Ads

حکومتی بے حسی اور عوامی تاثرات

کہتے ہیں کہ تاثر حقیقت سے زیادہ پر اثر ہوتا ہے اور آج کل وطن عزیز کے پریشان حال عوام میں ایک سے زیادہ اس طرح کے تاثرات جنم لے چکے ہیں اور آہستہ آہستہ مضبوط ہوتے جا رہے اور جڑ پکڑتے جا رہے ہیں کہ انھیں نا اہلوں ، غیر ذمے دارروں اور بے حس قسم کے حکومتی رویوں کا شکار بنا کر جیسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہ نا اہلی ، غیر ذمے داری اور بے حسی سرکاری اداروں ، اہلکاروں ، حکومتی ذمے داران ، ریاست کے ستون کہلائے جانے والے دائمی اداروں یعنی مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کی اعلیٰ ترین سطح پر بھی نمایاں ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے درمیان عدم اعتماد اور عدم تعاون کی فضا بھی عوامی مسائل کو اور بھی زیادہ گھمبیر اور دوآشتہ بناتی چلی جا رہی ہے۔

پچھلی حکومتوں کی نا اہلی کا الاپا جانے والا راگ اور تواتر سے دہرایا جانے والا منتر نہ صرف بے اثر ہوتا جا رہا ہے بلکہ ڈر ہے کہ اب عملیات کی زبان میں اگر بیان کریں تو کہیں یہ منتر اب رجعت کا مظہر نہ بن جائے  یعنی الٹا اثر نہ ہو جائے اور اگر ایسا ہو گیا تو رہی سہی حکومتی مٹی بھی پلید ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

جب لوگ پانی خرید کر پیتے ہوں اور پانی کی تجارت ، جو کہ ویسے ہی شرعی لحاظ سے مکروہ قرار دی گئی ہے، ایک منافع بخش پیشہ بن چکی ہو، خاص طور پر شہری علاقوں میں آر او پلانٹس کی ہر جانب بھر مار اور اس میں روز افزوں اضافہ مشاہدے میں آ رہا ہو اور گھر ، گھر لوگ گہری سے گہری بورنگ کروانے پر مجبور ہو گئے ہوں کہ پانی کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور کسی طرح گزارہ نہیں ، حالانکہ یہ عمل زیر زمین پانی کے ذخائرکو کس بری طرح خراب کر رہا ہے اور دیگر کئی ارضیاتی سائنسی نوعیت کے مسائل پیدا ہو رہے جن کی طرف ماہرین بار بار توجہ مبذول کرا رہے ہیں کہ پانی کے حصول اور تجارت کی یہ سرگرمی مستقبل میں نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے، مگر حکومتی بے حسی کی وجہ سے لوگ اس طرح کے اخراجات کرنے پر مجبور ہیں۔

پھر بجلی کے لیے سولر پینل اور دیگر متبادل ذرایع پر عوام الگ سے پیسہ خرچ کرنے پر بھی مجبور ہیں کہ بجلی کے نجی ادارے اور واپڈا وغیرہ تو اپنی اپنی حدود میں صارفین پر لوڈ شیڈنگ ، اوور بلنگ اور نرخوں میں روز افزوں اضافوں کا قہر ڈھانے میں مصروف ہیں کہ ریٹ تو ان کے ترقی یافتہ ممالک والے ہیں اور کارگردگی تیسرے درجے سے بھی کم کی، تو بجلی بھی نجی ذرایع سے اپنے خرچے پر حاصل کرنی پڑ رہی ہو۔

تعلیم ، صحت کا حال بھی سرکاری شعبوں میں بربادی و زوال کی انتہا کو چھو رہا ہے تو بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے پر بھی خود ہی خرچہ کرو ، پھر ٹرانسپورٹ کے معاملات میں سرکاری شعبے کا حال کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے تو وہاں بھی ریاست سے کچھ سہولت ملنے کا امکان نہیں۔ مہنگائی اس طرح بڑھ رہی ہے جیسے کہ بانس کا پودا روز ہی بڑھتا چلا جاتا ہے اور لوگوں کی قوت خرید گھٹتی ہی جا رہی ہے اور ان سب باتوں کے باوجود دسیوں طرح کے ان ڈائریکٹ ٹیکس پاکستان میں رہنے والا ہر شہری اپنی ہر ہر خریداری پر دینے پر مجبور ہے اور پھر اس پر حکومتی عمائدین اور وزیر اعظم عوام سے ’’ ٹیکس دو، ٹیکس دو‘‘کی اپیل کرتے اور ترقی یافتہ ممالک کی مثال دیتے ہوئے کتنے حق بجانب نظر آتے ہیں اس کا فیصلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

