنا بھی ہے، یہ سلسلہ بھی نیا نہیں ہے۔ یہ بھی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومتوں میں سیاسی مصلحتوں اور اقتدار پر گرفت کے لیے ایسے اقدامات کیے گئے کہ پاکستان کے اندر خلفشار پیدا کرنے کے آسان مواقعے پیدا ہوئے۔
سیاست اپنی جگہ لیکن بعض سول اداروں پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ اس طرح پاکستان پر باہر اور اندر سے حملے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک باقاعدہ جنگ ہے۔ بھارت میں بی جے پی کے عروج نے اس جنگ میں شدت پیدا کی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے کئی دانشوروں نے اس طرح کے حالات کو دونوں ملکوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔ لیکن انتہا پسند سوچ کی وجہ سے امن کی راہ مسدود ہوگئی اس میں دیگر عوامل بھی تھے۔
اس وقت معاملات زیادہ پیچیدہ ہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کارروائی بہت زیادہ طول پکڑ سکتی ہے جس سے پورا بھارت متاثر ہوسکتا ہے، اس کا دباؤ پاکستان پر بھی ہوگا۔ اس وقت حکومت کی تبدیلی کے نام پر اندرونی کھینچا تانی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہوسکتا ہے۔ اور اگر یہ اس سلسلے کی کڑی نہیں ہے تو دوسری صورت میں بھی اندرونی انتشار ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور سیاستدانوں کو حالات کی نزاکت اور موجودہ جاری جنگ کی کیفیت کو سامنے رکھ کر حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں علیحدہ علیحدہ سمت میں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی اپنی اندرونی کیفیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے مشکل اس لیے ہے کہ ان کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔ حکومت اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے ایسی کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی جس سے شہباز شریف کو وزیر اعظم کا متفقہ امیدوار بناکر سامنے لایا جائے اور ایوان کے اندر سے تبدیلی آجائے۔ مسلم لیگ (ن) ایک مرتبہ مرکز اور پنجاب میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ایسی صورت میں وہ ملک پر ایک مرتبہ پھر دس سے پندرہ سال تک حکمرانی کرسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے پاس وزارت عظمیٰ کے لیے بلاول بھٹو انتہائی مضبوط امیدوار ہیں، لیکن ان کا ہدف 2023 کے عام انتخابات ہیں اس دوران وہ پنجاب میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مشورہ دیا تھا کہ اسمبلیوں سے استعفے دے دیے جائیں تاکہ دوبارہ انتخابات ہوں، لیکن اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے انکار کردیا۔ مولانا فضل الرحمن کی موجودہ تحریک میں ایک کوشش یہ بھی ہوگی کہ دونوں جماعتوں کو اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کے لیے تیار کیا جائے تاکہ ازسر نو انتخابات کا راستہ ہموار ہوسکے۔
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں میڈیا میں کچھ ہیجان کی فضا بھی ہے۔ مولانا واضح کر رہے ہیں کہ ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما عین موقع پر ان کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں یہ شرکت تقریروں تک ہوگی۔ میڈیا کے لیے شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی تقریروں کی زیادہ اہمیت ہوگی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حامی اپنے رہنماؤں کی تقریر میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ ایک امکان یہ ہے کہ یہ ایک جلسہ عام ہوگا۔
اور اس سلسلے میں انتظامیہ اور جے یو آئی کے درمیان ممکنہ مفاہمت ہوگی۔ ایک طویل دھرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے لیے سخت مشکلات ہوسکتی ہیں اگر وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان محض ایک جلسہ عام یا دھرنے سے خود مستعفیٰ ہوجائیں گے تو اس کے دور دور تک امکانات نہیں ہیں۔
ایوان کے اندر سے تبدیلی لانے کے لیے متبادل وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ بلاول بھٹو کو یا شہباز شریف کو متبادل وزیر اعظم بنانے کے لیے نیا اتحاد تیار کریں۔ بلاول بھٹو متبادل وزیر اعظم کے لیے امیدوار تسلیم کرلیے جائیں اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مولانا آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو نیا فارمولا بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں انھیں سندھ حکومت سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کو مسلم لیگ (ن) نے اپنا صدارتی امیدوار بنایا تھا۔ لیکن وہ پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے میں ناکام رہے۔ اگر اس وقت وہ پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتے تو شاید کچھ اور ووٹ حاصل کرکے آج صدر پاکستان بن جاتے لیکن اس وقت کی تلخی ختم نہیں ہوئی تو مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے لیے مشکل سے تیار ہوں گے آخری طریقہ یہ ہے کہ ایسی فضا تیار کی جائے جس کی وجہ سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر اتفاق پیدا کرنا آسان ہوجائے۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ یہ مرحلہ کب آئے گا یا اس پر اتفاق نہیں ہوگا۔ اگر یہ تمام معاملات آئینی اور پرامن طریقہ کار کے ذریعے طے ہوجاتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں تناؤ اور ہیجان کی کیفیت سے دور رہ کر کام کرتی ہیں اور اپنے اندرونی انتشار سے نجات حاصل کرتی ہیں تو یہ ایک مثبت راستہ ہوگا۔ اگر تحریک ایسی کوئی راہ اختیار کرتی ہے جس میں تشدد، جلاؤ گھیراؤ، بدامنی پیدا ہوتی ہے تو یہ خود ان جماعتوں کے لیے اور مجموعی طور پر سب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ موجودہ حالت میں حکومت پر بھی بھاری ذمے داری ہے کہ وہ اس قسم کا ماحول نہ پیدا ہونے دے۔ اس لیے جہاں امن و امان کا قیام ضروری ہے اسی کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری بھی ضروری ہے۔
برآمدات میں اضافے کے اقدامات، زرعی اور صنعتی شعبے کی بہتری، تعلیم کو عام کرنے کے اقدامات، سستی ٹرانسپورٹ کی فراہمی، صفائی کا بہتر نظام، صحت عامہ کی سہولتیں، سڑکوں کو بہتر بنانا انھیں دیہات دیہات تک پہنچانا، زرعی مصنوعات کو تیز رفتاری سے مارکیٹ تک پہنچانے کے علاوہ عوام کے لیے بھی سہولت کا باعث ہوگا۔ پی آئی اے، ریلوے، پاکستان اسٹیل، بجلی کی فراہمی کے ادارے، محکمہ پولیس، تحقیقاتی ادارے اور عدلیہ ہر جگہ اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہے جلدازجلد ان اداروں کو بہتر بنانا ہوگا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک ایسا شعبہ ہے جسے ملک بھر میں آسانی سے فروغ دیا جاسکتا ہے اور بڑے پیمانے پر زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ملک کا اہم ترین مسئلہ عدم توجہ کا شکار ہے جس پر بحث ناپید ہے۔ وہ اہم ترین مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس وجہ سے جنگلات اور زرعی زمینیں کم ہو رہی ہیں۔ خوراک کی کمی اور پانی کی کمی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، خط غربت سے نیچے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اس مسئلے پر توجہ اور اس کے حل کے اقدامات ضروری ہیں۔ اب کوئی راستہ نہیں ہے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ مل کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کی سیاست میں اتار چڑھاؤ جاری رہے گا۔ بنیادی کام لوگوں کی خوشحالی ہے جسے اگر سیاستدان نہ کرسکے تو عوام خود کوئی راستہ نکال لیں گے۔ ترقی اور خوشحالی جلد یا دیر سے آسکتی ہے بالآخر انجام بھی یہی ہوگا۔ برسر اقتدار طبقہ اور اشرافیہ پر بھاری ذمے داری ہے۔
The post آخر نتیجہ کیا ہوگا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/310EJty
0 comments:
Post a Comment