Ads

تجربہ گاہ میں افزائش کردہ خلیات پہلی مرتبہ انسانی دل میں منتقل

ٹوکیو: انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تجربہ گاہ میں افزائش کئے گئے خلیات انسانی دل کو لگائے گئے ہیں۔ دنیا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

اسے شکستہ دلوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جو ہارٹ اٹیک یا کسی اور عارضے میں شدید متاثرہوتے ہیں۔ توقع ہے کہ اس سے دل کے علاج کی نئی انقلابی راہیں کھلیں گی۔ یہ ٹیکنالوجی کیوٹو یونیورسٹی میں وضع کی گئی تھی جسے 2006 میں طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

یہ طریقہ علاج دوبارہ افزائش یعنی ری جنریٹوو میڈیسن کے زمرے میں شامل ہے جس میں تجربہ گاہ میں خاص اسٹیم سیل بنائے جاتے ہیں۔ ان خلیات کو ’انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز‘‘ (آئی پی ایس سی) کہا جاتا ہے۔ کسی عطیہ دینے والے شخص کے خلیات اور بافتوں کو لے کر انہیں ایک مفید وائرس کا سامنا کرایا جاتا ہے جس کے بعد اسٹیم سیل کسی بھی طرح کے خلیات میں ڈھل سکتے ہیں جن میں دل کے خلیات بھی شامل ہیں۔

اوساکا یونیورسٹی کے پروفیسر یوشیکی ساوا اور ان کے ساتھیوں نے پہلے مریض پر اس کا تجربہ کیا ہے اور اس سال مزید نو مریضوں میں خلیات کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔ پہلے آئی پی ایس سی کے عمل سے انسانی قلب کے دس کروڑ خلیات بنائے جاتے ہیں اور انہیں مریض میں داخل کیا جاتا ہے۔ موافق ماحول پر وہ دل کے متاثرہ حصوں کی افزائش شروع کردیتے ہیں اور دل دھیرے دھیرے صحت مند ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل چوہوں اور خنزیر پر اس کے انتہائی کامیاب تجربات کئے گئے ہیں ۔ ہر طرح کی تسلی کے بعد اب اسے انسانوں پر آزمایا گیا ہے۔

ایک ماہ قبل مریض میں یہ خلیات داخل کئے گئے تھے اور اب وہ تیزی سے بحال ہورہا ہے۔ خلیات کو ایک خاص مٹیریل کی شیٹ پر رکھ کر دل پر چپکایا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ شیٹ ازخود گھل کر ختم ہوجاتی ہے اور یوں خلیات دل کا حصہ بن کر وہاں اپنی کارکردگی بڑھانے لگتے ہیں۔ تاہم اس مریض کا پورے سال مسلسل معائنہ کیا جائے گا۔

جاپانی ڈاکٹروں کے مطابق یہ ٹیکنالوجی دل کے لیے ایک انقلابی علاج ثابت ہوگی۔

The post تجربہ گاہ میں افزائش کردہ خلیات پہلی مرتبہ انسانی دل میں منتقل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37ISZLL
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment