اسلام آباد: 2018میں حکومت سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ملائشین ہم منصب مہاتیر محمد کو اپنا رول ماڈل قرار دیا تھایہ اس لیے نہیں دونوں رہنماؤں کے علاقائی و بین الاقوامی معاملات کے بارے میں یکساں خیالات ہیں بلکہ بدعنوانی،کمزور معیشت،کرنسی کی گرتی ہوئی قدر ہو یا انتہائی غربت ،دونوں حکومتوں کو زیادہ تر چیلنجز ورثے میں ملے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چند روز قبل مہاتیر محمد نے ’’پاکتن ہڑپن‘‘کے عنوان سے بلاگ تحریر کیاجس میں انھوں نے ان حالات کی عکاسی کی جب پاکتن ہڑپن کولیشن نے چیلنجوں کا سامنا کیا اور حکومت تشکیل دی،حیر ت انگیز طور پر ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے ملکی معیشت، صنعت، گورننس اور سیکیورٹی کی کھینچی گئی تصویر اور وزیر اعظم عمران خان کو ورثے میں ملی حکومت میں انتہائی مماثلت پائی جاتی ہے۔
اپنے ایک بلاگ میں انھوں نے لکھا کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت برسراقتدار آ کر حکومت سنبھال لیتی ہے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوگااگر وہ راتوں رات اپنے تمام منصوبوں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنا دے۔
انہوں نے اس دن کا تذکرہ کیا جب دوسر ے بڑے اتحاد پاکتن ہاڑپن( بی این) نے حکومت قائم کی، اسے متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور کیسے حکومت نے ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اقدامات کئے۔ماضی کی بدعنوان حکومت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم کو لوٹا ، اس کی دولت ضائع کی،اس کے انتظامی اداروں کو برباد اور قوانین کو پامال کیا ، حد سے زیادہ قرضے لئے ، ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا ،عوام کو کسی بھی کام کیلئے رشوت دینے پر مجبور کردیا اور بالعموم عوام کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔
یقینا زیادہ تر لوگ جنہوں نے بدعنوانی سے پیسہ کمایا وہ چاہتے ہیں کہ اس سے لطف اندوز ہوں اور بدعنوانی کا یہ عمل جاری رہے لیکن عوام کی اکثریت کو ملکی ابتر صورتحال کا علم ہے اور انکی یہ بھی خواہش ہے کہ کرپٹ حکومت کا خاتمہ ہو۔ یہ ایک طرح کا معجزہ تھا کہ ایک دوسرے سے مختلف چار جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہ جماعتیں محض بدعنوان حکومت سے چھٹکارا پانے کیلئے متحد ہوئیں تھیں ورنہ ان میں سے ہر پارٹی کا نظریہ اور ایجنڈا الگ الگ تھا۔ دوسرے ممالک میں جب ایک مشترکہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو نازک اتحاد ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ ہر فریق اپنا اقتدار سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے نتیجے میں ایک تلخ جدوجہد شروع ہوجاتی ہے اور بالآخر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے۔
مشرق وسطی کے ایک ملک میں جدوجہد کا خاتمہ فوج کے اقتدار پر قابض ہونے پر ہوا لیکن ملائشیا میں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ایک غیر ممبر پارٹی اور ایک آزاد رکن جو کابینہ میں شامل تھا،کی شمولیت سے کمزور اپوزیشن اتحاد برقرار رہا ۔
انہوں نے ایک حکومت تشکیل دی اور مل کر کام کر نے اور کسی تحریری معاہدے کے بغیر کابینہ تشکیل دینے پر اتفاق کیا، یہ دوسرا معجزہ ہے۔ کابینہ کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کم سے کم وہ مل کر بحث اور فیصلے کرسکتے ہیں۔ یقینا بہت سارے سے لوگ ان کے فیصلوں پر تنقید بھی کرتے ہیں جو ایک عام سی بات ہے۔ ہر حکومت کو ہر وقت ہر کسی کی منظوری نہیں مل سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کمزور کابینہ ابھی بھی فعال ہے لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ حکومت بے سمت ہے،کیا ایسا ہی ہے؟ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں۔
ایک کھرب رنگٹ سے زائد قرضوں کے باوجود حکومت ملکی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ قرض دہندگان حکومت پر مقدمہ نہیں کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بعض تو کم شرح سود پر مزید قرضے دینے کے خواہشمند بھی ہیں۔ حکومت کی کوششوںسے قرضوں میں کمی آئی ہے۔سیاسی لحاظ سے ملک مستحکم ہے۔ یقینا حکمران اتحاد کے بعض ممبران میں بے چینی ہے لیکن یہ عام بات ہے۔
عدم اعتماد کے ووٹ سے کسی نے بھی حکومت ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور ان کو علم ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور اب معیشت ترقی کے اس مرحلے پر بہتر شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ہاں، وہاں فنڈز کا اخراج بھی تیزی سے جاری ہے جس کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں کمی آچکی ہے۔ ملائشیاء کے پاس اب بھی بڑی سیونگز موجود ہیں ۔ بینک نیگارا کے ذخائر آر ایم 400 ارب پلس کے فنڈز موجود ہیں جو بلند ترین شرح ہے۔ دوسرے فنڈز ، جیسے پی این بی ، کے ڈبلیو ایس پی ، اور بعض چھوٹے فنڈز میں آر ایم 1.5 کھرب سے زیادہ شامل ہیں۔غیر ملکی اثاثے بہت زیادہ ہیں۔
نیشنل آئل کمپنی پیٹروناس 100 ارب سے زیادہ کی آمدنی کے ساتھ بہترکام کررہی ہے۔ یہ 100فیصد حکومت کی ملکیت ہے۔ جی ہاں ، رنگٹ کی قدر میں کمی آرہی ہے۔ بہت سے دیگر ممالک میں ، اتنے حجم کے ذخائر قومی کرنسی کی مضبوطی کی ضمانت ہوتے ہیںلیکن مارکیٹ ملائیشیا کی اس مالی اور کرنسی کی اس طاقت پر بظاہر یقین نہیں کرسکتی ۔حقیقت یہ ہے کہ ملائشیاء کی معیشت اور اس کی کرنسی مضبوط ہے۔شاید مارکیٹ اور ڈی ٹریکٹرز کا خیال ایسا نہ ہو لیکن حکومت کو اپنی اقتصادی اور مالی پالیسیوں پر مکمل اعتماد ہے۔
سماجی طور پر حکومت نے مشترکہ خوشحالی سکیم کا اجراء کر دیا ہے۔ہم محض بحالی اور خوشحالی نہیں چاہتے بلکہ اپنی دولت کی مساوی تقسیم چاہتے ہیں۔ہم نے ملکی ترقی کیلئے نئے صنعتی اور زرعی منصوبوں کا آغاز کر دیا ہے،شاید ہمارے بدخواہوں کو نہیں لیکن ہمیں علم ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔ منصوبے وضع کرنے میں ہفتہ یا زیادہ کا عرصہ لگتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کیلئے کم سے کم دو سال یا زیادہ عرصہ درکار ہوتا ہے۔
دیکھنے والوں کو یہی لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا لیکن بات یہ ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔جب ملائشیاء زرعی بنیاد پر قائم معیشت سے صنعتی معیشت پر منتقل ہو رہا تھا تو اس میں بھی زیادہ عرصہ لگا لیکن ہم سے زیادہ لوگوں کو یاد نہیں اور نوجوان نسل نے تبدیلی کا یہ دور کبھی نہیں دیکھا۔آج کل زرعی ملائشیاء کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
تبدیلی اتنی جلدی نہیں آتی ،تبدیلی میں وقت لگے گا،شاید دو سال یا اس سے بھی زیادہ لیکن ہمیں یقین ہے تبدیلی ضرور آئیگی اور کئی پہلوؤں سے تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم پیپر لیس کی طرف جا رہے ہیں اور جلد کیش لیس کی جانب گامزن ہونگے۔ ڈیجیٹلائزیشن کا عمل پہلے ہی جاری ہے اور مصنوعی ذہانت کام اور تبدیلی کی رفتار تیز کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔
The post تبدیلی اتنی جلدی نہیں آتی، کم از کم2سال لگتے ہیں،مہاتیر محمد appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2R7E2Ny
0 comments:
Post a Comment