اسلام آباد: حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی طرف سے دی گئی تجاویز کو نظر اندازکردیا۔
سپریم کورٹ نے نومبر2018ء میں نیب قانون میں ترمیم کے جس قانون سازی کی تجویز دی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ ملزم کو احتساب عدالت میں پہلی فرصت میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب قانون کے سیکشن 16(a) کے تحت ٹرائل مکمل کرنے کے غیرحقیقی ٹائم فریم پر بھی نظرثانی ہونی چاہیئے۔ 22 صفحات کا یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لکھا تھاجوڈائریکٹر ڈویلپمنٹ کوئٹہ ڈویژن طلعت اسحاق کی درخواست ضمانت کی اپیل سننے والے لارجر بینچ کا حصہ تھے ۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ 1999ء کے نیب قانون کے جس سیکشن 9(b) کے تحت عدالتوں کو ملزموں کی ضمانتیں لینے سے روکا گیا تھا ہائیکورٹ کو یہ اختیارملنے کے بعد یہ قانون غیرموثرہوچکا ہے۔ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کو without lawful authority اور No legal effect جیسے الفاظ کو ایڈجسٹ کرنے میں مشکل پیش آتی تھی جو آئین کے آرٹیکل 199(1)(a)(ii) سے متعلقہ اور کریمنل پینل کوڈ کے سیکشن 497 کے تحت ضمانت کے بارے میں ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران اور کاروباری طبقے کااعتماد بحال کرنے کیلئے موجودہ ترامیم لازم تھیںکیونکہ یہ دونوں طبقات نیب کے بارے میں ہراساں کیے جانے کی شکایات کررہے تھے۔نیب قانون میں ترمیم کے معاملے پر آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ اس میں حکومت کے قریب سمجھے جانے والے سرکاری ملازمین اور کاروباری لوگوں کو رعایت دی گئی ہے جبکہ دوسرے طبقہ کا کہنا ہے کہ نیب کنٹرول سے باہر ہوگیا تھا لہذا اس کے اختیارات کم کرنا ضروری تھا۔ان کا کہنا ہے کہ نیب اور ایف بی آر نے ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبارکو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔
نیب کے نئے ترمیمی قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرقانون عمرگیلانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب قانون 1999ء کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ اس میں ملزم چاہے اس کے خلاف کیس کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو ضمانت سے محروم کردیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے طلعت اسحاق کیس میں اس کی نشاندہی کی تھی لیکن ترمیمی آرڈیننس میں اس خرابی کو دور نہیں کیا گیا۔کراچی میں وکیل صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ مشرف کے اس امتیازی قانون میں چیئرمین نیب کو لامحدود اختیارات دیئے گئے تھے،انہیں کیسز کو’’پک اینڈ چوز ‘‘کرنے کے علاوہ کس عدالت کو عام عدالت میں چلانا اورکس کو نیب قانون کے تحت لانا ہے کی آزادی تھی۔اگر وہ مارشل لا کا دور نہ ہوتا تو سپریم کورٹ اسفندیار ولی کیس میں ہی اسے ختم کردیتی ۔اب نئے قانون میں سرکاری افسروں ،کاروباری افراد اور ٹیکس معاملات کو اس سے نکال دیا گیا جو اچھی بات ہے۔لیکن اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ قانون صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے جو صرف چارماہ اگر توسیع کردی جائے تو زیادہ سے زیادہ آٹھ ماہ جاری رہ سکتا ہے۔
اس مدت کے گزرنے کے بعد زیر التوا کیسوں کے معاملے میں مزید ابہام پیدا ہوسکتا ہے،بہتر تھا کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں سے مل کراس پر قانون سازی کرتی ۔موجودہ حکومت احتساب کے نام پر وجود میں آئی تھی ،کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے اس قانون کے معاملے میں بھی یوٹرن لینا پڑسکتا ہے۔اس قانون کے سیکشن 24 d میں ترمیم کا اپوزیشن جماعتیں بھی مطالبہ کررہی ہیں۔
اس سیکشن کے تحت نیب انویسٹی گیشن کے دوران ہی کسی شخص کوگرفتارکرسکتی ہے۔متاثرہ افراد کے پاس داد رسی کیلئے کوئی فورم نہیں ۔حال ہی میں پیپلزپارٹی کے سینٹر فاروق ایچ نائیک نے سینٹ میں سیکشن 24 d اور 24 e میں ترامیم کیلئے ایک بل پیش کیا ہے۔
قانون کی اس Provision کا معزز شہریوں کی آزادی کے خلاف غلط استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں اس کے ذریعے استغاثہ کے حق میں بیانات دینے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے حالانکہ سچائی خواہ کچھ اور بھی ہو۔اس بل میں کہا گیا ہے کہ کسی کوزیرحراست رکھ کر انویسٹی گیشن کرنے کا کوئی جواز نہیں۔کسی شخص سے گرفتاری ڈالے بغیر بھی تو پوچھ گچھ ہوسکتی ہے ۔
The post نیب ترمیمی آرڈیننس میں سپریم کورٹ کی تجاویز نظر انداز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SBLFN6
0 comments:
Post a Comment