Ads

کلائمیٹ چینج ایک چیلنج

آج کل دنیا موسمیاتی تبدیلی کی شدید لپیٹ میں ہے۔ ایک طرف امریکا میں گذشتہ موسم گرما میں گرمی کی یہ شدت رہی کہ درجہ حرارت 100 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچگیا اور اب بھی شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہے تو آسٹریلیا کے جنگلات میں شدتِ گرمی سے آگ بھڑک اُٹھی ہے جس پر لاکھ کوششوں کے باوجود قابو نہیں پایا جاسکا ہے اور اس میں کروڑوں جانور جھلس گئے ہیں تو ہزاروں انسانی آبادیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ جب کہ برطانیہ میں سمندری طوفان برینڈن نے تباہی مچا رکھی ہے۔

دوسری طرف ایشیائی ممالک خصوصا ًہمارے ملک پاکستان میں شدید سردی کی لہر جاری ہے۔ملک میں گرمی پد تاریخ کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔ جس نے موسمی بھونچال پیدا کردیا ہے ۔ یہاں تک کہ ساحل سمندر پر واقع کراچی کا گرمی پد 7عشاریہ 5تک پہنچ گیا ہے جب کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے یہ درجہ حرارت 3سینٹی گریڈ تک جانے کی پیشن گوئی کی گئی ہے ۔ جب کہ اس وقت بھی ملک کے بالائی حصوں جیسے کشمیر ، اسکردو اور دیگر علاقوں میںدرجہ حرارت مائنس چھ (- 6) سینٹی گریڈ تک ہے ۔ ملک میں برساتوں ، برفباری اور ژالہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔

برفانی تودے گرنے سمیت دیگر واقعات میں 100سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ وادیِ نیلم کشمیر اور زیارت میں برفباری کا سوسالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے جب کہ ان علاقوں کے زمینی راستے بند ہوگئے ہیں یعنی یہ علاقے زمینی طور پر ملک سے کٹ کر رہ گئے ہیں ۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی (Climate Change) اس صدی کا سب سے بڑا اور عالمی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے ، جس نے نہ صرف موسمی شیڈول چارٹ کو متاثر کرکے انسانی زندگی میں ماحولیاتی بھونچال پیدا کیا ہے بلکہ ماحولیاتی ڈزاسٹر کا روپ اختیار کرکے دھرتی کے وجود کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے ۔

موسمیاتی تبدیلی کی تحقیق و تشخیص بین الاقوامی اداروں کے اہم مسائل میں سے ایک ترجیحی مسئلہ ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان نے فطرت سے صرف فائدہ حاصل کرنے پر اکتفا کیے رکھا ہے لیکن فطرت کے تحفظ پر کبھی توجہ نہیں دی ۔ 20ویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والا ماحولیاتی بحران 1950سے شدید ہونا شروع ہوا ۔ تب جاکر انسان نے محسوس کیا اور اپنی روشوں پر نظر ثانی کرنا شروع کی ۔ پھر عالمی سطح پر ماحولیاتی تحفظ ایک مشن بن گیا ۔ لیکن آج بھی دنیا میں ایسے سماج موجود ہیں جو ابھی تک شعور کی اس سطح تک نہیں پہنچ سکے ۔ دراصل ماحولیاتی تباہی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان صورتحال کو خراب رکھنے میں وہی ذمے دار ہیں ۔

جہاں دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی اس لہر سے بچنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام ہورہا ہے وہیں پر کچھ ممالک کو اس موسمیاتی تبدیلی کے اسباب پیداکرنے کا باعث بھی قرار دیا جارہا ہے ۔ دنیا میں ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے ۔ چین نے گہری راتوں میں روشنی کے انتظام کے لیے اپنا مصنوعی چاند تک بنالیا ہے ۔ لیکن کچھ ممالک کی طرف سے ٹیکنالوجی کا غلط استعمال اس دنیا کو تباہی کے راستے پر لیجانے کی وجہ بھی بن رہا ہے ۔ جس کے پیش ِ نظر کہا جارہا ہے کہ کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی ایک Warیعنی جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔

یہ طاقتور اور ٹیکنالوجی میں کمال رکھنے والے ممالک کی جانب سے دوسرے خطوں پر کیمیائی و طبعیاتی اور لیزر ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث ہورہا ہے ، جوکہ بہرحال دھرتی کے پورے گولے کے وجود کے لیے ہی خطرہ ہے۔ یعنی اگر یہ تھیوری درست ہے تو پھر یہ نہ صرف حملے کی زد میں آنیوالے ممالک کے لیے بلکہ حملہ آوروں کی تباہی کا بھی باعث ہے ۔

دھرتی کی بناوٹ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ پہلے مرحلے پر مکمل سمندر تھی اور پھر یہاں کیمیائی ردو بدل کے باعث موسمی تبدیلیوں کے ایک طویل سفر کے بعد خشک زمین کے روپ میں ظاہر ہوکر موجودہ صورت میں آئی جو آج بھی کرہ ارض کا فقط ایک حصہ ہے جب کہ باقی 3حصے اب بھی سمندر پر مشتمل ہیں ۔ سمندر قدرتی و فطرتی طور پر بیلنس ہے اور لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں سے اپنی پوزیشن پر ہی رہا ہے۔

1990کی دہائی میں امریکا میں سمندری طوفان ہو یا سندھ پاکستان کے ساحل سے ٹکرانے والا طوفان وغیرہ جیسے کچھ قدرتی حادثات جیسے زلزلہ ، طوفان یا پھر سمندری برفانی پہاڑ پکھلنے کے باعث اگر کبھی خشکی کی جانب بڑھا ہے تو اُس کی زیادہ تر وجوہات بھی انسانوں کی لاپرواہیاں ، ماحول دشمن عادات ، روش اورجنگی جنون کے ایٹمی و برقی ٹیکنالوجی کے تجرباتی اثرات رہے ہیں۔ جب کہ گذشتہ 20،25سالوں سے دنیا بھر میں احتیاطی و تدارکی اقدامات کیے جارہے ہیں اور لوگوں میں فطرت کے تحفظ کے شعور کے لیے ترغیبی تعلیم کا بھی استعمال ہورہا ہے لیکن وہ اب بھی نامکمل اجزاء ہیں کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کو روکنے اور موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے دنیا میں کیے جانے والے قدم ابھی ناکافی ہیں جب کہ دنیا میں پھیلی ماحولیاتی آلودگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دھرتی کا یہ گولہ خود ایک ہائیڈرو جن بم بن چکا ہے۔

دیکھا جائے تو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں شجر کاری کی مہم چل رہی ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا جاچکا ہے ، جس کے لیے مفت پودوں کی فراہمی کا بھی انتظام کیا گیا ہے ۔ لیکن ایک تو یہ کام سست روی کا شکار ہے ۔ دوسرا اس کے ساتھ ساتھ صنعتی فضلہ اور کیمیائی استعمال کی روک تھام پر خصوصی توجہ نہیں دی جارہی اور ان چیزوں کا سب سے بڑا شکار سمندر ہورہا ہے جس کے باعث سمندر کی سطح مسلسل بلند ہوتی جارہی ہے ۔ اوریہ تو اب سبھی جانتے ہیں کہ دھرتی کے نظام ِ ماحول سمندر کے اثرات سے ہی چل رہا ہے۔

دھرتی کا ماحولیاتی فطری نظام طبعی ، کیمیائی اور بایولوجیکل عنصروں پر مشتمل ہے ۔ اُن عنصروں کے عمل کے دوران گرین ہاؤسز گیسز موسمیاتی تبدیلیوں کا اہم سبب ہیں۔ ماحولیاتی نظام میں برسات ، روشنی ، نمی ، ہوا، درجہ حرارت وغیرہ مختلف موسمیاتی خصوصیات ہیں ۔ جو کارکردگی کے اثرات ہیں ۔رہائشی و نکاسی پالوشن کے ساتھ ساتھ صنعتی پالوشن اور لائٹ پالوشن یعنی بجلی سے روشن ہونے والی اشیاء کا بے جا استعمال بھی کلائمیٹ چینج کا بڑا سبب ہے ، جب کہ فطرتی ماحول کے تحفظ کا سب سے اہم ذریعہ میٹھا پانی اور جنگلات ہیں ۔ جنھیں انسان اپنی لاپرواہیوں اور آپسی عناد کی وجہ سے برباد کرتا رہا ہے۔کیونکہ کرہ ٔ ارض میں قدرتی وسائل کروڑوں برسوں سے مخفی حالت میں پڑے ہوئے تھے ۔

پچھلی کچھ صدیوں سے ان وسائل کو نکالنے کے بعد کثرت سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ، پھر صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی ان وسائل کا بے دریغ استعمال آلودگی کا باعث بن رہا ہے ۔ کوئلہ ، تیل اور گیس جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (CO2) پیدا ہوتی ہے یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جب پودوں اور سمندر میں جذب ہونے سے بچ جاتی ہے تو فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے ۔ پھر مختلف جنگیں بھی عالمی حرارت میں جوق درجوق اضافے کا باعث بن رہی ہیں ۔ پھر ایٹمی تابکاری تو ماحولیات میں بھیانک حد تک اثر انداز ہورہی ہے۔ جب کہ اس وقت دنیا میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس وجہ سے دنیا بھر میں ایٹمی اسلحہ اس قدر اکٹھا ہوچکا ہے کہ اس سے اس دنیا کو کئی بار تباہ کیا جاسکتا ہے ۔جب کہ دنیا کے اکثر ایٹمی پلانٹ غیر محفوظ ہیں ۔

یوں عالمی حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور اس عالمی حرارت سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں ۔ جہاں خشکی ہے وہاں بارشیں ہورہی ہیں اور جہاں بارشیں ہیں وہاں خشکی کی صورتحال ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح کچھ علاقوں میں قحط طاری ہوسکتا ہے اور کچھ علاقے سیلاب کی لپیٹ میں آسکتے ہیں ۔

عالمی حرارت کوکم کرنے کے لیے یا پھر کم از کم اُسے بڑھنے سے روکنے کے لیے معاشرے میں گلوبل وارمنگ کے خطرات اور اس کے تدارکی اقدامات سے آگاہی کو عام کیا جاناچاہیے ، جب کہ قابل ِ تجدید توانائی کے استعمال کے قوانین ہر ملک میں سختی سے لاگو کرنا بھی لازم ہوگیا ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ ماحول دوست درختوں (یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے درخت) پر مبنی شجر کاری بڑے پیمانے پر ہونی چاہیے ۔کیونکہ پیڑ اور پودے کاربان ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے دنیا کو گرم ہونے سے بچاتے ہیں یعنی عالمی حرارت کو کم کرنے میں معاون ہوتے ہیں جب کہ صنعتی فضلے کی ٹریٹمنٹ اور میٹھے پانی کی ری سائیکلنگ کی پالیسی بھی اس میں نمایاں معاونتکرسکتی ہے ۔

موسمیاتی تبدیلی یعنی Climate Changeکی اس تمام صورتحال کے پیچھے ایک تھیوری یہ بھی گردش میں رہی ہے کہ عالمی سامراجی قوتوں کی جانب سے دنیا پر کنٹرول کے لیے ٹیکنالوجی کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے ۔ جس کا سب سے پہلا ثبوت کئی سال قبل امریکی قومی سلامتی کے مشیر زبگ نیو برزرینسکی کی کتاب ’’ دو عصرکے درمیان ‘‘ سے ملتا ہے ۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ ٹیکنالوجی اہم عالمی قوتوں کے رہنماؤں کو وہ طریقے بتائے گی جن سے وہ اپنے مخالف ممالک کے خلاف خفیہ جنگیں کرسکتے ہیں ۔ موسموں میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کے طریقے استعمال کرکے اُن ممالک میں طویل عرصہ تک چلنے والا قحط یا طوفان برپا کرسکتے ہیں ‘‘۔

جب کہ اے آر جیرل کہتے ہیں کہ ’’اب جو اطلاعات ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا میں جو ٹیکنالوجی High Freguency active aural research Program (HAARP) کے ماتحت تشکیل دی جارہی ہے ، وہ ستاروں کی جنگوں کے منصوبے کا حصہ ہے ۔ یہ پروگرام امریکا کی ریاست الاسکا کے شہر ’گوکوما‘ میں جاری ہے ۔ اس کا انتظام امریکی ایئرفورس اور نیوی مشترکہ طور پر چلارہی ہیں‘‘ ۔

جب کہ HAARPیعنی عام مخلوقات کو ختم کرسکنے والے موسمی ہتھیار کے خلاف جدوجہد کرنے والے معروف سائنسدان نکولس بیگچ کا کہنا ہے کہ ’’یہ ٹیکنالوجی طاقتور ریڈیائی لہروں کو استعمال کرنے سے خلائی دنیا کی کئی اراضیوں کے اوپر یہ لہریں استعمال کرکے اہدافی اراضیوں کو گرماکر آگ بنادیتی ہے ، جس کے بعد بجلی و مقناطیس کی لہریں اُن گرم خلائی اراضیوں سے ٹکراکر جب دھرتی کی طرف پلٹتی ہیں تب جو بھی دنیاکی چیز، زندہ یا مردہ ، سامنے آتی ہے اُس میں سماجاتی ہیں ‘‘۔

3نومبر 2000کو لندن کے معروف اخبار ’ٹائمز‘ میں مشہور ِ زمانہ خاتون سائنسدان ڈاکٹر روزلی برٹیلس نے اپنے ایک مضمون میں اس بات کی تصدیق کی کہ ’’امریکا کے فوجی سائنسدان اس پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں کہ موسمی نظاموں کو کیسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ اس میں جو طریقے استعمال کرنے پر کام ہورہا ہے اُن سے دھرتی کے خلائی ماحول میں زبردست طوفان برپا کیا جائے اور نمی و ندیوں کے رخ موڑ کر جہاں چاہے وہاں پانی کو مکمل خشک کرکے قحط پیداکیا جاسکے اور جہاں چاہے وہاں زبردست سیلاب لائے جاسکیں ‘‘۔

وہ اپنے مذکورہ مضمون میں HAARPکو ایک بڑا اجگر جیسا ہیٹر قرار دیکر کہتی ہیں کہ ’’یہ دھرتی کی خلائی دیوار (اوزون) کو جگہ جگہ سے توڑ کر دھرتی کے گولے کو تپا کر انگارے بناسکتا ہے ‘‘۔ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فوجی ہتھیار ہارپ (HAARP) ایٹم اور ہائیڈروجن بموں سے بھی کئی گنا زیادہ تباہی برپا کرنے والا خطرناک ہتھیار ہے ۔ جو کہ صرف انسان نے دنیا و خلاء پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی حوس میں تیار کیاہے ۔

جب کہ سائنسی تجزیہ کاروں کی جانب سے ہیرو شما اور ناگاساکی میںایٹم بم کے تجربے کی طرح اس ٹیکنالوجی کے تجربے کا شک ظاہر کیا جارہا ہے ۔ جوکہ ایشیا میں 2010-11میں کیا گیا جس کے نتیجے میں انڈونیشیا، جاپان اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں دریائی و سمندری سیلاب نے ان ممالک کو شدید تباہی سے دوچار کیا ۔ جب کہ دنیا کے کئی سائنسدان 2004میں آنیوالے سونامی کو بھی اسی ٹیکنالوجی کے تجربے سے جوڑتے ہیں اور اس کام میں وہ امریکا اور اسرائیل کو دوبڑے سانجھی قرار دیتے ہیں ۔اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں ۔

تحقیق ایک اچھا اور اہم کام ہے لیکن اُسے انسانیت کے تحفظ و فائدے اور اس کائنات کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے کی مد میں ہونا چاہیے ناں کہ اُس سے تباہی و بربادی کی راہیں ہموار کرنی چاہئیں ۔ اس لیے اقوام متحدہ کو چاہیے کہ ایسے تمام پروگراموں کو ترک کرنے اور ایسے تمام ہتھیاروں کے خاتمے کا چارٹر آف ڈیمانڈ ترتیب دیکر اس دنیا کو نہ صرف محفوظ سے محفوظ تر بنانے کے سائنسی و تحقیقی پروگرام شروع کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں بلکہ اس دھرتی کو تمام مخلوقات کے لیے موافق قدرتی و فطرتی ماحول کی فراہمی کے قابل بنایا جاسکے۔

کیونکہ یہ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ۔ جو ایسے پروگرام سے ٹارگٹ ہیں وہ تو چھوڑیں ، اس پروگرام کے خالق بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں ۔ جس کی مثال HAARPپروگرام ہے ، جو امریکا نے مخالفین کو ختم کرنے اور اپنے تحفظ کے لیے بنایا ہے لیکن باوجود ایسی ٹیکنالوجی کے امریکا اپنے ملک میں جاری حالیہ جسم کو جھلسادینے والی شدید گرمی پر بھی قابو نہیں پاسکا ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فطرتی ماحول کو فطرت کے قدرتی عمل کے جاری رہنے سے ہی محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ قدرت و فطرت کے اُصولوں کے خلاف کوئی بھی قدم اس کائنات کی بربادی کے ساتھ ساتھ قدم اُٹھانے والے کو بھی نیست و نابود کردیگا ۔

جہاں تک بات ہے پاکستان کی توہمارے اس ملک میں قدرت کا عطا کردہ فطرتی ماحول نہایت شاندار رہا ہے ۔ لیکن ہم نے اپنی لاپرواہیوں اورآپسی رنجشوں و عناد میں اِسے تباہ کردیا ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے کو ہ ِ ہمالیہ سے سمندر تک پھیلی اس وادی میں ماضی کے فطرتی ماحول کو دوبارہ بحال کیا جاسکے ۔ جس کے لیے صنعتوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کے قانون کا سختی سے اطلاق ، صنعتی فضلے کو ٹریٹمنٹ کے بعد محفوظ طریقے سے ضایع کرنے ، نکاسی ِ آب کو Recycle کر کے دوبارہ استعمال کرنے پر عمل شروع کیا جائے ۔

تابکاری ہتھیاروں کا اثر کم سے کم کیا جائے اور سمندری صفائی کو عالمی اُصولوں پر ہونے کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انڈس ڈیلٹا کی بحالی اور دریاؤں کی زیادہ سے زیادہ روانی کو یقینی بنایاجائے جب کہ سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ قدرتی جھیلیںماحولیات کو تحفظ فراہم کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ اس لیے سیف الملوک ، منچھر ، کینجھر، چوٹیاریوں، تھر کی گوڑانوجھیل اور حنا جھیل سمیت ملک کی تمام جھیلوں کی لازمی طور پر بحالی کے ساتھ ساتھ انھیں توسیع دیکر اس خطرے سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ اور سب سے بڑی بات ملک میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ، جن میں بھی گھنے جنگلات کی اہمیت ہے جوکہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں ماضی میں قائم تھے انھیں بحال کرنے کے ساتھ ساتھ کینالوں ، شاہراہوں اور سڑکوں کی سائیڈوں پرماحول دوست درخت لگائے جائیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کردہ ایک ارب درخت ان سے علیحدہ ہونے چاہئیں جو کہ گھروں ، گلیوں اور پارکوں و زمینوں میں لگائے جائیں ۔

پنجاب کے صنعتی و سیم کے پانی نے سندھ میں دریائے سندھ کی بائیں جانب بھیانک تباہی برپا کی ہوئی ہے ، اُس کے تدارکی اقدامات بھی لازمی ہیں کیونکہ سندھ سمندر کا ساحلی صوبہ ہے جہاں سمندر کی تباہی کے اثرات زیادہ ہیں اورملک کو سمندر کے اثرات کے باعث پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں (Climate Change) سے بچانے کے لیے سندھ کو زیادہ سے زیادہ سمندر سے Resist کرنے کے اہل بنانا لازمی امر بن چکا ہے ۔ ساتھ ہی سمندر کی ساحلی پٹی میں مینگروز کی کاشت کو بھی یقینی بنایا جائے جب کہ سبز کچھوے سمیت دیگرماحول دوست سمندری میمل جانوروں اور مچھلیوں کی افزائش کو بھی یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں دریائے چناب اور جہلم میں وقت بہ وقت اچانک پانی آنے سے ہونے والی تباہی سے محفوظ رہنے کا بھی انتظام کیا جائے۔

The post کلائمیٹ چینج ایک چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2G3pjg7
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment