بات ساری مزاجوں کی ہے۔ مزاج لڑکپن سے بچپن سے یاکسی بھی ’’پن‘‘ سے عاشقانہ ہو تو آدمی فضول سے فضول سی چیز میں بھی کوئی نہ کوئی حسن تلاش کر کے یا خود اپنے پلے سے ڈال کر ’’عاشق‘‘ ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ تحقیق کا بھی ہے۔ آدمی مزاج کا تحقیقانہ محققانہ ہو تو خود بھی تحقیق سے عشق اور پھر مزاج تحقیقانہ محققانہ اور عاشقانہ ہو جاتا ہے۔
ورنہ ’’اُلو‘‘ کیا چیز ہے، ایک ڈھونڈو بلکہ نہ ڈھونڈو تو بھی ہزار بیس ہزار لاکھ کروڑ اور کروڑوں مل جاتے ہیں بلکہ اربوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ ملکوں، شہروں میں بازاروں میں گلیوں میں چوباروں میں یہاں تک اخباروں اشتہاروں اور ٹی وی آروں یا ٹی پی آروں میں بھی مل جاتے ہیں، کچھ اپنی اوریجنل آنکھوں کے ساتھ لیکن زیادہ عینک لگائے ہوئے۔
یادش بخیر جس زمانے میں ٹی وی پر ’’عینک والا جن‘‘ چل رہا تھا تو ہمارے ذہن میں ایک ’’عینک والے ‘‘ اُلو کا آئیڈیا پل رہا تھا۔ مطلب یہ کہ جہاں کہیں بھی گلستان بوستان باغستان یا کوئی اور ’’ستان‘‘ وہاں ہر شاخ پر اُلو بیٹھا نظر آئے گا اور انجام گلستاں پر نوحہ کر رہا ہو گا۔ ایسے میں اُلو پرتحقیق کا کوئی تُک ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو اُلو ہوتا ہے وہ اپنا پٹھا بھی خود ہوتا ہے اور جہاں اُلو ہو گا وہیں اُلو کا پٹھا بھی ہو گا اور چرندوں پر ندوں اور درندوں میں پہلا پرندہ درندہ ہے۔
جس کے خاندان میں آج تک ’’ٹوان ون‘‘ پیدائش کا سلسلہ چل رہا ہے جسے ’’ٹوین‘‘ یا جڑواں یا توام بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ اُلو اور اس کا پٹھا ایک ساتھ پیدا ہوتے اور آج تک دنیا کے کسی بھی اسپتال میں ایسا کوئی آپریشن کامیاب نہیں ہے کہ اُلو کو پٹھے یاپٹھے سے اُلو کو الگ کرے۔
نہ ہی تاریخ یا جغرافیے میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ کبھی ’’اُلو‘‘ سے اُلو کے پٹھے کی اور پٹھے سے الگ ’’اُلو‘‘ کی پیدائش ہوئی ہوئی ہو مطلب یہ کہ اس نسل اور خاندان میں صرف اُلو اور یا اُلو کے پٹھے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک مزاحیہ ڈرامہ یاد آ رہا ہے جس میں ایک سرداروں کی فیملی بھی تھی اور دس بارہ افراد میں ہر ایک کانام ’’پرمیت‘‘ تھا۔ مرد بھی سارے پرمیت تھے اور عورتیں بھی پرمیت ہیں۔
پرمیت کسی اجنبی سے کسی بھی پرمیت کا ذکر یا تعارف ہوتا تو وہ حیران و پریشان ہو جاتا ہے کہ وہ۔ وہ۔ وہ پرمیت کے گورگھ دھندے میں پھنس جاتا۔ پرمیت فیملی نے اس پرابلم کا حل یوں نکالا کہ جو مرد پرمیت تھے سارے کے سارے سرخ پگڑی باندھتے تھے اور جو زنانہ پرمیتیں تھیں وہ سب سرخ دوپٹہ اوڑھتی تھیں۔ پھر اجنبی سے یوں تعارف ہوتا۔ وہ وہ پرمیت جس کی لال پگڑی ہے اور یالال دوپٹہ ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اُلوؤں اور ان کے پٹھوں کا بھی ہے۔
مطلب یہ کہ تحقیق کے نقطہ نظر سے ’’اُلوؤں‘‘ کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں لیکن پچھلے دنوں اچانک جب ہم نے ایک اُلوکو دیکھا تو ہماری تحقیق کی رگ پھڑکنے لگی وجہ اس کی یہ ہوئی کہ ہمیں یاد آیا کہ پڑوسی ملک کی آئی ایم ایف یعنی لکشمی کی سواری ’’اُلو‘‘ کیوں ہے۔
باقی دیوی دیوتاوں کی بڑی قیمتی سواریاں ہوتی ہیں مثلاً اس کا جو شوہر ’’وشنو‘‘ ہے اور مرتبے میں ’’امریکا‘‘ یعنی پالن ہار ہے اور اسی نے اپنی بیوی کو آئی ایم ایف کا درجہ دیا ہوا ہے اس کی سواری ایک بہت بڑا ’’پرندہ‘‘ گروڑ ہے۔ شیو کی سواری ایک قیمتی نندی بیل ہے اور اس کی بیوی درگا یا پاربتی شیر پر سوار ہوتی ہے۔
جس کی وجہ سے شیراں والی بھی کہلاتی ہے۔ یہاں تک کہ آئی ایم ایف یعنی لکشمی کے اسسٹنٹ یا خزانچی کو بیر کی سواری بھی ایک ہوائی رتھ ہے، اندر کا ہاتھی ہے لیکن خود آئی ایم ایف کی سواری ’’اُلو‘‘ آخر کیوں؟ اور یہی ہماری تحقیق کا پراجیکٹ تھا۔ اس غرض کے لیے ہم نے اپنی سواری ٹٹوئے تحقیق کو جوتا تو وہ بھی ناراضگی بلکہ ہراسگی کا مظاہرہ کرنے لگا۔ لیکن جب ہم نے آئی ایم ایف کا نام لیا تو دل و جگر کو اس نے بھی تھام لیا۔
آئی حرف کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشین
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
پھر اس نے کمال کر کے جمال کی ٹانگیں توڑ دیں اور دھمال ڈال کر بے حال ہو گیا۔ پہلے تو وہ ایسے ایسے ناچا کہ بہت سارے برتن ٹوٹ گئے پھر ایک ساتھ ہی روتے اور ہنستے ہوئے بولا کیا نام ہے آئی ایم ایف اور پھر لکشمی۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے، اس کے قرضے کے سب اسیر ہوئے۔
ناوک انداز جدھردیدہ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
ہم نے اس کم بخت کو ہراسگی سے روکتے ہوئے کہا ہم لکشمی بائی عرف آئی ایم ایف کی تحقیق نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس کی سواری کر رہے ہیں کہ آخر اتنی زردار مال دار ڈالر دار دیوی کی سواری ’’اُلو‘‘ کیوں ہے۔ ہماری طرف کچھ عجیب سے نظروں سے دیکھتے ہوئے کچھ افسردگی کچھ آزردگی اور بزرگی والے لہجے میں بولا۔ میرا تو خیال تھا گمان تھا بلکہ یقین تھا کہ میری صحبت میں رفاقت میں اور قربت میں آپ کچھ سیکھ گئے ہوں گے لیکن آپ تو ویسے کے ویسے اور جیسے کے تیسے یعنی کیسے کے کیسے ہی رہے۔
ہم چپ رہے تو وہ ہنس دیا۔ اور بولا۔ لکشمی اور آئی ایم ایف کا مطلب ہے مال دولت زردھن۔ اور یہ جن پر سواری کرے گی وہ ’’اُلو‘‘ ہی تو ہوں گے اور اُلو کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اس کی تو سپلٹی آئیڈنٹی ہی ’’اُلو‘‘ بنانا ہے اُلو بنا بنا کر خود ’’اُلو‘‘ پر سواری نہیں کرے گی تو کس پر کرے گی الو ہی تو اس کا ہوم پروڈکٹ ہے الو بنا الو پر بیٹھنا اور اُلو اڑانا۔ اور ہر شاخ پر اُلو بٹھانا پھر ان سے’’پٹھے‘‘ بنوانا پٹھوں کو پھر۔ مطلب یہ کہ اُلو ہی اُلو۔ اور ان پرلکشمی۔
کی جس پہ بھی نگاہ وہ اُلو نظرآیا
جس کو بھی ملی چاہ وہ اُلو نظر آیا
پر اس انسان پر نظر ڈالیے جو لکشمی اک پچاری ہے۔ اُلو ہی ہوتا ہے سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ کماتا ہے اور کماتے کماتے ہی کام آ جاتا ہے یا ’’کم‘‘ ہو جاتا ہے لکشمی ادھر ہی رہ جاتی ہے اور وہ بے جیب کا کفن اوڑھ کر دفن ہو جاتا ہے۔ کتنے تھے جو اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر اور یا پابہ زنجیر ہوئے اور پیچھے والوں کے لیے نظیر ہوئے۔ کہ آدمی کی کل ضرورت دو گز زمین اور چھ گز کپڑا ہی تو ہے۔ باقی دوسروں کا ہوتا ہے اسے حرف گننے جمع کرنے اور حفاظت کی ڈیوٹی ملی ہوتی ہے۔
الذی جمع مال ’’وعددہ‘‘
وہ مال جمع کرتے رہتے ہیں اور گنتے رہتے ہیں لکشمی یا آئی ایم ایف ایسے ایسوں پر سواری نہیں کرے گی تو کس پرکرے گی۔
کس درجہ ترا حسن بھی آشوب جہاں ہے
جس ذرے کو دیکھا وہ تڑپتا نظر آیا
The post لکشمی کی سواری appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2on5QBp
0 comments:
Post a Comment