پھر مافیاز کا ایک ہجوم ہے جس نے جونکوں کی طرح بیچارے عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ ایک کے بعد ایک نیا بحران تخلیق کیا جاتا ہے اور ٹھگی کے جدید طریقوں سے عوام سے پیسہ نکالا جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی سرکار ان چھوٹی بڑی مافیاز کے سامنے نہ صرف بے بس ہے بلکہ ان مافیاز کے کئی کار پردازان کو جیسے ایک طرح سے سرکاری سر پرستی حاصل ہے۔

ٹیکس وہ ریاست مانگتے ہوئے اچھی لگتی ہے جہاں ٹیکس کے پیسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتے ہوئے نظر آئیں، جہاں ٹیکس کے پیسوں کے غلط اور ناجائز استعمال پر طوفان کھڑا ہو جائے اور حکومت کو جواب دہی کرنا مشکل ہو جائے، جہاں حکومتی عمال نمائشی اور صرف بیانیہ طور پر نہیں بلکہ حقیقتا عوام کے خادم ہوں جہاں متعلقہ وزارتیں چلانے والے وزراء اپنی وزارتوں کے معاملات کا شعور رکھتے ہوں ، اپنی ایک ٹیم رکھتے ہوں جو فنی اور پیشہ وارانہ معاملات پر عبور رکھنے والے ماہرین پر مشتمل ہو اور معاملات احسن طریقے سے عوامی بھلائی کے حساب سے چل رہے ہوں تو پھر عوام بھی خوشی سے ٹیکس دیتے ہیں اور اسے اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔

لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی کو کچھ پروا ہی نہیں۔ ایک عجب لاتعلقی اور بے حسی کا سا عالم نظر آتا ہے۔ جمہوری بزرجمہروں یا بچے جموروں کے غلط فیصلوں سے بڑے سے بڑا نقصان ہو جائے تو بھی یہ لاڈلے ذمے داران بڑی معصومیت سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور اگر کہیں کوئی پوچھ گچھ کا خدشہ بھی پیدا ہونے لگے تو قانون ہی تبدیل کر دیے جاتے ہیِں۔ نا اہل زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے یا بد عنوان یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے لیکن جب ان دونوں صفات رزیلہ کا اجتماع ہو جائے تو پھر ایسے نا اہل اور بدعنوان افراد کس طرح قوموں کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے اوراق میں بکھری ہوئی ہیں، اور کم قسمتی سے اب ایسا نظر آنا شروع ہو چلا ہے کہ ہم عوام بیک وقت نا اہلوں اور بد عنوانوں کی دہری مار کی زد پر آ گئے ہیں۔

صرف دل خوش کن اعلانات سے اب قوم نہیں بہلنے والی ، عوامی غیظ و غضب کا لاوا دھیرے دھیرے پکتا جا رہا ہے اور جب یہ کسی وقت اپنے نکتہ عروج پر آ جائے گا اور یہ آتش فشاں جب پھٹے گا تو پھرکیا کیا نقصانات ہوں گے، اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔ ابھی تو غربت مہنگائی اور ریاستی بے حسی کے شکار عوام اپنی جانیں لے رہے اور انتہائی بے بسی کے عالم میں خود کو مار رہے ہیں لیکن اگر ان کی اس بے بسی نے غیظ و قہر کا روپ دھار کر عالیشان ایوانوں کا رخ کر لیا تو مجھے لگتا ہے کہ لوگ انقلاب فرانس کو بھول جائیں گے۔

اب بھی وقت ہے کہ یہ بے حسی کا چولا اتارا جائے، بڑی بڑی مثالیں دینے اور فکر انگیز قسم کی دانشوارانہ لفاظی کرنے کی بجائے ان وعدوں کو پورا کرنے کی جانب توجہ دی جائے، جن کے سہارے تبدیلی سرکار اقتدار کے ایوانوں میں پہنچی ہے۔ اب باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات اور کام کرنے سے کام بنتا نظر آئے گا۔ احتساب کی سب سے زیادہ ضرورت تو سرکاری عہدوں اور حکومتی معاملات کے ذمے داران پر لاگو کرنے کی ہے بہ نسبت ماضی کے مزاروں میں پڑے مردے خراب کرنے کی۔

اب انفارمیشن کا زمانہ ہے اور لوگوں کے پاس معلومات کے حصول کے اتنے ذرایع موجود ہیں کہ آپ کسی بات کو زیادہ دیر تک چھپا اور گھما پھرا نہیں سکتے جلد یا بدیر پردہ فاش ہو ہی جاتا ہے، تو قومی مفادکے نام پر بہلاوے اور گمراہ کن اطلاعات دینے کی بجائے اگر سچ نہیں بول سکتے تو کم ازکم جھوٹ بولنا ہی ترک کر دیں اور ان بلبلاتے لوگوں کی داد رسی کے لیے نیک نیتی سے عملی اقدامات کرنا شروع کر ہی دیں ورنہ کہیں خاکم بدہن بہت دیر نہ ہو جائے۔

The post حکومتی بے حسی اور عوامی تاثرات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GG6tMk
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment