لکھتے وقت ہاتھ کانپتے ہیں لفظ ٹیڑے میڑے ہوجاتے ہیں، کئی بار چیک ڈس اونر (Dishonour) ہوجاتے ہیں۔ اب میں بینک کے عملے سے کہہ کر چیک لکھواتا ہوں۔ وہ میرا احترام کرتے ہوئے یہ کام کر دیتے ہیں۔ اس جسمانی کمزوری کے باوجود لکھنا نہیں چھوڑ سکتا۔ غالب کا چھوٹا سا دیوان اتنا ضخیم ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ اس موقع پر غالب کا شعر مدد کو پہنچ گیا ہے۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
میرے وطن کا حال بھی ایسا ہی ہے، قیام کے اگلے برس ہی اپنے بانی قائد اعظم کی وفات کے بعد کانپنے لگا۔ یہاں تو ہاتھ ہی کانپتے ہیں، وہاں پورا وجود کانپنے لگا تھا۔ وزارتوں کی بندر بانٹ 1958 میں ایک شخص نے محض ایک پسٹل کے زور پر مارشل لا نافذ کر دیا۔ تمام بنیادی جمہوری حقوق سلب، ’’بولنے پہ پابندی، سوچنے پہ تعزیریں‘‘ ملک کانپتا رہا ، عوام ہانپتے رہے اور زمینوں والے، خانقاہوں والے، ملوں والے پھلتے پھولتے رہے۔ قانون آئین کچھ نہیں تھا ، چند لوگوں کی بات حرف آخر تھی، ہانپتے کانپتے ہیں عوام زندگی کا ساتھ نبھاتے ہوئے زندہ تھے، مزدور، ہاری ، کسان و دیگر غریب جھونپڑیوں کے غلیظ محلوں میں رہ رہے تھے، جب کہ حکمران اور ان کے حواری اونچے اونچے محلوں میں عیش سے رہ رہے تھے، داشتائیں خوب مزے کررہی تھیں اور جھونپڑیوں سے رونے کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔
عمارتیں بنتی رہیں مگر غریب جھونپڑوں میں ہی رلتے رہے، رلتے رہے، بلا دوا دارو مرتے رہے، تنگ آمد بجنگ آمد، آخر عوام سڑکوں پر نکل آئے اورایک آمر اپنے پیٹی بند بھائی کو اقتدار دے کرگھر چلا گیا اور آنے والے حکمران نے ملک ہی توڑ دیا۔ ہانپتا کانپتا ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ عوام تقسیم ہوگئے، یعنی عوام کمزور ہوگئے۔
اب ہانپتا کانپتا ملک عجب حالت پر آگیا تھا۔ 56 فیصد جسم کٹ جانے پر بقیہ 44 فیصد کیا رہ گیا ہوگا ! مگر ستم کی رات ختم نہیں ہوئی بلکہ اورگھپ اندھیرا لیے ایک اور طویل رات ملک پر مسلط ہوگئی۔ عوامی نعرے لگا کر اقتدار سنبھالنے والے ’’ بے بس بھٹو‘‘ کو بے بسی کے عالم میں پھانسی دے دی گئی، مگر بھٹو نے گردن نہیں جھکائی اور گردن میں پھانسی کا پھندا پہن لیا اور امر ہوگیا۔ اب ’’ ادھ موئے‘‘ ملک پر ایک ایسی رات مسلط تھی کہ جس نے کلاشنکوف اور ہیروئن جیسے جان لیوا نشے کو ہر جانب پھیلا دیا۔ ان دونوں ہلاکت خیز ہتھیاروں کا ہدف عوام بنے۔ سڑکوں، کونوں کھدروں میں غریب نشہ کرتے نظر آنے لگے، یوں دھرتی پر بوجھ بنے عوام کو اتارا گیا۔ یہ طویل رات بڑی بھیانک تھی اور اسے مذہبی رنگ دیتے ہوئے بھی حکمران کانپے نہیں۔ ان پر لرزہ طاری نہیں ہوا۔ مگر عوام مزید کانپنے لگے، ہانپنے لگے، ہیروئن کے نشے میں دھت عوام کی زندہ لاشیں تھیں اور ’’ظالم‘‘ تھے۔
اس بھیانک رات کے بعد کچھ بھی دیکھنے کو باقی نہیں بچا تھا۔ فیض صاحب کا شعر آگیا ہے۔
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ نے دل لگا کے دیکھ لیا
اب جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ عوام دشمن قوتیں مضبوط تھیں اور ’’بے رحم‘‘ بھی تھیں۔ ان کا دین، ایمان، دھرم صرف پیسہ تھا اور ہے۔ مرنے کے بعد والی جنت پر ان کا ایمان نہیں۔ جنت کے سارے مزے وہ دنیا ہی میں لوٹ کر مرنے پر یقین رکھتے ہیں ، جس پر وہ کاربند ہیں۔ تین چار سال کے بچے بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل! اورکیا دیکھنے کو باقی ہے، اور اس پر دیکھیے کہ سیاست دان سب کچھ جانتے بوجھتے اپنے اپنے لیڈروں کے حق میں جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ صورتحال 70 سال سے یہی ہے کہ ان ظالم لٹیروں کے پاس بندوق ہے، زمینیں ہیں، ملیں ہیں، خانقاہیں ہیں اور مظلوم و بے بس عوام نہتے ہیں، بے زمین ہیں، ملیں اور خانقاہیں بھی ان کی نہیں ہیں اور اگر کوئی غریب دوست حکمران بن جائے گا تو وہ کہنے کو غریب دوست ہوگا۔
سیاستدان، وکلا، صحافی، علما تقسیم ہیں مگر سچ کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب غریب جانتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کا فیصلہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ انصاف کی تحریکی حکومت اور یہ فیصلہ! دیگر سیاستدان بھی خاموش ہیں، تو پھر فیض کا کہا مان لیتے ہیں ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ پنجاب اور سندھ کے دو عوام دوست درویش شاعروں کے حوالے سے شاعر عوام حبیب جالب لکھتے ہیں۔
وارث شاہؒ، بھٹائیؒ دونوں مل کر روتے ہیں
اور رکھوالے دیس کے لمبی تان کے سوتے ہیں
ان کے چہرے زرد زرد ہیں، ان کی آنکھیں ہیں نم نم
اپنے خون پسینے سے جو جیون جوتے ہیں
اک دوجے کو برا بھلا کہنے کے سوا کچھ کام نہیں
کیا سارے جگ میں نیتا ایسے ہی ہوتے ہیں
ان کے کھاتے اندر بھی ہیں، ان کے کھاتے باہر بھی
لوگو! جن لوگوں کے لوٹنے والوں سے سمجھوتے ہیں۔
میرے تیرے بچے کو چپڑاسی بھی کب بننا ہے
صدر بنیں گے وہی پرانے صدروں کے جو پوتے ہیں
جالب انھی کا نام رہے گا رہتی دنیا تک
اپنے شعر میں جو لوگوں کے درد سموتے ہیں
The post ہانپتے کانپتے لوگ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Wj0MLj
0 comments:
Post a Comment