’’آسٹریلیا کے دورے میں چند بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ اگر نتائج اچھے نہ رہیں تو تشکیل نو کا نعرہ لگا سکیں،16 ،17سال کے بولرز کو کھلانے کا کریڈٹ بھی مل جائے گا‘‘
شاید حالیہ سیریز سے قبل قومی کرکٹ کے ’’آل ان ون‘‘ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کے ذہنوں میں کچھ ایسی ہی سوچ موجود ہو لیکن یہ فیصلہ اتنی برْی طرح بیک فائر کر جائے گا یہ کسی نے نہیں سوچا ہوگا، جب آپ کسی ایک انسان کو ہی ساری پاورز سونپ دیں تو وہ من مانی کرنے لگتا ہے جس کا پھر خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے،نسیم شاہ اور موسیٰ خان کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں، دونوں اچھے بولرز ہیں مگر کیا وہ اتنی جلدی ٹیسٹ کھیلنے کیلیے تیار تھے؟
جلد بازی میں ڈیبیو کرانے کا پلیئرز نہ ہی ٹیم کو فائدہ ہوا، نسیم کا آغاز متاثر کن رہا لیکن جس طرح ان سے کم بولنگ کرائی گئی اس سے واضح تھا کہ ٹیم مینجمنٹ کو انجری کا خدشہ ہے، پھر ایک میچ بعد ہی باہر بٹھا دیا، ایڈیلیڈ میں موسیٰ کا ڈیبیو ہوا مگر وہ اچھا پرفارم نہ کر سکے، اگر سیریز میں تیسرا ٹیسٹ ہوتا تو انھیں بھی ڈراپ کر دیا جاتا، ایسے فیصلوں پرمیچ سے قبل تک تو واہ واہ ہوتی ہے مگر بعد میں اسکور شیٹ دیکھ کر ٹیم مینجمنٹ کو برا بھلا ہی کہا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے مصباح الحق کنفیوڑ ہیں، انھیں خود نہیں پتا کہ کیا کرنا ہے، سری لنکا کی کاغذ پر کمزور لگنے والی ٹیم کیخلاف مضبوط ترین اسکواڈ منتخب کیا، عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے بھولی بسری داستان بنے کھلاڑیوں کو بھی واپس لے آئے مگر پھر بھی ہار گئے، اس سیریز میں چند ینگسٹرز کو آزمانا چاہیے تھا، آسٹریلیا میں جہاں تجربہ کار بولرز کی ضرورت تھی وہاں بچوں کو لے گئے۔
ناتجربہ کار کھلاڑی اگر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں، آسٹریلیا کی سرزمین پر ہزاروں شائقین کے سامنے مضبوط میزبان بیٹنگ لائن کیخلاف آتے ہی پرفارم کرنا کیسے ممکن تھا، نوجوان کھلاڑیوں کو1،2سال مزید ڈومیسٹک کرکٹ اور جونیئر ٹورز میں تجربہ دلانے کے بعد قومی ٹیم میں لانا چاہیے، یہ مصباح کے سر پر جو نوجوان کھلاڑیوں کو کھلانے کا جنون سوار ہے وہ یہ کیوں بھول گئے کہ خود 43 کی عمر تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل عمدہ پرفارم کرنے والے تابش خان کی شکل کیوں انھیں دکھائی نہیں دیتی، صدف حسین جیسے کئی بولرز بھی چانس ملنے کی آس لیے ہمت ہار گئے،ویسے آسٹریلیا میں ناقص کارکردگی کا تمام تر ملبہ صرف مصباح پر ڈالنا بھی درست نہیں، پی سی بی بھی برابر کا قصوروار ہے جو انھیں بے پناہ اختیارات سونپنے کی غلطی کا مرتکب ہوا، حکام کی کمزور گرفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمد عامر کوٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کی اجازت دے دی۔
پیسر کو فکسنگ کیس کے بعد ٹیم میں واپس لا کر احسان کیا گیا جس کا صلہ انھوں نے ٹیم کوبیچ منجھدار میں چھوڑ کر چکایا، کیسے کوئی کھلاڑی ازخود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے کون سی کرکٹ کھیلنی ہے کون سی نہیں، اگرسابق کرکٹرز کی جانب سے عامر کا سینٹرل کنٹریکٹ منسوخ کرنے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں تو یہ غلط نہیں ہیں، انھیں جسم کو آرام دینا ہے ناں تو ٹھیک ہے غیرملکی لیگز کیلیے این او سی بھی نہیں دینے چاہئیں تاکہ مکمل ریسٹ کریں،اسی طرح وہاب ریاض کو کیوں ٹیسٹ کرکٹ سے دوری کی اجازت دی گئی۔
اگر ایسا چلتا رہا تو ایک دن آئے گا کہ ٹیسٹ ٹیم کیلیے اچھے پلیئرز پر مشتمل الیون منتخب کرنا بھی مشکل ہو جائے گی، مجھے پہلے ہی ایسا لگ رہا تھا کہ ٹیم یہ سوچ کر آسٹریلیاآئی ہے کہ یہاں ماضی میں کون سا جیتے تھے جو اب جیت جائیں گے، اگر ایسا تھا تو دورہ کیوں کرتے ہیں، جب تک مثبت سوچ نہ ہو اچھے نتائج کیسے حاصل ہو سکتے ہیں، بدقسمتی سے نئی مینجمنٹ ٹیم کی کارکردگی بہتربنانے میں مسلسل ناکام ثابت ہوئی ہے،اس سے نوبال کا مسئلہ تو حل نہ ہو سکا،دونوں ٹیسٹ میں اس وجہ سے ڈیوڈ وارنر کی قیمتی وکٹ سے محروم ہونا پڑا۔
حالیہ سیریز کے دوران سامنے آنے والے عجیب و غریب فیصلے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ آئندہ بھی کوئی امید نہ رکھی جائے، ٹی20میں پہلی پوزیشن چند دنوں کی مہمان ہے، خدانخواستہ سری لنکا سے ہوم سیریز میں نتائج اچھے نہ رہے تو ٹیسٹ رینکنگ میں آٹھویں پوزیشن پر جانا پڑے گا، یہ ان مصباح الحق کیلیے بڑی شرمندگی کی بات ہو گی جن کے دور قیادت میں چند دنوں کیلیے قومی ٹیم نمبر ون بھی بنی تھی، آسٹریلیا سے ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں اب تک2دن کا کھیل ہو چکا اور بدقسمتی سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ میچ بچانا بھی ناممکن ہوگا۔
بابر اعظم کے سوا دیگر بیٹسمینوں کی کارکردگی بھی شرمناک رہی ہے، خیر اس سیریز میں تو جو ہونا تھا وہ تقریباً ہو چکا، اب سری لنکا سے 10 سال بعد ہوم ٹیسٹ سیریز ہو رہی ہے اس میں مثبت نتائج کیلیے منصفانہ سلیکشن کرنا ہوگی، افتخار احمد اور عمران خان سینئر کو ٹیسٹ ٹیم میں واپس لا کر نتیجہ دیکھ لیا، اب فواد عالم سمیت ایسے کرکٹرز جو مسلسل ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارم کر رہے ہیں انھیں موقع دینا چاہیے۔
کبھی کسی کی شکل اچھی نہ لگے تو بھی کام لینے کیلیے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ساتھ رکھنا پڑ جاتا ہے، مصباح بھی ایسا ہی کریں، ذاتی پسند ناپسند پر سلیکشن کر کے دیکھ لی اب میرٹ کو ترجیح دیں شاید اس صورت میں ہوم سیریز میں اچھے نتائج سامنے آ جائیں، ورنہ یہ پاکستان ہے یہاں آسمان پر چڑھانے اور پھر زمین پر پٹخنے میں دیر نہیں لگتی، ابھی تو صرف وزیر اعظم کے ایک مشیر نے ہی انھیں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے کل کو یہ آوازیں مزید بلند بھی ہو سکتی ہیں تب کوئی ان کو بچانے کیلیے ساتھ نہیں کھڑا ہوگا۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post 16، 17 سال کے بولرز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qZTf8Q
0 comments:
Post a Comment