ابھی ابھی اتفاقاً فیس بُک کے ایک بلاگ (غالباً اسے یہی کہتے ہیں) پر نظر پڑی تو دو ناموں اور اُن کی تصویروں نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ ، ڈاکٹر شاہد مسعود کے کسی ٹی وی پروگرام کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جس پر رضا رومی نے کوئی کمنٹ کیا تھا۔
ایک تو میں ڈاکٹر معید پیرزادہ کو نسبتاً ایک بہتر اور باقاعدہ اینکر سمجھتا ہوں دوسرے ذکر دو ایسے لوگوں کا تھا جس سے بوجوہ میری ذاتی دلچسپی اور تسلی خاطر ہے کہ شاہد مسعو د سے رابطہ اس وقت سے ہے جب ابھی انھوں نے میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا ہی تھا اور عزیزی رضا رومی سے اُس کی ذاتی خوبیوں اور عمدہ تحریروں کے ساتھ ساتھ برادرم شیخ ریاض اور بہن بلقیس ریاض کی اولاد ہونے کے ناتے سے بھی ایک پرانا اور محبوب تعلق ہے۔
سو میں نے ڈاکٹر معید کی بات سننا شروع کر دی جو ان دو اصحاب کے تذکرے سے ہوتی ہوئی ایک ایسے موضوع کے گرد گھومنے لگی جس پر میں خود اکثر سوچتا رہتا ہوں اور سچ پوچھئے تو میں اس حسنِ اتفاق کا شکر گزار بھی ہوں کہ اس گفتگو کی وساطت سے بہت سے سوالوں کے جواب میرے ذہن میں زیادہ واضح اور بامعنی ہوتے چلے گئے اور یوں فیس بک پر صرف کیے گئے یہ چند منٹ اُس بے مصرف اور خاصے طویل عرصے کی تلافی بن گئے جو نہ چاہتے ہوئے بھی آج کل ہماری وقت گزاری کا ایک اور مستقل حصہ بن چکے ہیں ۔
گفتگو کا اصل موضوع یہ تھا کہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں بعض اینکر حضرات جان بوجھ کر نہ صرف سنسنی پھیلانے والے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں بلکہ اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے اور ضروریات کے مطابق اس زیادہ تر خود ساختہ آگ پر تیل بھی چھڑکتے رہتے ہیں کہ یُوں اُن کے پروگراموں کی رینکنگ بڑھتی ہے، چاہے اس سارے عمل میں حقائق ، انصاف اور اخلاقیات کا دیوالہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ اب یہ تصویر ایسی ہے کہ مجھ سمیت بیشتر لوگ اس سے کم یا زیادہ اتفاق ضرور رکھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بلکہ کچھ مہینوں سے یہ بات اکثر موضوع، گفتگو رہتی ہے کہ موجود دور میں اظہار رائے کی آزادی متاثر ہو رہی ہے بلکہ میڈیا انڈسٹری کے سیکڑوں لوگ (جن میں زیادہ تعداد کم آمدنی والے ملازمین کی ہے) یا تو بے روزگار ہو گئے ہیں یا انھیں کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے ہر طرف ایک افواہوں کا بازار سا گرم ہے لیکن اصل اور صحیح صورتِحال سامنے نہیں آ رہی کہ آخر یہ مسئلہ ہے کیا اور اس سارے بگاڑ میں کس کا کتنا حصہ ہے؟
ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اسی سے ملتے جلتے ایک مکالمے یا مبالغے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت فاضل قسم کے مقررّ نے بھری محفل میں یہ تک کہہ دیا کہ یہ لوگ اینکرز نہیں کچھ اور ہیں جو روزانہ شام 5 بجے کے بعد اپنا اپنا تماشا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر معید کا استدلال بہت مضبوط اور فکر انگیز تھا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو اس تماشے کے پروڈیوسرز اور تماشا ئی کون، کیوں اور کیسے ہیں؟
یہ بات تو طے ہے کہ کم از کم پاکستانی میڈیا کی حد تک حکومت اسے کسی طرح کے قانونی اور براہ راست مالی معاونت فراہم نہیں کرتی، اب رہ جاتے ہیں لے دے کر وہ ادارے جن کی مصنوعات کے اشتہارات کی آمدنی سے چینلز کو اپنے سارے خرچے پورے کرنے ہوتے ہیں ۔ یہ انھی پروگراموں کو زیادہ اشتہارات دیتے ہیں جو سنسنی پھیلانے اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر مکالمے کے نام پر مرغوں کی لڑائی کا اہتمام کرتے ہیں اور ایسی غیر مصدقہ مگر نزاکت کی حامل خبروں یا افواہوں پر کئی کئی گرما گرم پروگرام کرتے چلے جاتے ہیں جن کے اندر یا تو سرے سے کچھ نہیں ہوتا یا ان کا حاصل دو چار دن کے لیے لوگوں کو مزید فرسٹریٹ اور پریشان کرنا ہوتا ہے اور یوں آگ سے آگ پیدا ہوتی اور پھیلتی رہتی ہے۔
پرانے وقتوں میں مشہور تھا کہ ایک کیڑا ایسا بھی ہوتا ہے جس کا رزق آگ میں ہوتا ہے، سو آج کے زماے میں بعض اینکرز بھی اسی قسم کے گروہ سے لگتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جس آگ پر یہ چلتے ہیں اُس کو فراہم کون کرتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اس آگ کے عناصر ترکیبی میں رینکنگ کا سسٹم، پروگراموں کی گریڈنگ، اُن کا معیار کا تعین اور انھیں دیکھنے والوں کی اس مبینہ مقدار سے کیا جاتا ہے جس کو ناپنے کا کوئی معقول اور قابلِ اعتبار طریقہ سرے سے ہمارے اس سسٹم میں موجود ہی نہیں ہے۔
اشتہار دینے والے کے سامنے اگر صرف یہ معیار رکھا جائے کہ اُس کے پروڈکٹ کس پروگرام کی سپانسر شپ کی وجہ سے زیادہ خریداروں تک پہنچے گی تو دو اور دو چار کے مطابق اُس کا فیصلہ وہی ہو گا جو کہ آج کل کیا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے یہ جاری زوال اور انتشار کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جب کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صرف ’’مقدار‘‘ کی بنیاد پر کسی ایسے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا جس کا تعلق ’’معیار‘‘ سے ہی ہو۔
سو اصل بات اُس سنسنی خیزی، بدتمیزی اور اخلاقی معیارات کی بے حرمتی ، ہے جن کی جمع تفریق کے بعد اینکرز پر ساری ذمے داری ڈالنے کے بجائے اُس معاشی ’’بوجھ‘‘ کو بھی بدلنے اور ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے جس کے گرد یہ سارا نظام گھومتا ہے۔ یہ معاملہ ’’بوجھ‘‘ پر تنقید کرنے کا نہیں بلکہ اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے کا ہے سو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تقسیم کا آغاز وہاں سے کیا جائے جہاں یہ سب عناصر اکھٹے اور یکجا ہوتے ہیں اور اس کے بعد معاشیات اور اخلاقیات کا ایک ایسا سلسلہ وضع کیا جائے جس میں نہ صرف ہر ایک کے حقوق اور فرائض اور ان کا دائرہ کار متعین ہو بلکہ ان کی حفاظت بھی ایک ایسے نظام کے سپرد ہو جس کی بنیاد صرف اور صرف انصاف اور خیر کے حصول پر ہو۔
The post ’’اپنے اپنے حصے کا بوجھ ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OFllzv
0 comments:
Post a Comment