جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پندرہ لاکھ افراد کو اسلام آباد جلوسوں کی شکل میں جمع کرکے احتجاج کرنے کے انتظامات میں مصروف ہیں، اگر اس تعداد کے نصف لوگوں کو بھی بسوں اور دیگر گاڑیوں میں اسلام آباد لایا جائے تو صرف ٹرانسپورٹ کے اخراجات 22 کروڑ پچاس لاکھ ہوں گے۔
اگر گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں تو 10 روز کا خرچہ دو ارب اور پچیس کروڑ ہوگا۔ اگر ایک شخص کا روز کا خرچہ دو سو روپے لگایا جائے تو یہ خرچہ کم ازکم پندرہ کروڑ یومیہ ہوگا۔ دس روز میں یہ خرچہ ایک ارب پچاس کروڑ ہوگا۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں اور اگر واقعی ڈیڑھ ملین لوگوں کا اجتماع ہوگا تو یہ اخراجات 8 ارب تک جا پہنچیں گے۔
جلسے کے منتظمین بہتر حکمت عملی سے اخراجات میں کمی کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں بھی کم ازکم 3 سے 4 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے مارچ کے آغاز کے لیے سکھر کا انتخاب کیا ہے جہاں وہ سندھ اور بلوچستان کے طالب علموں کو جمع کریں گے۔
ان کا سفر ایک روز قبل شروع ہوگا۔ اس کے اخراجات علیحدہ ہوں گے۔ اگر مولانا فضل الرحمن متوقع تعداد سے 10 فیصد لوگوں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کریں گے تو انھیں اسلام آباد پہنچنے میں دو روز درکار ہوسکتے ہیں۔ اس طرح اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا۔ گاڑیوں کی تعداد گن کر اجتماع کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
12 ہزار بڑی بسیں اور 10 ہزار دیگر گاڑیاں ہوں گی تو مطلوبہ تعداد کا نصف ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کا مطالبہ وزیر اعظم عمران خان سے یہی ہوگا کہ مدرسوں کے پندرہ لاکھ افراد کے اجتماع کے مطالبے کو پاکستان کے 22 کروڑ افراد کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے از خود مستعفیٰ ہوجائیں۔
مستعفیٰ نہ ہونے کی صورت میں متبادل منصوبے کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ حکومت کی تبدیلی یا وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا بہترین طریقہ کار وزیر اعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کا مشورہ ہے اس کے لیے متعلقہ حزب اختلاف کے قائدین سے مشورے کے بعد نگراں حکومتوں کا قیام اور نئے انتخابات کی تاریخ ہے۔
اس کے علاوہ دیگر طریقہ کار جزوی تبدیلی کا باعث ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں جس کا دور دور تک کوئی امکان فی الحال نظر نہیں آتا۔ لیکن ایسی صورت میں بھی تین صوبائی حکومتیں ان کے پاس ہوں گی۔ جو مرکز سے زیادہ بااختیار ہیں۔ فوری تبدیلی کے آئین سے ماورا اقدامات کے حالات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی تمام تر کوشش ایوان کے اندر سے تبدیلی کے لیے ہے۔ یہ بات دبے الفاظ میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بتا دی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنی توانائی کو غلط سمت میں رکھا ہے تبدیل شدہ حالات میں سڑکوں پر فیصلے پر سرخ نشان لگا کر ممنوعہ کی مہر لگا دی گئی ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن بلاول بھٹو یا شہباز شریف کو متبادل وزیر اعظم بنانے کے لیے حزب اختلاف کو متحد کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ تبدیلی کا عمل شروع ہوتا۔ پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اس خفیہ سرخ نشان کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو وہ سرخ نشان نظر نہیں آرہا ہے۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مولانا فضل الرحمن سے متبادل منصوبہ معلوم کرنا چاہتی ہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے لیے آزادی مارچ خود ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر مقامی انتظامیہ اور مولانا میں ایک روزہ جلسے کا معاہدہ طے ہوجائے گا۔
جس میں دیگر جماعتوں کی علامتی شرکت ہوگی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اجتماع مولانا فضل الرحمن کا ہوگا اور شو کوئی اور لوٹ کر لے جائے گا۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے صورتحال کو بدل دیا ہے۔ صحافی سیاستدانوں کی دعوتوں، طرز زندگی اور ان کی اعلانیہ و خفیہ سرگرمیوں کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں جس کی وجہ سے پوری سیاست تبدیل ہوگئی ہے عوام کی توقعات کچھ اور ہیں۔ عوام انتہائی باکردار، دیانتدار، سادگی پسند اور اچھی طرز حکمرانی والی قیادت چاہتے ہیں۔
دنیا اب انٹرنیٹ پر ہے دنیا بھر کے حکمران، پارلیمان، سیاسی جماعتیں، طرز حکمرانی اور سیاسی رہنماؤں کے طور طریقے سب کی نظروں میں ہیں۔ وہ موجودہ سیاسی نظام سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ وہ باآسانی مغرب اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں سیاسی جماعتیں اصولوں اور نظریات کو بنیاد بناتی ہیں۔ شخصی حکمرانی کا تصور نہیں ہے سیاسی جماعتوں کے قائدین بدلتے رہتے ہیں۔
ہر شخص کو مذہبی آزادی ہے ہر شخص کو تحفظ حاصل ہے کوئی اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا یہاں تک کہ کوئی کسی کو غلط نظر سے بھی گھور کر نہیں دیکھ سکتا۔ کبھی سڑکیں بند نہیں نظر آتی ہیں۔ احتجاج کے اجتماع بھی بہت منظم اور مخصوص مقامات تک محدود ہوتے ہیں عام لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔
ٹریفک انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ رواں دواں ہے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات کے نظام حکومت اور ٹریفک کے نظام کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے موجودہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی لانی ہوگی۔ اگر وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ لوگ اب ان سے کس طرح کی قیادت کی توقع رکھتے ہیں تو وہ مستقبل میں اپنا مقام تیزی سے کھو دیں گے اور نئی کوئی قوت عوام سے نکل کر سامنے آجائے گی۔
خود تحریک انصاف اور عمران خان کی مثال سامنے ہے۔ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی جماعتیں جو طویل مدت سے پاکستان کے سیاسی افق پر چھائی ہوئی تھیں اور انھیں کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا ایک نئی سیاسی قوت نے دو بڑی جماعتوں کو چیلنج کرکے اپنی جگہ بنالی اور آج برسر اقتدار ہے۔
اس طرح اب ملک میں تین بڑی سیاسی قوتیں ہیں لیکن کوئی ایک بھی اتنی منظم اور طاقتور نہیں ہے کہ وہ ملکی معاملات پر بھرپور گرفت حاصل کرسکے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بقا اسی میں ہے کہ وہ خود اپنے معاملات کو ٹھیک کریں۔ متبادل قیادت کا انتظام کریں۔ واضح سیاسی نظریات اور مقاصد کا تعین کریں۔ پارٹی میں انتخابات کرائیں اگر حالات اسی نہج پر جاری رہیں گے تو عین ممکن ہے کہ کوئی چوتھی قوت سامنے آجائے۔ جس کے پاس زیادہ بہتر پروگرام ہو۔ فی الحال آثار ہیں ہیں ناممکن کچھ بھی نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ وہ مسائل اور ان کے حل کو بنیاد بنا کر سیاست کریں۔ اس وقت بھی جو سیاسی گفتگو، بیانات اور تبصرے ہیں اس میں بنیادی مسائل اور اس کے حل پر بہت کم توجہ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو ناپید ہے۔ بنگلہ دیش کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر توجہ دی اور مل کر اس پر قابو پایا۔ آج بنگلہ دیش کی معیشت مستحکم ہے اور ترقی کی جانب گامزن ہے۔
ٹریفک کے بے ہنگم نظام کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے جب کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی پہلی سیڑھی ٹریفک کا نظم و ضبط ہے۔ جرائم پر قابو پانے کے لیے بھی ٹریفک کا منظم نظام موثر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر گاڑیوں کی مانیٹرنگ ہو تو مجرم فرار نہیں ہوسکے گا۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی پر بھی توجہ کم ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے لیے صاف ستھرے ماحول کی ضرورت ہے۔
ہم فطرت کی ہر بہترین چیز کو ختم اور خراب کر رہے ہیں۔ جنگل ختم ہو رہے ہیں۔ صاف پانی کی کمی ہو رہی ہے سمندری آلودگی بڑھ رہی ہے۔ دریاؤں میں گندگی شامل ہو رہی ہے۔ زرعی زمینوں پر آبادیاں قائم ہو رہی ہیں۔ صنعتی فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ زرعی وصنعتی پیداوار، برآمدات، تعلیم، صحت، سڑکیں، ٹرانسپورٹ ہماری سیاست کے اہم موضوع ہیں۔ ہماری توجہ خطے کے امن کی طرف کم ہے۔ یہ تمام اہم ترین مسائل سیاست کا محور یہ ہوگا تو ملک بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔ ورنہ خرابی بڑھے گی اور نئی سیاست ہی اس کا حل ہوگا۔
The post ڈیڑھ ملین مارچ اور خفیہ سرخ نشان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2n9XyN8
0 comments:
Post a Comment