Ads

کہیں نا کہیں تو ہے

یارکوئی کچھ کھل کر نہیں بتا رہا ہے، سب ادھوری باتیں کرتے اور ادھورے سے تذکرے کرکے چپ ہو جاتے ہیں بلکہ عجیب سے پراسرار انداز میں دائیں بائیں بھی نہ جانے کیوں دیکھتے ہیں۔

ویسے یہ باتیں پہلے بھی کانوں میں پڑتی رہی ہیں لیکن سمجھا کہ ارے یوں ہی بے پرکی اڑادی گئی ہے۔ ایسی جگہ ، ایسا خطہ ، ایسا ملک ایسی سر زمین اس دنیا میں تو ملنا مشکل ہے، لیکن پھر تواتر سے ایسی باتیں سننے اور پڑھنے میں بھی آنے لگی ہیں گوکہ انداز ابہامی اور علامتی ہے لیکن لگ رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ توحقیقت ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے دھواں وہیں سے اٹھا کرتا ہے تو سوچا کہ اسے ذرا صفحہ قرطاس پر بکھیرا جائے تو شاید کہیں سے کوئی مزید شہادت میسر آسکے۔

تو قصہ کچھ یوں ہے اور خبرکافی عرصے سے گرم ہے یاکچھ اڑتی اڑتی سی مستقل خبریں سننے میں آرہی ہیں ، کچھ کہانیاں،کچھ افواہیں سی کانوں میں پڑ رہی ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا خطہ، کوئی ایسا زبردست ’’ نوٹوپیا‘‘ نامی ملک ہے جہاں کچھ عجیب ہی حال واحوال اور معاملات ہیں ، بالکل طلسم ہوشربا کے شہر ناپرساں کی طرح یا اندھیر نگری کے چوپٹ راج کی مانند۔

سنا ہے کہ وہاں کے رہنما، لیڈران ، قائدین، اشرافیہ اور بڑے بڑے لوگ وغیرہ اسے گالیاں دے کر اور برا بھلا کہہ کر بھی نہ صرف خوش باش اور مقبول رہتے ہیں، بلکہ سچ بولنے کے نام پر خوب تلبیس( سچ جھوٹ کو ملا کر پیش کرنا) کیاکرتے ہیں اور مقبولیت کی خود ساختہ بلندیوں پر بھی متمکن رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ محنت شاقہ اور جہد مسلسل سے انھوں نے اپنی یہ عادت جسے بڑی ڈھٹائی سے آزادی اظہار رائے کا نام دیا جاتا ہے اپنے بیشتر پیروکاروں اورعوام میں بھی منتقل کردی ہے اور وہ بھی اس کار خیر میں اپنے رہنماؤں سے دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔

اور یہ کہ د نیا میں کوئی ایسا خطہ کوئی ایسا ملک بھی ہے جہاں ایک ایسا ہائیڈ پارک نما مقام ہے جسے سوشل میڈیا کہا جاتا ہے اور اس پر طرح طرح کے بزعم خود دانشور اور فضلاء ، صحافی و ادیب ، قلمکار اور اہل الرائے احباب بھی اپنی دانشوری و ادب و صحافت اور قلم کاری کی دکان اپنے ہی ملک اور اس کی اقدار کی بے عزتی کر کے چمکاتے چلاتے اور بونس میں اور داد بھی پاتے ہیں۔

جہاں بد عنوانی یا کرپشن کو ایک نادر روزگار فن کا درجہ حاصل ہے اور اسے یہ بلند درجہ فن عطا کرنے والے عالمگیر شہرت کے حامل بڑے بڑے فنکارنہ صرف چاہے اندر ہوں یا باہرہمیشہ ہی ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔کرپشن کے لیے بڑی تندہی سے مختلف نظام وضع کرنے والے یہ معززین، معزز بھی سمجھے جاتے اور رہبر وقائد بھی، اور جب کبھی شاذ ونادر شومئی قسمت اگر پکڑے جائیں تو غیظ وغضب میں اس درخت کو ہی کاٹنے کی باتیں کرنے لگ جائیں جس نے نہ صرف انھیں سایہ اور پناہ دی بلکہ کرپشن کے فنِ بد عنوانی میں عبقری دسترس حاصل کرنے کے لا محدود مواقع بھی فراہم کیے۔

جہاں خون خاک نشیناں تو سستا ہے لیکن پانی بہت مہنگا ہے، جہاں غریب کی زندگی روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے ایک عذاب کسی وبال سے کم نہیں ہے جہاں معصوم بچے بچیاں بھی حیوانیت سے محفوظ نہ ہوں۔ جہاں صرف اندھے عقیدوں، دقیانوسی غلیظ روایتوں، اور جاہلانہ رسم و رواج کی حکمرانی ہے اور ان ہی کی پیروی کی جاتی ہے۔ جہاں تعلیم وتربیت کے نظاموں کو قصداً، اراداتاً منصوبہ بندی سے اس لیے تباہ کیا جائے کہ باشعور و تعلیم یافتہ فرد تو حقوق مانگے کا اس لیے جاہل ہی رہنے دو والی سوچ کا راج چلتا ہو۔

جہاں علم وتحقیق کی بڑی ڈگریوں کے حصول کو جعل سازی اورکاپی پیسٹ تیکنیک کے استعمال سے اتناآسان کر دیا گیا ہو کہ معدودے چند کو چھوڑ کر ہر فیکلٹی میں ڈاکٹریٹ کی بہاریں ہوں، جہاں خدمت کرنے والے اور ملک پر احسانات کرنے والے، اسے خون جگر پلانے والے، اسے جوہری ٹیکنالوجی دینے والے نظر بند رہتے ہیں اور اس کو لوٹنے والے دنیا بھر میں اس کا نام اچھالنے والے آزاد گھومتے اور جھومتے پھرتے ہیں۔

ایسا الف لیلوی خطہ زمین کہ جہاں کے لوگ اپنے دین کے نام پر لڑنے مرنے اور زندگی تو فوراً قربان کرنے پر تیار ہو جائیں مگر زندگیوں کواسی دین پر لانے اور اس کے مطابق گزارنے میں ان کی سانسیں رکنے سی لگیں۔ جہاں مال و منال کے حصول کی خاطر ہر حد بلا جھجک توڑ دی جاتی ہو ، ہر سرخ لکیر بڑی بے فکری سے عبورکرلی جاتی ہو، جہاں قبر ، حشر ، آخرت کی باتیں اور بیانات تو خوب زور وشور سے ہوتے رہتے ہوں مگر عمل و اعمال اس کے بالکل برعکس و برخلاف ہوتا ہو۔ جہاں تعصب اور نفرت کی باتیں کرنے والا حق گو کہلائے اور غداری کرنے والا محافظ… جہاں ایک ایک چھوٹی بڑی کرسی اور ہر ایک عوامی عہدوں کے اتنے اتنے اور ایسے ایسے ناقابلِ بیان قابل امیدواران ہیں کہ اعلیٰ سطح پر یہ تجویز زیر غور ہوکہ سب عہدہ جاتی کرسیاں ہٹا کرسفید دریاں بچھا دی جائیں تاکہ سب ہنسی خوشی ایڈجسٹ ہو سکیں۔

ایسا پیارا اور بے فکر و آزاد گوشہ زمین جہاں جس کا جب جو دل چاہے وہ کر لیتا ہے یعنی آزادی کی جیسے انتہا ہے۔ عوامی مظاہروں خصوصا دھرنوں وغیرہ کو قومی مشغلوں کا درجہ حاصل ہو اور سب اپنے اپنے ان پسندیدہ مشغلوں میں ہر وقت مصروف اور منہمک نظر آتے ہیں۔ اچھا اس خطے کے بارے میں کچھ بد خواہ جانے کیوں اس قسم کی افواہیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں کہ وہاں پیون یعنی چپراسی بھی بننے کے لیے تو سرکاری معیار اہلیت بڑا کڑا ہوتا ہے اور تجربہ تو لازمی ہوتا ہے لیکن وزیر مشیر وغیرہ بننے کے لیے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا گیا کوئی شرائط نہیں لگائی گئی ہیں بس قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہر امیر آدمی یا عورت جب چاہے وزیر سفیر مشیر بن جائے۔

اب پتہ نہیں کہ یہ سب سچ ہے یا یار لوگوں نے یونہی کہانیاں سی بنالی ہیں اور کوائف گھڑ لیے ہیں۔ لیکن یارو! نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کچھ گمان سا ہوتا ہے کہ اس عجائب خانہ دنیا میں، ضرور بالضرور اسی جہاں میں،اسی دنیا میں،ہمارے نظام شمسی کے اسی کرہ ارض پر، کوئی نہ کوئی ایسی جگہ، ایسا عدیم النظیر اور حیرت انگیز خطہ زمین ضرور موجود ہے اور شاید یہ افواہیں یا باتیں درست ہی ہیں، میں بڑے عرصے سے کوشش میں لگا ہوا ہوں مگر اب تک کچھ پتہ نشان مل نہیں پایا ہے۔

دیسی بدیسی سائنسی غیر سائنسی طریقوں، ترکیبوں اور ٹوٹکوں کو استعمال کیا مگرکچھ پتہ نشان حاصل نہیں ہوا حتی کہ گوگل میپ بھی ٹرائی کیا، پر اس نے بھی ہاتھ اٹھا دیے اور کچھ بھی معلوم نہیں ہو پایا۔ مگر میں ایک سچے پاکستانی کی طرح ہمت نہیں ہاروں گا ڈھونڈ کر ہی رہوں گا اس’’ نوٹوپیا ‘‘ کو، سچی مچی! … تو اگر آپ کو کچھ پتہ ہو توبرائے مہربانی ضرور بتائیے گا اور موقع لگا تو مل کر وہاں گھومنے پھرنے اور عجائبات کا نظارہ کرنے بھی چلیں گے مگر آپ کے خرچے پر، اگر آپ کو برا نہ لگے تو۔ اور ہاں بالکل کسی بھی قسم کی کوئی فکر نہ کریں کہ اطلاع دینے والے کا نام سختی سے صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

The post کہیں نا کہیں تو ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QbJ5MG
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment