Ads

آبادی، وسائل اور مستقبل

عوام کو خوشحال اور با اختیار بنانا ملک کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر مقتدرطبقات اور مختلف حکمرانوں کی غفلت اور ذاتی مفادات کے نتیجے میں ملک ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہے آج پاکستان کوکئی بڑے چیلنجزکا سامنا ہے، ان میں سے ایک اہم ترین مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔

ہم ایک خطرناک موڑ پرآ گئے ہیں جہاں اصلاحات کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں ہے، بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منصوبے بھی اس لیے نا کام ہو جاتے ہیں کہ جب وہ منصوبہ مکمل ہوتا ہے، اس وقت آبادی میں اس قدر اضافہ ہو جاتا ہے کہ آبادی کی مطابقت سے وہ سہولیات کم ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی اس قدر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک خوفناک مسئلے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ناکافی وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لہٰذا معاشی منصوبوں کو بڑھتی ہوئی آبادی سے ناکامی کا خطرہ لاحق رہے گا۔

اگر بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی آبادی آیندہ پچاس سے ستر سال کے دوران سو کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ موجودہ وسائل کی مناسبت سے پاکستان کی آبادی کو 15 کروڑ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، ہم آبادی کے معاملے میں خطرے کے نشان سے آگے جا چکے ہیں اور مزید آگے بڑھ رہے ہیں، جو تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت موجودہ پاکستان اور اُس وقت کے مغربی پاکستان کی آبادی قریباََ سوا تین کروڑ تھی جو آج 22 کروڑ تک پہنچ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی بے شمار مسائل کو جنم دے رہی ہے جس میں غربت ، پسماندگی اور ماحولیاتی آلودگی سرفہرست ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی پوری دنیا کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، سمندرکی سطح کا بڑھنا، سمندری آلودگی، زہریلی گیسوں کا اخراج، جنگلات اور زرعی اراضی کا خاتمہ، صاف پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور انسانی سرگر میاں ہیں۔

1900ء میں پوری دنیا کی آبادی تقریباََ ایک ارب تھی۔ جو اب پونے آٹھ ارب تک پہنچ رہی ہے۔ 2050ء میں دنیا  کی آبادی 10 ارب تک پہنچ جائے گی، اس طرح دنیا بھر میں خوراک اور پانی کی کمی کا بہت بڑا بحران ہو گا۔ پاکستان میں اس کی ابتدا ہو چکی ہے توانائی کے موجودہ وسائل بھی پاکستان کی آبادی کے لیے نا کافی ہو چکے ہیں۔

کرہ ارض کے وسائل محدود ہیں۔ ان وسائل سے ایک محدود آبادی کو ہی پانی اور خوراک مہیا ہو سکتا ہے اب یہ وسائل کم ہو رہے ہیں۔ ان وسائل کے حصول کے لیے مختلف ممالک میں جنگوںکا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں آبادی مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ شرح پیدائش میں اضافہ ہے۔ بہبود آبادی کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صحت کے بارے میں آگہی اور جدید سہولیات سے شرح اموات میں کمی واقع ہوئی ہے جو خوش آیند ہے لیکن شرح پیدائش کا تناسب بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے توازن بگڑ رہا ہے۔

سماجی رسومات کے تحت کم عمرکی شادیاں عام ہیں ۔ اولاد نرینہ کی خواہش کے تحت خاندان کے افراد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کی صحت پر توجہ نہ دینا اور انھیں با اختیار نہ بنانا بھی پاکستان میں آبادی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا ملک بن چکا ہے۔ اگر آبادی بڑھنے کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔

بنگلہ دیش نے بہبود آبادی کے اقدامات کے ذریعے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی اور آج اس کی آبادی تقریباََ ساڑھے سولہ کروڑ ہے، جب کہ بنگلہ دیش کے قیام کے وقت اس کی آبادی اس وقت کے مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، اگر بنگلہ دیش کی آبادی بھی اسی رفتار سے بڑھتی جس رفتار سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اس صورت میں بنگلہ دیش کی آبادی 24 کروڑ ہو جاتی ۔ لیکن بنگلہ دیش کی تمام حکومتوں اور عوام نے اپنے ملک کی آبادی کو اس تیز رفتاری سے بڑھنے نہ دیا اور آج وہ اس مسئلے پر قابو پا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کی خوشحالی ، تعلیم اور صحت عامہ کی سہولیات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

اب بھی بنگلہ دیش کو مزید قدامات کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش میں علماء کرام نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بہبود آبادی کے لیے اقدامات کی حمایت کی اور حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ تعلیمی مرکز برائے آبادی برطانیہ کے پروفیسر جان کلیلینڈ کا کہنا ہے کہ عوامی شراکت محلے اور دیہاتوں تک بہبود آبادی کے منصوبے کے ذریعے بنگلہ دیش نے بہتر نتائج حاصل کیے ۔ شادی شدہ خواتین کو دیہات کی سطح پر بھرتی کیا گیا۔ انھیں بہبود آبادی اور ادویات کی تربیت دی گئی۔ تربیت یافتہ خواتین نے گھرگھر جا کر یہ ادویات تقسیم کی۔ بنگلہ دیش میں خواتین کی تعلیم وتربیت پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ اس طرح بنگلہ دیش فی خاتون چھ بچے کی شرح کم ہوکر فی خاتون تین بچوں تک آگئی۔

دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا نے بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ بہبود آبادی کے منصوبے کے ذریعے آبادی پر قابو پایا جس کے نتیجے میں معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی میں اضافہ ہوا۔ اس کی اہم وجہ مسلم رہنمائوں کی جانب سے بہبود آبادی کی حمایت کے علاوہ ڈسٹرکٹ، دیہات اور محلے کی  سطح پر گھر گھر چلائی گئی مہم تھی۔ جس میں طبی سہولتوں کی فراہمی بھی شامل تھی۔ ہیلتھ ورکرز کی جدید خطوط پر تربیت کی گئی ۔ اس عمل کے نتیجے میں آبادی  بڑھنے  کی شرح  2.1  فیصد پر آ گئی۔ اس سے قبل یہ شرح  3.5 فیصد تھی۔

پاکستان میں بہبود آبادی کے منصوبوں میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ جہالت اور فرسودہ رسومات کے علاوہ حکومت کی عدم دلچسپی ہے۔ حال ہی میں آبادی سے متعلق سیمینار میں پہلی مرتبہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر اس مسئلے کو ایک تشویشناک مسئلہ تصور کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر اس سلسلے میں ٹاسک فورس بھی قائم کر دی گئی، لیکن بہبود آبادی کے منصوبوں کو کامیابی صرف عوام کی بھر پور شراکت کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ گھر گھر مہم چلائے بغیر عوام کی شراکت ناممکن ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ شہروں میں خصوصاغریب آبادیوں اور دیہات میں عمومی طور پر اس کی ضرورت زیادہ ہے گھرگھر مہم کے لیے افرادی قوت درکار ہے۔ وسائل محدود ہونے کی صورت میں خواتین رضاکاروں پر مشتمل گروپ بنا کر انھیں تربیت دی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں اس سلسلے میں انتہائی سنجیدگی سے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور مذہبی علماء کو اس مسئلے کے حل میں بھر پورکردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان کے محدود وسائل موجودہ آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔ آبادی بڑھنے کی صورت میں تباہی ہو گی۔ شہروں میں آبادی کا دبائو بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ ٹریفک جام ، حادثات کے علاوہ جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت کراچی کی آبادی دوکروڑ یا اس سے زائد ہے، اگر اسی رفتار سے کراچی کی آبادی بڑھتی رہی تو یہ آبادی دس کروڑ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی پانی اور نکاسی کے نظام کی کمی ہے۔ ٹریفک کا نظام انتہائی ناقص اور جدید دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بہبود آبادی کے تیز رفتار منصوبوں پر عمل درآمد کے امکانات کم ہیں لہٰذا آبادی بڑھنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں غربت ، لا قانونیت اور انتشار میں اضافے کا خطرہ موجود ہے جو پاکستان کی معیشت پر بہت زیادہ دبائوکا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کی بقا، سالمیت اور یکجہتی کو خطرات سے نکالنا پاکستان کی اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی ذمے داری ہے، اگر دانش مندی سے کام نہ لیا گیا تو آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان تمام حکومتی منصوبوں کو بہا کر لے جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اہل دانش، مصنفین، میڈیا اور علماء کو بھی اس مسئلے کی شدت کا بھر پور احساس کرنا چاہیے اور اس کے حل کے لیے اپنا موثرکردار ادا کرنا چاہیے۔

The post آبادی، وسائل اور مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2K1c0zk
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment