Ads

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور 

ہماری غالبؔ پسندی پر اکثر لوگ سوال اٹھاتے ہیں، خدا بخشے ڈاکٹر محمد اعظم اعظم نے ایک روز پوچھا، یہ دیوان غالبؔ،غالبؔ کیا ہے یا آپ نے لکھا ہے۔ خیر وہ تو غالبؔ کے اور بھی بہت سارے مغلوب ہیں ہمارا شمار کسی بہت پیچھے کی قطار میں بھی نہیں ہے۔ لیکن غالبؔ پسندی کی اصل وجہ خود غالبؔ ہی ہیں لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان کے دو مصرعوں کے کوزے میں ایک سمندر شعر کی بات کریں ایک اور پہلو پر کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

اکثر لوگ ہماری غالبؔ پسندی پر معترض ہوتے ہیں کہ انھوں نے تو بہادرشاہ ظفر اور دوسرے شہزادوںاور نوابوں وغیرہ کی چاپلوسانہ مدح سرائیاں کی ہیں، اس کا پہلا اور فوری جواب تو یہ ہے کہ کیا ہم نہیں کرتے، تم نہیں کرتے اور یہ سارے لوگ نہیں کرتے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر اور نوابوں رئیسوں کی جگہ ’’سایہ خدائے ذولجلال‘‘ کی کرتے ہیں۔ نظریہ پاکستان کی کرتے ہیں، وزیروں اور لیڈروں کی کرتے ہیں، وطن کے پردے وطن خوروں سے حسن طلب کرتے ہیں۔

غالبؔ صرف ایک شاعر اور نابغہ تھے۔ نہ ان کی کوئی جائیداد تھی نہ منصب نہ رتبہ اور نہ کوئی ذریعہ آمدن اور بدقسمتی سے خاص تو ہو گئے تھے لیکن ’’خاصیت‘‘ کو برقرار رکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، آج کی اصطلاح میں سفید پوش اور وائٹ کالر تو تھے لیکن باقی کچھ نہ تھا اس لیے ہر قسم کا کام یا مزدوری یا دیہاڑی بھی نہیں کر سکتے تھے، سپہ گری ان کے سو پشت والے کرتے تھے، خود چاقو یا غلیل چلانا بھی نہیں جانتے اور کُرتے کے نیچے یہ پاپی پیٹ بھی رکھتے بلکہ کچھ اور پیٹ بھی اس پیٹ سے جڑے ہوئے تھے تو آخرکیاکرتے وہی کرتے جو ان کو آتا تھا اور وہ کرتے رہے۔

ہم سے ایک دن کسی نے ہمارے ایک ٹی وی ڈرامے کے بارے میں پوچھا، تم نے اپنے اس ڈرامے میں فلاں چیز پر دھیان دیا ہے، ہم نے عرض کیا کہ ریڈیو اور ٹی وی میں صرف ’’چیک‘‘ پر دھیان دیتے ہیں اور کسی بھی چیز پر نہیں دیتے۔ اگر انھوں نے مدح سرائیاں کی ہیں تو دل سے نہیں بلکہ ’’پیٹ‘‘ سے کی ہیں اور دھیان دیے بغیر کی ہیں۔ اور یہی آج کل بھی بڑے بڑے جغادری لوگ کرتے ہیں۔ نظریہ پاکستان والوں کے خواب گر علامہ اقبال بھی کرتے تھے۔ کرتے کیا؟ بہرحال کسی کو اچھا لگے یا برا ہمارا تو عقیدہ ہے کہ

’’آپ بے بہرہ ہیں جو متعقد مرزا نہیں‘‘

آج ہم صرف ان کا ایک شعر زیر بحث لاتے ہیں جس میں دو مصرعے اور چند الفاظ ہیں۔ لیکن کوزے میں بحر بھی نہیں ’’مجمع البحرین‘‘ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس شعر کو علمائے ادب نے تکینکی لحاظ سے رد کر کے ’’غزل بدر‘‘ کیا ہوا ہے کیونکہ اس میں ’’پا‘‘ کی تکرار ہے ع

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

’’پاپا‘‘ کو نظر انداز کر کے پڑھیے کہ اہمیت برتن کی نہیں ہوتی ’’پکوان‘‘ کی ہوتی اور پھر سوچیے ذرا گہرائی سے بلکہ جدید ترین سائنسی و طبعیاتی علام کی روشنی میں دیکھیے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ نیوٹن تھا نہ آئن اسٹائن اور سٹفین ہاکنگ بلکہ ابھی گلیلیو گلیلی زمین کو سورج کے گرد گمانے میں بھی مرتے مرتے بچا تھا۔ ’’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم‘‘۔ وہ اس دوسرے قدم کے بارے میں متجسس ہیں ۔ جس کا کوئی نام و نشان تک نہیں، پہلا قدم تو ایک ’’نقش‘‘ کی صورت میں ان کے سامنے تھا لیکن دوسرا قدم؟ یہی وہ جاننا چاہتے ہیں ’’نقش پا‘‘ یا ایک نقش پا کا پتہ تو اب لگ چکا ہے کہ آج بیس ارب سال پہلے اس کاسموس میں ایک ذرے کے پھٹنے سے شروع ہوا تھا۔

ہر تخئیل سے ماورا ہے تو

ہر تخئیل میں ہے مگر موجود

ترا ادارک غیر ممکن ہے

عقل محدود تو ہے لا محدود

مطلب یہ کہ انسان اس کائنات میں سمندر کے ایک قطرے، صحرا میں ایک ذرے اور کسی بڑے جنگل میں کسی پیڑ کی شاخ  کے ایک پتے سے چمٹا ہوا کیڑا ہے۔ جس کی پہنچ اپنے پتے یا زیادہ سے زیادہ شاخ تک ہے اور عمر دنوں میں ہے ،اب کی معلومات کے مطابق اس کائنات کی وسعت پندرہ کھرب نوری سال ہے، اس کی عمر بیس ارب سال کم ازکم ہے اور پھر اس میں ہمارے نظام شمسی جسے نظام سو ارب جمع سو ارب جمع صفرہے اور انسان ابھی اپنے ہی نظام شمسی یا گھر کے کسی سیارے تک بھی نہیں پہنچاہے۔

غالبؔ بھی ایک انسان ہونے کے ناتے اپنی نارسائی سے باخبر ہے۔ وہ ایک عالم فاضل شخص ہونے کی وجہ سے دنیا اور آخرت سے بھی اس حد تک واقف تھے جس حد تک رب عظیم نے اسے بتایا۔ لیکن پھر بھی وہ دوسرے قدم کے تمنائی ہیں اس سے ان کے ذہنی استعداد کا اندازہ اچھی طرح ہو جاتا ہے اس ایک نقش پا کے علاوہ اور کیا کیا ہے، وہ اس کے بارے میں متجسس ہیں، جان سکتے ہیں یا نہیں اتنی استعداد اور استطاعت ان میں ہے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔کسی چیز کو پانا اور بات ہے اور اس کی تمنا کرنا اور بات ہے لیکن تمنا سے تمنائی کی سوچ کا اندازہ تو ہو جاتا ہے ورنہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ع

نظر میں ہماری جادہ راہ فنا غالبؔ

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

یعنی ’’فنا‘‘ بھی آخری منزل نہیں ہے، فنا تو پھر اجزائے پریشاں کو یکجا کرنے کا نام ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شے فنا نہیں ہوتی بلکہ ماہیت بدلتی ہے۔ شکل بدلتی ہے اور ’’کل‘‘ من علیہافان‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ ایک شکل سے دوسری دوسری سے تیسری۔ کیونکہ جب خالق ہے تو خلق بھی رہے گی، سارا صرف ’’فصل و وصل‘‘ کا سلسلہ ہے بقول مولانا ئے روم

ہم جنس اقلیم تا اقلیم رفت

تاشد عاقل و دانا و زفت

The post کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور  appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rdFZNF
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment